ہم غریبوں سے جو الجھے گا فنا ہوجائے گا

پارلیمنٹ نوٹ بندی کی نذر … مودی زبان بندی برقرار
کیوں ہوئے اڈوانی ناراض … یو پی اور پنجاب کا خوف

رشیدالدین
’’سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو‘‘ نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں جب ندا فاضلی کا یہ مصرعہ پڑھا تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ نوٹ بندی کے ذریعہ عوام پر مصیبت آنے والی ہے۔ نریندر مودی کو اقتدار پر فائز کر کے عوام اچھے دن کا خواب دیکھ رہے تھے لیکن وزیراعظم بنتے ہی انہوں نے دھوپ میں چلنے کا اشارہ دے دیا۔ عوام مہنگائی کی مار سے ابھی ابھرے نہیں کہ نوٹ بندی نے انہیں محتاج بنادیا۔ اگر نوٹ بندی کی مشکلات اور مصیبت دھوپ میں چلنا ہو تو پھر ’’کٹھن حالات‘‘ کیا ہوسکتے ہیں، جس کا اشارہ مودی نے گزشتہ دنوں دیا تھا ۔ نوٹ بندی کے بعد عوام پر جو کچھ بھی بیت رہی ہے ، اس سے کٹھن دن کا مطلب واضح ہونے لگا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وزیراعظم آنے والے دنوں میں عام ایمرجنسی کے نفاذ کی تیاری کر رہے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق بعض انسان دوسروں کو مصیبت اور اذیت دیکر راحت و سکون محسوس کرتے ہیں اور دنیا  میں اسی فطرت کے حامل بعض حکمراں بھی گزرے ہیں۔ تباہی بربادی اور خون خرابہ سے تسکین قلب کا سامان کرنے والے حکمراں ابھی بھی دکھائی دیتے ہیں جو دوسرے ممالک میں خونی کھیل کھیل رہے ہیں۔ نریندر مودی کا مزاج بھی ماہرین کے مطابق کچھ اسی طرح کا ہے اور گجرات کا پس منظر اس کا ثبوت ہے۔ گجرات میں مسلمانوںکی تباہی کا نظارہ کرنے کے بعد اب تو ساری قوم کو نوٹ بندی کے ذریعہ اذیت میں مبتلا کر کے وہ قہقہ لگا رہے ہیں۔ نوٹ بندی کے اثرات مودی کو وزیراعظم کی حیثیت سے کس طرح محسوس ہوں گے۔ اگر نریندر مودی ایک ماہ اپنے اخراجات کا انتظام خود کریں تو اندازہ ہوگا کہ دو ہزار روپئے کے لئے طویل قطاروں میں کس طرح ٹھہرنا پڑتا ہے۔ اگر وہ ایسا تجربہ کرلیں تو وزیراعظم کی ذمہ داری بھول جائیں گے۔ اسی لئے بعض مبصرین نے کہا ہے کہ صرف گھر گرہستی والا شخص ہی نوٹ بندی کے نقصانات کو محسوس کرسکتا ہے ۔ وزیراعظم نے نوٹ بندی کے اعلان کے ساتھ صورتحال میں بہترین کیلئے 50 دن کا وقت مانگا تھا اور 40 دن مکمل ہوچکے ہیں اور نوٹ بندی کا چہلم منایا گیا۔ ظاہر ہے کہ کسی عزیز کے دنیا سے گزر جانے پر بطور غم چہلم منایا جاتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح نوٹ بندی بھی کسی غم سے کم نہیں۔ 40 دن گزرنے کے باوجود صورتحال سدھار کے بجائے مزید سنگین اور بحران کی طرف مائل دکھائی دے رہی ہے۔ ملک بھرمیں عوام کی زندگی اور روز مرہ کے معاملات جیسے تھم سے گئے ہیں اور کوئی بھی ریاست اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں۔ ترقیاتی اور فلاحی اسکیمات ٹھپ ہوچکی ہے ۔ ملک کو ترقی کی پٹری سے اتارنے والے اس فیصلہ پر پارلیمنٹ میں بھی بحث نہ ہوسکی۔ پارلیمنٹ کا مکمل سیشن نوٹ بندی کی نذر ہوگیا ۔ ملک کو انتظار تھا کہ وزیراعظم اپنے فیصلے کی وجوہات سے قوم کو واقف کرائیں گے لیکن پارلیمنٹ کے در و دیوار نریندر مودی کی آواز کو سننے ترستے رہے جبکہ مودی ٹی وی ، ریڈیو اور عام جلسوں کا سہارا لینے میں عافیت محسوس کر رہے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ پارلیمنٹ میں لب کشائی انہیں مہنگی پڑ جائے گی کیونکہ نوٹ بندی کا دفاع کرنے کا جواز اور وجوہات موجود نہیں ہے۔ جمہوریت میں عوامی نمائندے عوام کو اور حکومت پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے لیکن پارلیمنٹ کی اہمیت کو کم کر تے ہوئے مودی نے عام جلسوں کا سہارا لیا۔ اپوزیشن نے متحدہ طور پر حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی ۔ لوک سبھا میں حکومت کو واضح اکثریت کے باوجود عددی طاقت سے کمزور اپوزیشن کا غلبہ رہا۔ اگر نوٹ بندی کا فیصلہ واقعی ملک و قوم کے مفاد میں ہے تو پھر پارلیمنٹ کا سامنا کرنے میں خوف کیوں ؟ اپوزیشن نے ووٹنگ کے ساتھ مباحث کی مانگ کی تھی ، اس سے حکومت کا انکار یہ ثابت کرتا ہے کہ اسے اپنے ارکان پر بھروسہ نہیں۔ بی جے پی میں داخلی ناراضگی کی اطلاعات نے بھی حکومت کو ووٹنگ سے خوفزدہ کردیا تھا ۔ دراصل حکومت کو زوال سے بچانے کیلئے مباحث اور ووٹنگ سے حکومت بھاگتی رہی اور اسی طرح پارلیمنٹ کا سرمائی سیشن گزر گیا۔ راہول گاندھی کی قیادت میں اپوزیشن نے جب نریندر مودی کے کرپشن کو بے نقاب کرنے کی دھمکی دی تو بی جے پی نے جوابی وار کرتے ہوئے یو پی اے دور حکومت میں اگسٹا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹر خریدی اسکام کو لیکر پارلیمنٹ میں ہنگامہ کیا تاکہ اپوزیشن کی آواز کو دبایا جاسکے۔ گزشتہ دنوں مرکزی وزیر کرن رجیجو کے 450 کروڑ روپئے ، ٹرانسپورٹ اسکام کا معاملہ بھی منظر عام پر آیا ہے اور حکومت مباحث کیلئے تیار نہیں تھی۔ راہول گاندھی نے حکومت کے خلاف جو جارحانہ تیور دکھائے اس سے بی جے پی بوکھلاہٹ کا شکار نظر آئی اور ہیلی کاپٹر خریدی معاملہ میں کانگریس قائدین کے نام اچھالنے کی کوشش کی گئی ۔ اپوزیشن کے پاس وزیراعظم کے کرپشن کا ایسا کیا ثبوت ہے کہ حکومت خوفزدہ ہے ؟ اب جبکہ پارلیمنٹ کا سیشن ختم ہوچکا ہے ، اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو حقائق سے روبرو کریں تاکہ یہ اندازہ ہوجائے کہ جنہوں نے اچھے دن کے نعرہ پر بھروسہ کیا تھا ، حقیقت میں اچھے دن کس کیلئے آئے ۔ نوٹ بندی سے کئی ایسے صنعتی گھرانوں کو فائدہ ہوا جن کی نریندر مودی اور حکومت سے قربت ہے۔ عوام کے اچھے دن تو نہیں آئے لیکن بی جے پی کے برے دن آگے دکھائی دے رہے ہیں۔ چونکہ یہ تبدیلی کا دور ہے لہذا یو پی اے دور میں منموہن سنگھ بولتے نہیں تھے اور آج مودی کسی کی سنتے نہیں ہیں۔ خود کو غریب چائے والا کہنے والے مودی کو غریبوں کی پکار سنائی نہیں دے رہی ہے اور وہ صنعتی گھرانوں کے پسندیدہ برانڈ ایمبسیڈر بن چکے ہیں۔ اب تو منموہن سنگھ نے بھی خاموشی کو توڑ دیا لیکن مودی خاموش ہوگئے ۔ پارلیمنٹ کا سیشن نوٹ بندی کی نذر ہوگیا اور سارے سیشن میں مودی کی زبان بندی برقرار رہی ۔ انتخابات سے قبل مودی کا ایک روپ تھا اور اقتدار ملتے ہی دوسرے رنگ میں دکھائی دے رہے ہیں۔

حکومت اور پارٹی کے مارگ درشک بھی ملک اور پارلیمنٹ کے حالات سے مایوس نظر آئے ۔ ایل کے اڈوانی نے لوک سبھا کی رکنیت سے استعفیٰ کا ارادہ ظاہر کر دیا۔ بی جے پی کو لوک سبھا کے صرف دو ارکان سے آج کی اکثریت تک پہنچانے میں اڈوانی ، اٹل بہاری واجپائی اور مرلی منوہر جوشی کے رول کو فراموش نہیں کیا جاسکتا لیکن اقتدار ملتے ہی نریندر مودی نے مودی اور مرلی منوہر جوشی کو مارگ درشک کے نام پر گوشہ گمنامی میں ڈھکیل دیا ۔ ان کے علاوہ کئی سینئر قائدین کے ساتھ جس انداز کا سلوک کیا گیا ، اس سے پارٹی میں بے چینی دیکھی جارہی ہے ۔ کل تک کئی قائدین جو منظر پر تھے ، آج پس منظر میں چلے گئے۔ نوٹ بندی اور پارلیمنٹ کے تعطل سے ناراض اڈوانی ایک سے زائد مرتبہ ناراضگی کا اظہار کرچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب انہوں نے اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے استعفیٰ کا ارادہ ظاہر کیا تو مودی کے بھکتوں نے طنز کرتے ہوئے ان کی خیریت دریافت کی ۔ اڈوانی کا جواب تھا کہ ان کی حالت تو ٹھیک ہے لیکن پارلیمنٹ کی صحت ٹھیک نہیں ۔ اڈوانی نے اپوزیشن کے ساتھ برسر اقتدار پارٹی کے ارکان کو بھی کارروائی میں رکاوٹ کیلئے ذمہ دار قرار دیا ہے۔ بی جے پی کیلئے ان کی ناراضگی صدر خاندان کے اندرونی کرب اور بے چینی سے کم نہیں ہے ۔ مودی نے پارٹی کی آبیاری کرنے والوں کو جس طرح گمنامی میں ڈھکیل دیا ہے ، عمر کے اس حصہ میں پہنچنے کے بعد انہیں بھی اس طرح کے تلخ تجربات سے گزرنا پڑسکتا ہے۔ دوسری طرف نوٹ بندی سے عوامی مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہی ہورہا ہے ۔ حکومت کے روزانہ نئے فیصلے اور تحدیدات عام آدمی کی مصیبتوں میں اضافہ کا باعث ہیں۔ ریزرو بینک نے رقم نکالنے پر مزید تحدیدات عائد کردی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 50 دن کی تکمیل تک عوام کا صبر جواب دیدیگا ۔ دواخانوں اور ادویات کیلئے 500 کی پرانی کرنسی قبول کرنے کی مہلت ختم ہوگئی جس سے عوام بنیادی طبی خدمات سے محروم ہوجائیں گے۔ نوٹ بندی پر سپریم کورٹ نے بھی سوال اٹھائے ہیں کہ کس طرح عام آدمی رقم سے محروم ہیں لیکن چند افراد کو لاکھوں کروڑوں کی کرنسی بآسانی مل رہی ہے۔ الغرض صورتحال میں سدھار کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے ۔ اب جبکہ پارلیمنٹ کا سیشن ختم ہوچکا ہے ، ارکان اپنے اپنے حلقوں کو واپس ہوں گے تب جاکر انہیں رائے دہندوں کے ردعمل اور ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ اور آر ایس ایس نے نوٹ بندی سے اترپردیش کے انتخابی امکانات متاثر ہونے کااندیشہ ظاہر کیا ہے ۔ بی جے پی اترپردیش اور پنجاب کے انتخابی امکانات سے خوفزدہ ہے۔ امیت شاہ کو اترپردیش کے ارکان نے اپنی تشویش سے واقف کرایا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اترپردیش ہی نہیں پنجاب کے نتائج پر بھی نوٹ بندی کا راست اثر پڑے گا۔ مودی اینڈ کمپنی کو بہر صورت انتخابات کا سامنا کرنا ہے اور بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں۔ ایل کے اڈوانی بہت پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ ملک ایمرجنسی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مودی نے غیر معلنہ مالیاتی ایمرجنسی تو نافذ کردی لیکن آنے والے دنوں میں بحران میں شدت کو دیکھتے ہوئے عام ایمرجنسی کے نفاذ کے امکانات برقرار ہیں۔ اترپردیش اور پنجاب کے نتائج پر صورتحال کا انحصار رہے گا اور اس وقت بھی ملک اور قوم کو بچانے کا نعرہ لگایا جائے گا۔ نوٹ بندی کے فیصلہ پر عوام کی بے حسی نے بھی حکومت کی ہمت کو بڑھادیا ہے ۔ دنیا میں تیل پیدا کرنے والے ممالک نے پیداوار میں کمی کردی ہے جس سے ملک میں مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔ اس طرح نوٹ بندی کے بعد مہنگائی میں اضافہ عوام پر نئی مار ثابت ہوگا۔ معراج فیض آبادی نے کچھ اس طرح غریبوں کی نمائندگی کی ہے  ؎
راج محلوں سے کھنڈر کا راستہ ہوجائے گا
ہم غریبوں سے جو الجھے گا فنا ہوجائے گا