ظفر آغا
آپ کو مظفر نگر یاد ہے ؟ جی ہاں ہر کسی کو یہ یاد ہے کہ مظفر نگر میں کوئی ڈیڑھ سال قبل فساد ہوئے تھے ۔ ان فسادات پر ہم ہندوستانی مسلمانوں نے بہت شور مچایا تھا ۔ ایک مسلمان کیا سب کو ہی ان فسادات پر غصہ تھا ۔ لیکن اس سے بھی زیادہ احتجاج تب ہوا جب پچھلی سخت سردیوں کے موسم میں ٹی وی چینلوں نے مظفر نگر فساد متاثرین کی سردیوں سے بے حال تصویریں نشر کرنی شروع کیں ۔ لوگ بھاگ بھاگ کر متاثرین کی امداد کو پہنچے ۔ پھر گرمیاں آگئیں اور آہستہ آہستہ مظفر نگر ذہنوں سے اوجھل ہوگیا۔ ہم مظفر نگر فساد متاثرین کی بدحالی بھول گئے ۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ موجودہ موسم سرما میں مظفر نگر فساد متاثرین کا کیا حال ہے ؟ جی نہیں ! ہم اور آپ تمام فسادات پر آنسو بہا کر اس کے متاثرین کو جس طرح بھول جاتے ہیں ویسے ہی مظفر نگر فساد متاثرین کو بھی بھول گئے ۔ اب کس کو فکر کہ مظفر نگر کے کیمپوں میں کیا ہورہا ہے ۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ اس برس محض جاریہ جنوری کے مہینے میں مظفر نگر فساد متاثرین کیمپوں میں تقریباً پچاس افراد ٹھنڈ سے مرچکے ہیں ۔ ابھی سردیاں ختم نہیں ہوئی ہیں اور کتنے اللہ کو پیارے ہوجائیں کیا پتہ؟
ایک مظفر نگر کا کیا ذکر؟ اسی صوبہ اترپردیش میں 1986 ء میں ہونے والے ملیانہ فساد پر ہم سب نے کس قدر شور مچایا تھا ۔ کروڑوں روپئے وہاں کے فساد متاثرین کی امداد کے لئے جمع ہوئے ۔ سنتے ہیں اس وقت کے ایک مشہور قائد ملت کے اکاونٹ میں ملیانہ فساد متاثرین کی امداد کے کروڑوں روپئے جمع ہیں ۔ لیکن وہ یتیم جن کے باپ ، بھائی ملیانہ میں پولیس مظالم کا شکار ہوئے وہ بغیر کسی امداد کے اب جوان کیا ، اپنی آدھی عمر بھی کاٹ چکے ۔ ہمارا اب یہ شیوہ بن چکا ہے کہ ہر فساد کے بعد ہم شور مچاتے ہیں ، کچھ قائد فوراً ملت کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ ایک ہندوستان کیا ، تمام عرب ممالک اور یوروپ و امریکہ میں رہ رہے ہندوستانیوں سے فساد متاثرین کے لئے چندہ جمع ہوتا ہے ۔ کچھ کمبل وغیرہ متاثرین کو مل جاتے ہیں ۔ پھر وہ روپیہ پیسہ کہاں جاتا ہے کسی کوکچھ خبر نہیں ہوتی ۔
سچ پوچھئے تو ہندوستانی مسلمانوں کی دشمن بی جے پی اور آر ایس ایس نہیں ہے ۔ اس ملک کے مسلمانوں کے دشمن وہ قائدین ملت ہیں جو مسلمانوں کو اپنی جذباتی تقاریر سے بھڑکاتے ہیں یا پھر مظفر نگر جیسے فسادات پر گھڑیالی آنسو بہا کر امداد کے نام پر اپنی جھولیاں بھرتے ہیں اور فساد متاثرین ٹھنڈ سے مرتے ہیں ۔ آخر یہ ہندوستانی مسلمانوں کی ایسی بدحالی کیوں کہ وہ اپنے فساد متاثرین کی امداد سے بھی قاصر ہیں ؟ کہنے کو تو ہمارے ہر دکھ درد کا ذمہ سرکار کا ہوتا ہے لیکن اسی ملک میں ایک اور بہت بڑا فساد ہوا تھا اور اس فساد کے تعلق سے اس وقت کی سرکار پر آج تک طرح طرح کے الزامات عائد کئے گئے تھے ۔ وہ تھا دہلی میں ہونے والا 1984 کا فساد ! لیکن اس فساد میں مسلمان نہیں سکھ مارے گئے تھے ۔ مجھ کو آج تک یاد ہے کہ سکھ فساد متاثرین کی امداد کے لئے سکھ افراد اور تنظیموں نے کروڑہا روپئے جمع کئے ، جن سے دیکھتے دیکھتے سکھ متاثرین پھر اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے ۔ ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ سکھوں کی تعداد اس ملک میں ایک کروڑ سے زیادہ نہیں ہے ۔ لیکن ایک کروڑ سکھ فساد متاثرین کی ٹھیک طور پر امداد کرسکتے ہیں اس کے برخلاف پندرہ بیس کروڑ مسلمان ایک مظفر نگر فساد متاثرین کو سردی سے نہیں بچاسکتے ہیں ۔
کیا تنظیموں کی کمی ہے ہندوستان مسلمانوں میں؟ یہ جماعت ، وہ جمیعت ، وہ بورڈ تو وہ اتحاد بین المسلمین تحریک نہ جانے کتنی جماعتیں اور جمیعتیں سرگرم ہیں ۔ پھر اب تو مسلمانوں کی دم بھرنے والی سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے قائدین کے ساتھ سرگرم ہیں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب تنظیمیں کم اور دوکانیں زیادہ ہیں ۔ دراصل بابری مسجد واقعہ کے بعد سے اب تک نام نہاد مسلم قیادت نے مسلمانوں کی مجبوری اور لاچاری کو ایک منظم کاروبار کی شکل دے دی ہے ۔ ادھر فساد ہوا نہیں اور امداد ، چندے کی اپیلیں چھپ گئیں ۔ کوئی متاثرین کے لئے مکان بنانے کو چندہ جمع کررہا ہے تو کوئی کسی اور نام پر چندہ جمع کررہا ہے ۔ ہر بڑی دکان والا عرب ، یوروپ اور امریکہ کا رخ کرتا ہے ۔ اب تو باقاعدہ لوگوں سے چندہ بٹورنے کے لئے فلم کے ساتھ ان تمام جگہوں پر پاور پوائنٹ کے ذریعہ فساد متاثرین کے مظالم اور ان کی بے چارگی کی پبلسٹی ہوتی ہے ۔ بڑے بڑے باریش قائد ملت آنسوؤں کے ساتھ مسلمانوںکا درد بیان کرتے ہیں ۔ پیسہ جمع ہوتا ہے ۔ واپس لوٹ کر کچھ امداد کا کام ہوتا ہے ۔ اس کی بھی فلم بنتی ہے ۔ کثیر رقم اپنے بینک اکاونٹ میں چلی جاتی ہے ۔ پھر سردی کا موسم آتا ہے تو مظفر نگر فساد متاثرین کیمپوں میں سردی سے مرتے ہیں اور ان کا پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ کیونکہ اب قائدین کو چندے کی رقم ملنے کی امید ختم ہوچکی ہوتی ہے ۔
یہ تلخ باتیں یقیناً ناگوار گزر سکتی ہیں لیکن ایک ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا میں مسلم مسئلہ کا سب سے اہم جزو خود مسلم قائدین اور مسلم جماعتیں ہیں ۔ وہی جذباتی تقریریں ، اسلام خطرے میں جیسے نعرے کب تک؟ ۔ہم امریکہ ، یہودی اور یہاں آر ایس ایس کے خلاف مسلم مخالفت کا الزام لگاتے ہیں ۔ لیکن القاعدہ کے خلاف خاموش رہتے ہیں جو پشاور میں اسکولی بچوں کو مارنے اور فرانس میں دہشت پھیلانے کا سبق دیتے ہیں ۔
ہم مسلمان آر ایس ایس ، امریکہ اور یہودیوں کو بہت کچھ کہہ سن چکے ۔ اب اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کا وقت آچکا ہے ۔ اس بات کا وقت ہے کہ اس دور میں جو جہاد اور دہشت گرد سیاست کی بات کرے اس کو اسلام و مسلم دشمن کہا جائے ۔ ایسے قائدین ملت سے گریز کیا جائے جو جذباتی تقاریر کرتے ہوں ۔ کسی بھی فرقے یا مذہب کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کی مخالفت کی جانی چاہئے ۔ خواہ و عالم دین ہی کیوں نہ ہوں ۔ ان تمام باتوں کے لئے ایک ایسا پلیٹ فارم ہو جس کی قیادت مسلم مڈل کلاس کے پاس ہو ،جو کھلی اور صحت مند اور خود بھی سیکولر سیاست کرسکے ۔