رشیدالدین
کیا ہندوستان میں مسلمان دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی طرح مساوی شہری نہیں ہیں؟ کیا ملک میں مسلمانوں کا مقام دوسرے درجہ کے شہری کا ہے ؟ جدوجہد آزادی سے لیکر ملک کی ترقی تک کیا مسلمانوں کی کوئی حصہ داری نہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ملک میں انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کے رویہ کو دیکھ کر اقلیت کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں۔ مہم کے دوران قائدین کی ایک دوسرے پر تنقیدیں ، حتیٰ کہ شخصی نکتہ چینی کوئی نئی بات نہیں۔ مجوزہ انتخابات کی مہم میں اس طرح کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملی ہیں۔ جہاں تک انتخابی قواعد کا تعلق ہے ، امیدواروں کو شخصی حملوں کی اجازت نہیں بلکہ پارٹی کی پالیسی و پروگرام پر نکتہ چینی کی اجازت ہے لیکن کتنی جماعتیں اور قائدین اس کی پابندی کر رہے ہیں۔ قائدین کی نچلی سطح سے لیکر اعلیٰ قیادت تک شخصی حملوں اور قواعد کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری ہے۔
ظاہر ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انتخابی مہم کے انداز اور طور طریقے بھی تبدیل ہوگئے ۔ سیاسی جماعتوں اور قائدین کے پاس عوامی خدمت سے متعلق ایسے کارنامے نہیں ہیں کہ جنہیں عوام کے درمیان پیش کرتے ہوئے ووٹ مانگ سکیں۔ لہذا جذباتی تقاریر اور مقابل کو نیچا دکھانے کیلئے قائدین میں مسابقت جاری ہے۔ گزشتہ دنوں سماج وادی پارٹی کے قائد اعظم خاں کے ایک بیان پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور الیکشن کمیشن نے بھی انہیں نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا اور یو پی کی انتخابی مہم میں حصہ لینے پر پابندی لگادی۔ آخر اعظم خاں نے ایسا کیا کہہ دیا کہ جس پر بی جے پی تلملا اٹھی؟ اعظم خاں نے 7 اپریل کو غازی آباد میں انتخابی ریالی میں کہا تھا کہ 1999 ء کی کارگل لڑائی میں پاکستان کے خلاف کامیابی میں مسلم سپاہیوں نے اہم رول ادا کیا ۔ ظاہر ہے کہ ایک ذمہ دار سیاستداں اور اترپردیش کے وزیر کی حیثیت سے اعظم خاں کے بیان کی کچھ نہ کچھ بنیاد ضرور ہوگی ۔
ان کے اس بیان کے خلاف بی جے پی نے الیکشن کمیشن سے نمائندگی کردی اور کمیشن نے فوری نوٹس جاری کردی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا نے اعظم خاں کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا، اور خود اعظم خاں نے بھی اس کی وضاحت کردی ۔ پھر بھی ان کے خلاف بیان بازی جاری ہے۔ بی جے پی کا اس بیان پر اعتراض سمجھ میں آتا ہے لیکن کانگریس اور جنتا دل یونائٹیڈ کی برہمی حیرت کا باعث ہے۔ ظاہر ہے کہ ہندوستانی فوج میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے سپاہی موجود ہیں اور کارگل کی چوٹی پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے والی ٹیم میں مسلم سپاہیوں کی بہادری کو کیا نظر انداز کردیا جائے؟ کیا کارگل کی لڑائی میں ملک پر جان نچھاور کرنے والے سپاہیوں میں مسلمان شامل نہیں تھے۔ پھر مسلم جوانوںکی بہادری سے انکار کیوں ؟ فوج کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کا الزام عائد کرنے والوں کے پاس اس کا کیا جواب ہے کہ فوج میں سکھ ، مراہٹا، گورکھا ، پنجاب، مدراس، راجپوت، آسام، بہار، ناگا، جموں و کشمیر ، اروناچل اور دیگر ناموں سے علحدہ رجمنٹس موجود ہیں لیکن مسلمانوں نے کبھی اپنے لئے علحدہ رجمنٹ کے قیام کی مانگ نہیں کی بلکہ وہ ہمیشہ مین اسٹریم میں شامل رہے۔ مختلف طبقات اور علاقوں کے نام سے ریجمنٹ قائم کرتے ہوئے فوج کو تقسیم کرنے کا کام کس نے کیا؟ پھر اعظم خاں پر یہ الزام کیوں ؟
سرحدوں کی حفاظت کے سلسلہ میں مسلمانوں کی قربانیوں اور بہادری کے تذکرہ پر یہ حال ہے تو پھر وہ دن دور نہیں جب ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو ہندوستان کے میزائیل مین کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے بجائے میزائیل کی تیاری کو دفاعی سائنسدانوں کا مشترکہ کارنامہ کہا جائے۔ اعظم خاں کے بیان پر اعتراض کرنے والوں میں اگر ہمت ہو تو وہ کارگل میں شہید جوانوں اور دوبارہ قبضہ حاصل کرنے والی ٹیم کے جوانوں کے نام ملک کے سامنے پیش کریں۔ کیا اس حقیقت سے انکار کیا جائے گا کہ ڈاکٹر عبدالکلام نے ہندوستانی دفاعی نظام کو میزائیل ٹکنالوجی سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کردیا۔ ہندوستان کی تاریخ حولدار عبدالحمید کی ملک کیلئے قربانی کے تذکرہ کے بغیر ادھوری رہے گی۔ انگریز سامراج کے خلاف بغاوت اور آزادی کے حق میں سب سے پہلے 1857 ء میں علماء نے آواز اٹھائی تھی جن کی قیادت مولانا فضل حق خیرآبادی نے کی۔ جدوجہد آزادی کی لڑائی میں علماء کی ریشمی رومال تحریک کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنی کتاب میں خود اس بات کا اعتراف کیا کہ انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں مسلمان پیش پیش تھے۔ آزادی سے لیکر آج تک ہر شعبہ میں مسلمانوں نے ہندوستان کا پرچم ساری دنیا میں بلند رکھا لیکن بعض تنگ نظر اور متاثر ذہنیت رکھنے والوں کو اس سے اختلاف ہے۔ آزادی سے قبل بھی مسلم حکمرانوں نے ملک میں اپنی رواداری اور تعمیرات کے جو انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ، اس پر ہندوستان کو آج بھی فخر ہے۔ کس نے دیا ہے اس ملک کو لال قلعہ ؟ کس نے دی محبت کی نشانی تاج محل؟ ہر سال دو مرتبہ جہاں سے ملک کا پرچم لہرایا جاتا ہے ، وہ یادگار کس کی ہے؟ ہمیں یہ کہنے میں جھجک نہیں ہے کہ یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کو مسلمان قومی پرچم کو اپنے کاندھے پر اٹھاتے ہیں۔ اعظم خاں کے بیان سے ملک کے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں کیونکہ فرقہ پرست طاقتیں اور نریندر مودی مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی سازش کر رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکولرازم اور مذہبی رواداری کی بنیادوں پر قائم اس ملک میں مسلمانوں کے تئیں قوت برداشت کم کیوں ہوگئی؟ مسلمانوں نے ملک کی ترقی میں برابر کی حصہ داری ادا کی لیکن آج تک وہ ترقی میں حصہ داری میں محروم ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے کے تحت اگر کسی کے خلاف کارروائی کی جائے تو وہ بی جے پی ہے اور اس کے انتخابی منشور پر پابندی عائد کی جانی چاہئے ۔ انتخابی منشور میں رام مندر کی تعمیر ، یکساں سیول کوڈ کا نفاذ اور کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دستور کی دفعہ 370 کی برخواستگی جیسے وعدے کیا ملک کو جوڑنے والے ہیں؟ یہ تو ملک کے عوام کو مذہبی منافرت کے ذریعہ تقسیم کرنے کی کوشش ہے۔ کانگریس اور جنتا دل یو کو اعظم خاں کے بجائے بی جے پی منشور کے خلاف الیکشن کمیشن سے نمائندگی کرنی چاہئے ۔ ملک کی دیگر نام نہاد سیکولر جماعتوں نے کیا بی جے پی کے منشور کا مطالعہ نہیں کیا ؟
الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ بی جے پی انتخابی منشور کے خلاف از خود کارروائی کرے کیونکہ یہ انتخابی قواعد کی صریح خلاف ورزی ہے۔ واجپائی دور میں ان مسائل کو بی جے پی نے انتخابی موضوع نہیں بنایا تھا لیکن نریندر مودی کے ساتھ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کا احیاء کردیا گیا ۔ مودی نے ترقی کے نام پر انتخابی مہم کا آغاز کیا لیکن رائے دہی کی تاریخ سے عین قبل جارحانہ فرقہ پرستی اہم ایجنڈہ بن گئی۔ سیاسی قائدین میں قوت برداشت کی کمی کا مظاہرہ اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ہر معمولی بات پر الیکشن کمیشن سے شکایت ایک فیشن بن چکا ہے۔ الیکشن کمیشن آزادانہ و منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے پر توجہ دے گا یا پھر صرف شکایات کی یکسوئی پر سارا وقت صرف کرے گا۔ ویسے بھی انتخابی مہم اور اس میں کی جانے والی تقاریر کا معیار گھٹ چکا ہے ۔ قائدین اپنی سطح سے اتر کر الزام تراشی کرنے لگے ہیں۔ قائدین کا مزاج حسیناؤں جیسا بن چکا ہے جو ذرا سی تنقید بھی برداشت کرنے تیار نہیں۔ ملک کی تاریخ میں الیکشن کمیشن نے اس قدر نوٹسیں کبھی جاری نہیں کیں جتنی کہ جاریہ انتخابی مہم کے دوران کی گئیں۔
سابق میں جن سنگھ کے قائد بلراج مدھوک اور شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے موقع بہ موقع زہر اگلتے رہے ہیں لیکن کسی نے توجہ نہیں دی۔ گزشتہ دنوں اترپردیش میں کانگریس کے امیدوار عمران مسعود کے مخالف مودی بیان پر کمیشن نے نوٹس جاری کی تھی ۔ ان کے علاوہ وسندھرا راجے سندھیا، امیت شاہ ، ملائم سنگھ یادو ، اجیت سنگھ اور دوسروں کو بھی نوٹسیں جاری کی گئیں۔ اشتعال انگیز اور قابل اعتراض تقاریر کے سلسلہ میں بی جے پی قائدین دوسروں سے آگے امیت شاہ نے مظفر نگر کے جاٹ طبقہ کو توہین کا بدلہ لینے کیلئے بھڑکایا۔ انتخابی مہم میں قائدین اس قدر بے قابو ہوچکے ہیں کہ وہ مخالف پر ملک دشمن ہونے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ نریندر مودی نے گزشتہ دنوں کجریوال اور وزیر دفاع اے کے انتونی کو ملک دشمن قرار دیا ۔ سیاسی قائدین اگر اس طرح کا الزام لگائیں تو کوئی اہمیت نہیں لیکن اگر فوج کے سابق سربراہ کسی کو ملک دشمن قرار دیں تو ان کی معلومات پر ہنسی آتی ہے۔ جنرل وی کے سنگھ جو ہندوستانی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے اور کرپشن کے خلاف انا ہزارے کی مہم سے وابستہ ہوگئے۔ بعد میں انہوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔
عام آدمی کی قائد شاذیہ علمی نے جب یہ کہا کہ اس طرح کے عہدوں پر فائز افراد کو انتخابی میدان میں نہیں آنا چاہئے تو وی کے سنگھ بھڑک گئے اور شاذیہ علمی کو ملک دشمن قرار دے دیا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ فوج کے سابق سربراہ کو آج تک بھی یہ پتہ نہیں کہ ملک کا دشمن کون ہے؟ دراصل بی جے پی میں شمولیت کے ساتھ ہی جنرل وی کے سنگھ کو تمام مخالفین ملک دشمن دکھائی دے رہے ہیں، جس طرح کہ نریندر مودی کو دکھائی دیئے۔ شاید بی جے پی میں شمولیت کے ساتھ ہی کچھ ایسا سبق پڑھایا جاتا ہے کہ ہر مخالف ملک دشمن دکھائی دینے لگے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جو نوٹسیں جاری کی جارہی ہیں، ان میں اکثر کیسس میں صرف انتباہ کے ساتھ معاملہ کو رفع دفع کردیا جاتا ہے۔ بی جے پی بھلے ہی لاکھ ملک دشمنی کا الزام لگائے لیکن ملک کے عوام اور رائے دہندے یہ طئے کریں گے کہ کون حق پر ہے؟ اعظم خاں کے خلاف بی جے پی کی ہنگامہ آرائی پر معراج فیض آبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
ہم بھی تعمیر وطن میں ہیں برابر کے شریک
در و دیوار اگر تم ہو تو بنیاد ہیں ہم