ہمیں چراغ سمجھ کر بجھا نہ پاؤگے

 

رامناتھ کووند … سنگھ پریوار کے پہلے صدر
دستوری عہدوں پر کنٹرول …سیکولر طاقتیں منتشر

رشیدالدین
ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کیا نریندر مودی حکومت کو دن بہ دن تقویت حاصل ہورہی ہے ؟ صدر جمہوریہ اور نائب صدر کے انتخاب کے پس منظر میں یہ سوال ہر ذی شعور اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد کے ذہنوں کو جھنجھوڑ رہا ہے ۔ صدر جمہوریہ کے عہدہ پر مودی اپنے امیدوار کو فائز کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اگست کے پہلے ہفتہ میں نائب صدر کے عہدہ پر بھی بی جے پی امیدوار کی کامیابی تقریباً طئے دکھائی دے رہی ہے ۔ دونوں عہدوں کیلئے الیکشن محض ضابطہ کی تکمیل کے سواء کچھ نہیں۔ ملک کے 70 ویں یوم آزادی کے جشن سے قبل بی جے پی کو صدر اور نائب صدر کے انتخاب کے جشن کا موقع حاصل ہوا ہے ۔ یوں تو سابق میں بھی بی جے پی مرکز میں برسر اقتدار رہی لیکن ملک کے اعلیٰ ترین دستوری عہدہ پر سنگھ نظریات کے حامل افراد کو فائز کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن نریندر مودی حکومت خالص ہندوتوا اور ہندو راشٹر کے ایجنڈہ پر کاربند ہے، لہذا ملک کے دونوں اعلیٰ ترین عہدوں پر ایسے افراد کا انتخاب کیا گیا جو سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ صدر کے عہدہ کیلئے بظاہر یہ کہا گیا کہ دلت طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کو سنمان دیا گیان ہے جبکہ نائب صدر کیلئے اعلیٰ طبقات کے امیدوار کو تجربہ اور صلاحیت سے جوڑ دیا گیا۔ دونوں نے اس الیکشن میں حصہ لینے سے قبل بی جے پی قائدین کی حیثیت سے جو بیانات دیئے تھے ، وہ آج بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہے ۔ رامناتھ کووند نے اسلام اور عیسائیت کو ہندوستان کیلئے اجنبی قرار دیا تھا جبکہ 14 برس کی عمر میں آر ایس ایس کی شاکھا میں قدم رکھنے والے وینکیا نائیڈو نے مسلم تحفظات کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ اس سے ایک نیا پاکستان وجود میں آئے گا۔ آر ایس ایس شاکھا سے راشٹرپتی بھون اور نائب صدر کے بنگلہ تک پہنچنے والے آج بی جے پی سے لاتعلقی کا اظہار اور خود کو غیر سیاسی ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ اس طرح کے دعوے محض رسمی اور ان کی مجبوری نہیں تو اور کیا ہے۔ اس لئے کہ جب بچپن سے ایک نظریہ کے تحت ٹریننگ دی گئی اور تمام عمر اس نظریہ پر نہ صرف گامزن بلکہ اس کا پرچار کرتے رہے۔ وہ کس طرح راتوں رات تبدیل ہوسکتے ہیں۔

بی جے پی سے تعلق بھلے ہی نہ رہے لیکن جن نظریات کو اختیار کیا ، وہ تاعمر ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں دستوری عہدوں کیلئے مضبوط اور کٹر نظریاتی شخصیتوں کا انتخاب کیا گیا۔ پارٹی بھلے ہی تبدیل ہوجائے لیکن نظریات سے وابستگی برقرار رہتی ہے اور نظریات ہی انسان کو عمل پر اکساتے ہیں۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک نظریہ کے حامل شخص کو متضاد نظریہ والی جماعت میں دم گھٹنے لگتا ہے ۔ نریندر مودی حکومت کس نظریہ کی تابع ہے، اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ نظریہ اور ایجنڈہ دونوں بھی واضح ہیں اور مشن 2019 ء کے تحت دوسری میعاد کا حصول سنگھ پریوار کا مقصد ہے۔ 2019 ء کے بعد ہندو راشٹر کے ایجنڈہ پر بے خوف عمل کیا جائے گا کیونکہ صدر جمہوریہ ، نائب صدر سے لے کر ساری حکومت ہم خیال اور ایک نظریہ کے حامل افراد کی ہوگی۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا جب صدر ، نائب صدر ، وزیراعظم ، وزیر داخلہ ، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع جیسے کلیدی عہدوں پر مخصوص نظریات کے حامل افراد براجمان ہوں گے۔ لوک سبھا میں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہے اور بہت جلد راجیہ سبھا میں بھی اکثریت حاصل ہوجائے گی۔

دونوں قانون ساز اداروں پر حکومت کا کنٹرول رہے گا ۔ حکومت اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی قانون کو بہ آسانی منظور کرسکتی ہے۔ نائب صدر جمہوریہ بااعتبار عہدہ راجیہ سبھا کے صدرنشین ہوتے ہیں اور وینکیا نائیڈو کو پارلیمانی امور کا وسیع تر تجربہ ہے، لہذا دونوں ایوانوں میں حکومت کی مرضی چلے گی۔ پارلیمنٹ کے بعد راشٹرپتی بھون سے ہر قانون پر مہر لگنا صرف رسمی کارروائی ہوگی۔ مرکز میں حکومت اور ملک کی بڑی ریاست اترپردیش میں بھی سنگھ پریوار کا راج ہے۔ اس طرح ہندو راشٹر کے قیام کے لئے اترپردیش کو بطور تجربہ گاہ استعمال کیا جارہا ہے ۔ اگر ملک میں 2019 ء تک یہی رجحان برقرار رہا اور بی جے پی کو دوبارہ اقتدار حاصل ہو تو دوسری میعاد عوام کے وکاس اور اچھے دن کی نہیں بلکہ سنگھ پریوار کے وکاس اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے اچھے دن کی ہوگی۔ کرناٹک ، گجرات ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں اور بی جے پی کا نشانہ تینوں ریاستوں میں واپسی کے ساتھ کرناٹک کو کانگریس سے چھیننا ہے۔ اسمبلی انتخابات میں صدر جمہوریہ کا دلت کارڈ کھیلا جائے گا ۔ اس طرح مودی کا کوئی بھی قدم سیاسی حکمت عملی سے خالی نہیں ہے ۔ رام ناتھ کووند کے نام کے اعلان پر ہر کسی کیلئے یہ غیر معروف شخصیت تھی۔

مودی نے بھی صرف یہ تاثر دیا کہ دلت طبقہ سے تعلق کے سبب ان کے نام پر غور کیا گیا لیکن کووند کے انتخاب کے ساتھ ہی مودی نے 20 سال پرانی تصویر ٹوئیٹر پر پوسٹ کی جس میں دو ہم خیال شخصیتوں کی قربت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق وینکیا نائیڈو نائب صدر کے عہدہ کے لئے راضی نہیں تھے کیونکہ ان کا سرگرم سیاست میں کیریئر ختم ہوجائے گا ۔ نائیڈو کے حامیوں نے بھی اس کی مخالفت کی لیکن راجیہ سبھا میں بلز کی منظوری کیلئے ان کی ضرورت اجاگر کرنے کے ساتھ یہ تیقن بھی دیا گیا کہ نائب صدر کے بعد کی منزل راشٹرپتی بھون ہوگی۔ اس طرح وینکیا نائیڈو 10 برسوں تک مسلسل دستوری عہدوں پر فائز رہیں گے ۔ ان عہدوں کے ذریعہ نہ صرف حکومت کی رہنمائی کی جاسکتی ہے بلکہ غیر بی جے پی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے میں بھی ان عہدوں کا اہم رول ہوگا۔ مودی نے ملک کے تقریباً تمام گورنرس کو تبدیل کردیا ہے۔ بعض نے اپنی وفاداری تبدیل کرتے ہوئے مودی کے آگے سپر ڈال دی۔ الغرض گورنر سے صدر جمہوریہ تک سنگھ پریوار کے نظریات کو مسلط کرنے میں نریندر مودی کو کامیابی حاصل ہوئی جو ملک کی سیکولر طاقتوں کیلئے لمحہ فکر اور چیلنج بھی ہے ۔ دستور اور قانون کی پاسداری اور بالادستی کے وعدے اور تیقنات تو دیئے جارہے ہیں لیکن آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ عمل کس حد تک ہوگا ؟

 

ایسے وقت جبکہ ملک میں سنگھ پریوار کے نظریات کو تقویت حاصل ہورہی ہے اور جارحانہ فرقہ پرست عناصر بے لگام ہوچکے ہیں۔ سیکولر طاقتیں انتشار کا شکار ہیں۔ فرقہ پرستی ، عدم رواداری اور نفرت کی مہم کا مقابلہ کرنا جن کی ذمہ داری تھی ، وہ تاش کے پتوں کی طرح بکھر کر کمزور ہوچکے ہیں۔ سیکولر جماعتوں کا محاذ تیار کرنے والے ہم خیال جماعتوں کو متحد نہ رکھ سکے اور دوسری طرف سیکولر جماعتیں اپنے ارکان کو یکجا رکھنے میں ناکام ہوگئیں جس کا اثر صدارتی انتخابات میں کراس ووٹنگ کی شکل میں سامنے آیا ۔ سیکولرازم اور دستور و قانون کی بالادستی کیلئے جدوجہد کرنے والوں کی شیرازہ بندی کے بجائے ان کا شیرازہ بکھرنے لگا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں مودی نے بھلے ہی عوام کیلئے کچھ نہ کیا ہو، لیکن اپوزیشن کو کمزور کرنے اور بی جے پی کو مستحکم کرنے میں وہ کامیاب رہے ۔ مودی نے اپوزیشن کے اتحاد میں ایسی دراڑ پیدا کی کہ 2019 ء تک شائد پھر اتحاد ہو پا ئے گا۔ حکومت کے خلاف جب کبھی محاذ آرائی کا مرحلہ آیا ، کسی نہ کسی جماعت میں علحدگی اختیار کرتے ہوئے اتحاد کو کمزور کیا ہے۔ صدر جمہوریہ کے انتخاب میں اگرچہ رامناتھ کووند کی کامیابی یقینی تھی ، پھر بھی مودی نے اپوزیشن میں انتشار پیدا کیا ۔ نتیش کمار کے ذریعہ اپوزیشن کے خیمہ میں دراڑ پیدا کی گئی۔ اتنا ہی نہیں کئی ریاستوں میں اپوزیشن ارکان کو کراس ووٹنگ کیلئے راضی کیا گیا۔ رامناتھ کووند کو توقع سے کئی زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔ اترپردیش ، مغربی بنگال ، گجرات، دہلی ، گوا اور دیگر ریاستوں میں اپوزیشن کے خیمہ میں کراس ووٹنگ ہوئی لیکن راجستھان میں بی جے پی ارکان کی کراس ووٹنگ وسندھرا راجے کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار سے مقابلہ کیلئے سیکولر محاذ میں کوئی ایسی پرکشش شخصیت نہیں جو عوام کو راغب کرسکے۔ اپوزیشن کی قیادت کرنے والی کانگریس پارٹی قیادت کے بحران سے گزر رہی ہے ۔ سونیا گاندھی اپنی صحت کے اعتبار سے مکمل وقت دینے سے قاصر ہیں تو دوسری طرف پارٹی کے سینئر قائدین راہول گاندھی کی قیادت کو تسلیم کرنے تیار نہیں۔ وہ سونیا کی قیادت میں ہی خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔

کانگریس میں سینئر اور نوجوان قائدین میں صاف طور پر خلیج دکھائی دے رہی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں میں کوئی بھی چہرہ ایسا نہیں جسے سیکولر محاذ کی قیادت سونپی جاسکے۔ اپوزیشن میں قیادت کا بحران بی جے پی کیلئے آئندہ انتخابات میں کامیابی کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ بعض نام نہاد سیکولر جماعتیں اور چیف منسٹرس اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے بی جے پی کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ حیرت تو آندھراپردیش اور تلنگانہ کے چیف منسٹرس پر ہے جنہوں نے ہمیشہ سیکولرازم پر اپنا ایقان ظاہر کیا لیکن انہیں سیکولرازم سے زیادہ مودی پسند آچکے ہیں۔ اپوزیشن کی کمزوری کا نتیجہ ہے کہ ملک میں گاؤ رکھشا کے نام پر بے قصور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ نریندر مودی نے پھر ایک مرتبہ گاؤ رکھشکوں کے خلاف زبانی بیان دیا ہے لیکن واقعات کا تسلسل برقرار ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم کے بیان کے دوسرے ہی دن گوا کے چیف منسٹر منوہر پریکر نے بیف کے حق میں بیان دیتے ہوئے مودی کی نفی کردی۔ منوہر پریکر نے کہا کہ گوا میں بیف کا استعمال عام ہے اور کوئی پابندی نہیں۔ ان کی حکومت بیف کی قلت ہونے نہیں دے گی اور ضرورت پڑنے پر کرناٹک سے بیف حاصل کیاجائے گا ۔ بی جے پی کی اسی دوہری پالیسی کو سماج وادی پارٹی کے ایم پی نریش اگروال نے ’’منہ میں رام بغل میں چھری‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ملک کے حالات پر راحت اندوری نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
ہمیں چراغ سمجھ کر بجھا نہ پاؤگے
ہم اپنے گھر میں کئی آفتاب رکھتے ہیں