ہم جنس پرستی کا سیلاب اور مسلم معاشرہ کا تحفظ

مفتی محمد قاسم صدیقی تسخیر
نائب مفتی جامعہ نظامیہ

ہم جنس پرستی خلاف فطرت عمل ہے، فطرت سلیمہ کے لئے ناقابل قبول ہے اور یہ ایک ایسی بیماری ہے، جو سارے عالم انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور ہر ملک و قوم میں یہ بے حیائی پھیلتی جا رہی ہے، تاہم اس کو فطری رجحان قرار دے کر قانونی جواز پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہندوستان کی عدالت عالیہ سپریم کورٹ نے اس کو قانوناً جرم قرار دیا تو حکمراں پارٹی کے ذمہ دار اس کی داد رسی کے لئے اپیلیں کرنے لگے۔ یہ ایک ایسا برا عمل ہے، جس کو برا کہنے سے آج لوگ خوف زدہ ہیں۔ اگر کوئی ہم جنس پرستی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے یا اپنی رائے ظاہر کرتا ہے تو اس کے خلاف ایک محاذ تیار ہو جاتا ہے۔ امریکہ آنے سے قبل ایک زعیم قوم سے میری ملاقات ہوئی، دوران گفتگو انھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ عالم ہیں، آپ سے سوال کیا جاتا ہے تو آپ قرآن و سنت کے مطابق اس کا جواب دو ٹوک انداز میں دیتے ہیں، لیکن امریکہ میں ہم جنس پرستی ایک حساس مسئلہ ہے، اس پر رائے ظاہر کرنے میں احتیاط برتنا قرین مصلحت ہے۔ میں اس سلسلے میں متفکر رہا کہ یہ مسئلہ تو از روئے شرع مطلقاً حرام ہے۔ اس بارے میں شریعت میں کوئی شک و شبہ یا ابہام و پوشیدگی نہیں ہے، لہذا کس طرح ہم اس کا حکم بیان کرنے میں محتاط رہ سکتے ہیں۔

سال گزشتہ میں نے اپنے پادری دوست سے کہا کہ اس اتوار کو میری کوئی مصروفیت نہیں ہے، اگر کوئی پروگرام ہو تو میں شرکت کرسکتا ہوں۔ اس پادری کے ساتھ ایک چرچ گیا، جہاں ایک مسلم پروفیسر کا اسلام پر لکچر تھا۔ وہ مسلم پروفیسر ترکی کا باشندہ تھا اور نہایت بے باک انداز میں اسلام سے متعلق پرجوش لب و لہجہ میں سنگین موضوعات پر متاثر کن اسلوب میں تقریر کر رہا تھا اور سوائے آٹھ دس ترکی مسلمانوں کے تقریباً سو (۱۰۰) سے زائد امریکی عیسائی موجود تھے۔ پروفیسر سامعین پر اثرانداز ہوکر خطاب کر رہا تھا، اس کی دلیری و بے باکی سے میں بھی متاثر ہو رہا تھا اور دل ہی دل میں متفکر بھی تھا۔ بہرکیت خطاب کے بعد سوال و جواب کے سیشن میں ایک شخص نے اس بے باک مقرر سے جب ہم جنس پرستی کے بارے میں سوال کیا تو وہ دلیر مقرر جو اپنے زور بیان سے ساری محفل کو مسحور کر رہا تھا، اس سوال کے بعد اچانک اس کی زبان کی روانی تھم گئی اور مشتبہ انداز میں جواب دینے لگا۔ میں توجہ سے اس کے جواب کو نوٹ کر رہا تھا، تاہم میری تمام تر توجہ اور کوشش کے باوجود میں اس کے جواب کو سمجھ نہیں سکا کہ آخر اس بارے میں اس کی کیا رائے ہے؟۔

پڑھانے والے لکچرر اور ایک پادری سے میری گفتگو ہو رہی تھی۔ دوران گفتگو ہم جنس پرستی کے مسئلہ پر تبادلہ خیال ہوا اور جب میں نے اس خصوص میں اسلام کے قطعی حکم کو واضح کیا تو انھوں نے کہا کہ بائبل بھی ہم جنس پرستی کو سنگین جرم قرار دیتا ہے، لیکن آج ہمارے چرچس اس بارے میں منقسم ہوگئے اور کئی ایک چرچ نے ہم جنس پرستی کو مباح کردیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تعجب کی بات ہے کہ ہر شخص کو کسی بھی مسئلہ پر اپنی رائے ظاہر کرنے کا حق ہے، اس کے باوجود اگر کوئی شخص ہم جنس پرستی کے خلاف اظہار خیال کرتا ہے تو نہ صرف لوگ اس کو ناپسند کرتے ہیں، بلکہ اس کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہم جنس پرستی کا دفاع کرتے ہیں اور اس کے خلاف رائے دینے والے کو مجروح کرتے ہیں۔ انھوں نے بھی مجھے مشورہ دیا کہ آپ نہایت محتاط ہوکر اس مسئلہ پر ردعمل ظاہر کریں اور یہ یاد رکھیں کہ اس موضوع کے خلاف سننے کا جذبہ مفقود ہو گیا ہے۔

ایک مرتبہ نارتھ کیرولینا ریاست کے باڈر پر واقع چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا Bone Town کے یونائیٹڈ کرائسٹ چرچ میں تقریر کے لئے گیا، وہاں دو خواتین سب سے زیادہ سرگرم تھیں، معلوم ہواکہ ان میں سے ایک اس چرچ کی ذمہ دار ہے اور پادری کے فرائض انجام دیتی ہے اور دوسری اس چرچ کی فعال و متحرک کارکن ہے۔ بعد ازاں ایک امریکی کرسچن نے شرماتے ہوئے مجھے اطلاع دی کہ ’’یہ دونوں خواتین ہم جنس پرست ہیں‘‘۔

اس بات سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ عیسائیوں نے نہ صرف اپنا عقیدہ کھویا ہے، بلکہ وہ انسانی اقدار اور مذہبی اخلاق کو بھی فراموش کرچکے ہیں۔ کوئی عام عیسائی اس فعل بد میں مبتلا ہو تو اس کا شخصی عمل قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن چرچ کا ذمہ دار اگر خود علی الاعلان اس کا مرتکب ہو اور سارے عقیدت مند حقائق سے واقف ہوں، تب بھی اس کو معتوب نہیں سمجھ رہے ہیں، بلکہ اس کو اپنا قائد سمجھ کر اس کی زیر نگرانی اپنے مذہبی امور و فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ مغربی ممالک میں اب اس عمل بد کو کوئی عیب یا جرم نہیں سمجھا جا رہا ہے، بلکہ اب وہ ایک فطری تقاضہ بن چکا ہے۔

امریکہ میں ہم جنس پرستی کی وباء اس قدر عام ہو چکی ہے کہ اب یہ برائی، برائی نہیں سمجھی جاتی اور اس کا چلن اس قدر ہو گیا ہے کہ کمسن و کم عمر لڑکے بھی اس عمل بد کو سمجھنے لگے ہیں۔ چنانچہ ایک نہایت تلخ تجربہ آپ سے عرض کرتا ہوں کہ مجھے ایک فلسطینی عرب نے اپنے گھر مدعو کیا۔ دوران گفتگو اس نے امریکی ماحول میں بچوں کی تربیت اور نشو و نما پر فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے چھوٹے لڑکے کا قصہ بیان کیا، جو کہ آٹھ برس کا ہے۔ اس نے کہا کہ ’’شیخ! یہ لڑکا جب پانچ برس کا تھا تو میں نے اس سے سوال کیا: ’’کیا تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے؟‘‘ تو اس نے جواب دیا ’’میری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے، میں مسلمان ہوں‘‘۔ والد نے دوسرا سوال کیا: ’’کیا تمہارا کوئی بوائے فرینڈ ہے؟‘‘۔ تو اس پانچ سال کے کمسن بچے نے جواب دیا ’’نہیں، میں ہم جنس پرست نہیں ہوں‘‘۔

اس واقعہ کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ اس ملک میں اس وباء اور مرض کے سیلاب و طوفان کے بہاؤ کے بارے میں مزید کسی وضاحت کی ضرورت ہے۔ یہ بیماری نہ صرف انسانی سماج کو کھوکھلا کر رہی ہے، بلکہ دھیرے دھیرے اپنے مہلک جراثیم مسلم معاشرہ اور مسلم ممالک میں بھی پھیلتی جا رہی ہے اور مسلمانوں میں ایک قابل لحاظ تعداد اس مہلک مرض اور سنگین جرم کی مرتکب ہے۔ ہماری صفوں میں بعض ایسے مسلم اسکالرس اور رائٹرس بھی ہیں، جو ہم جنس پرستی کو اسلام میں جائز و مباح قرار دے رہے ہیں اور قوم لوط پر جو عذاب و عتاب ہوا اور اس کے قبیح عمل (ہم جنس پرستی) کی پاداش میں جس قیامت خیز عذاب کا نزول ہوا، اس کی تاویلیں کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس سنگین و ناقابل معافی جرم کو جائز اور حلال قرار دینے کے لئے ہر ممکن کوشش جاری ہے اور بکاؤ قسم کے نام نہاد مسلم اسکالرس اس سلسلے میں کوشاں ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ نومبر ۲۰۱۱ء میں فرانس میں مسلم ہم جنس پرستوں کی مسجد کا افتتاح عمل میں آیا تھا، جس میں ہم جنس پرستوں کے علاوہ ہر کسی کو بلالحاظ مذہب و ملت آنے کی اجازت ہے، جہاں خواتین، مردوں کے ساتھ مل کر ایک صف میں نماز پڑھ سکتی ہیں، علاوہ ازیں امامت کے لئے امام کا احکام شریعت کا عالم و فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہم جنس پرست ہونا شرط ہے۔

ہم جنس پرستی سے متعلق تمہید کے طورپر چند اہم تجربات سپرد قلم کئے گئے ہیں، تاکہ قوم کا شعور بیدار ہو کہ اس غیر فطری اور قبیح عمل کے سیلاب سے مسلم معاشرہ کس قدر متاثر ہو رہا ہے۔ ان شاء اللہ تعالی آئندہ ہم جنس پرستی کی اسلامی سزا سے متعلق تفصیل قلم بند کی جائے گی۔