مودی ایجنڈہ 2019 … انکم ٹیکس دھاوے
الیکٹرانک میڈیا پر کنٹرول خارجہ پالیسی میں دوہرا معیار
رشیدالدین
نریندر مودی نے مشن 2019 ء کے تحت اقتدار میں واپسی کیلئے جو ایجنڈہ تیار کیا ہے، اس پر عمل آوری کا آغاز ہوچکا ہے۔ ہندوتوا ایجنڈہ تو اپنی جگہ برقرار ہے، اس کے ساتھ اپوزیشن کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے کی سازش تیار کی گئی تاکہ دونوں محاذوں پر بی جے پی کو کوئی چیلنج نہ رہے۔ اپوزیشن جب کمزور ہوجائے تو ہندوتوا اور جارحانہ فرقہ پرستی کے ایجنڈہ کی راہ میں کوئی بھی طاقت رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ لہذا مودی۔امیت شاہ جوڑی نے دو محاذوں پر بیک وقت کام شروع کردیا ہے ۔ ایک طرف پارٹی کے داخلی مخالفین کو بے اثر کردیا گیا تو دوسری طرف اپوزیشن کی آواز کچلنے کی تیاری ہے۔ اپوزیشن کو کمزور کرنے یو پی اے میں پھوٹ پیدا کی گئی اور غیر این ڈی اے اور غیر یو پی اے جماعتوں کو بی جے پی سے قریب کردیا گیا۔ بہار میں عظیم تر اتحاد سے نتیش کمار کی علحدگی مودی کی اہم کامیابی ہے۔ اگلا نشانہ مغربی بنگال ، کیرالا ، کرناٹک اور دہلی ہیں جہاں سے بی جے پی کو مزاحمت کا خطرہ ہے۔ 18 ریاستوں میں بی جے پی کا اقتدار ہوچکا ہے جبکہ کانگریس 6 ریاستوں تک محدود ہوچکی ہے۔ 7 ریاستوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتیں ہیں، ان میں بھی بعض بی جے پی کی حلیف ہیں۔ اپوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے کہیں سرکاری مشنری کا استعمال کیا گیا تو کہیں فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دیتے ہوئے نفرت کی آگ بھڑکائی گئی ۔ عام آدمی پارٹی نے جب مودی کو آنکھ دکھایا تو کجریوال کے عہدیداروںاور ساتھیوں کے خلاف دھاوے کئے گئے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ حکومتیں اپنے مخالفین کے خلاف سی بی آئی اور ای ڈی جیسے اداروں کا استعمال کرتی ہے۔ ان اداروں کے حرکت میں آتے ہی پارٹیاں متزلزل ہوجاتی ہیں۔ بنگال میں فرقہ وارانہ تشدد کے ذریعہ عوام کے درمیان نفرت کا زہر گھولنے کی کوشش کی گئی ۔ کیرالا میں آر ایس ایس نے اچانک اپنی سرگرمیوں کو تیز کردیا اور سنگھ پریوار کے اثر سے پاک اس ریاست کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ گورنرس کے عہدہ پر فائز افراد مخصوص ایجنڈہ پر کاربند ہیں اور وہ عوامی منتخب حکومتوں کو پریشان کر رہے ہیں۔ مغربی بنگال اور کیرالا میں گورنر اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے، جس کا فائدہ بی جے پی کو ہوسکتا ہے۔ جہاں فرقہ پرستی کا ایجنڈہ نہیں چلتا، وہاں انکم ٹیکس دھاوؤں کا سہارا لیا گیا ۔ بہار میں عظیم اتحاد میں پھوٹ کیلئے انکم ٹیکس دھاوؤں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ لالو پرساد یادو چونکہ ملک میں مخالف بی جے پی محاذ کی تیاری میں سرگرم ہیں، لہذا ان کے بچوں کو غیر محسوب آمدنی کے مقدمات میں پھانس دیا گیا۔ گجرات کے کانگریس ارکان اسمبلی کو مہمان بنانے والے کرناٹک کے وزیر برقی کی قیامگاہ اور دفاتر پر دھاوے کئے گئے۔ لالو پرساد ہو کہ کرناٹک کے وزیر برقی دونوں کے خلاف دھاوے اور مقدمات کو محض اتفاق کہا نہیں جاسکتا۔ دھاوؤں کے وقت اور حالات میں گہرا تعلق ضرور ہے۔ سیاسی انتقامی کارروائیوں میں میڈیا کو بھی نہیں بخشا گیا۔ الیکٹرانک میڈیا کو منہ مانگی رقم کے عوض خرید لیا گیا ہے
اور این ڈی ٹی وی نے جب بکنے سے انکار کیا تو اس کے سربراہ کے خلاف دھاوؤں کا ہتھیار استعمال کیا گیا۔ آخر دھاوؤں کے ذریعہ کب تک میڈیا پر خوف مسلط کیا جائے گا۔ ملک کے بیشتر قومی چیانلس دن رات مودی جاپ میں مصروف ہیں اور انہیں مودی کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے چیانلس کو اپنا نام مودی رکھ لینا چاہئے ۔ ٹی وی آن کرتے ہی اسکرین پر مودی اور اینکر کی جانب سے ان کی مداح سرائی سنائی دیتی ہے۔ قلم کو گروی رکھ کر صحافت پر بدنما داغ بننے والے بعض افراد نے نئے چیانلس شروع کردیئے ہیں۔ حکومت کو اب صرف این ڈی ٹی وی کو قابو میں کرنے کی فکر کھائی جارہی ہے ۔ مودی کے بعد یوگی ادتیہ ناتھ پھر امیت شاہ ٹی وی اسکرین پر دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کبھار ارون جیٹلی اور سشما سوراج اپنے قلمدانوں کے باعث ٹی وی پر نظر آتے ہیں۔ مرکزی کابینہ کے بیشتر وزراء حتیٰ کہ مختلف ریاستوں کے چیف منسٹرس کے ناموں سے نئی نسل لاعلم ہے۔ جمہوریت کے چوتھے ستون کہا جانے والے مقدس پیشہ صحافت کو بھی مودی نے عوام کے درمیان غیر معتبر اور ناقابل بھروسہ بنادیا ہے۔ ملک کو جمہوری اصولوں کے بجائے ایک جماعتی نظامِ حکومت کی سمت گامزن کردیا گیا اور یہ صورتحال غیر معلنہ ایمرجنسی کی طرح ہے۔ اگر یہی رجحان رہا تو جمہوریت کے بجائے آمریت اور قانون کی حکمرانی کے بجائے بدامنی و نراج کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ مودی نے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی اور سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسے نعرے لگانے میں کبھی بھی اور کہیں بھی کنجوسی نہیں کی لیکن یہ نعرے مودی سمیت دیگر حکمراں طبقہ کے گلے سے نیچے نہیں اترے ۔ دیش بھکتی اور حب الوطنی کے نعروں میں مودی کا کوئی ثانی نہیں لیکن وطن سے محبت کے یہ دعویدار ملک کی ریاستوں سے زیادہ بیرونی ممالک کا دورہ کرچکے ہیں۔
تین برسوں میں 40 سے زائد بیرونی دورے کئے ہمارے پردھان سیوک نے۔ خود کو پردھان سیوک کہنے والے مودی کو پانچ مرتبہ امریکہ جانے کے بجائے گاؤں کے ان غریبوں تک پہنچنا چاہئے تھا جو دو وقت کی روٹی سے محروم ہے۔ مودی نے تین برسوں میں ملک کی تمام ریاستوں کا دورہ تک نہیں کیا۔ انتخابی مہم میں ووٹ مانگنے کیلئے جو گئے تھے ، پھر دوبارہ اپنا چہرہ نہیں دکھایا۔ شاید 5 برسوں میں ورلڈ ٹور مکمل ہوجائے اور مودی کیلئے کوئی نیا ملک بسانا پڑے۔ مودی کے بیرونی دوروں کی رفتار کو دیکھ کر موبائیل کمپنیاں فلائیٹ موڈ پر مودی کی تصویر لگانے مجبور ہوجائیں گی۔ اس قدر بیرونی دوروں سے ہندوستان کو آخر کیا حاصل ہوا؟ دور دراز کے ممالک کی تفریح کے بجائے پردھان سیوک کو پڑوسیوں سے رشتے استوار کرنے پر توجہ دینی چاہئے ۔ کیا زیادہ سے زیادہ بیرونی دورے کرنا بین الاقوامی سطح کے قائد ہونے کی سند ہے؟ پڑوسیوں میں پاکستان اور چین سے کشیدگی دنیا پر عیاں ہیں۔ نیپال اور سری لنکا سے بھی رشتے پہلے کی طرح گوشگوار نہیں رہے۔ مودی پہلے اپنے گھر کی فکر کریں جو مختلف مسائل سے دوچار ہے ۔
اپوزیشن کو کمزور کرنے کے ساتھ داخلی اپوزیشن کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کی تازہ مثال ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی ہیں۔ ان قائدین نے رام مندر کی تحریک سے دو ارکان پارلیمنٹ والی بی جے پی کو لوک سبھا میں اہم اپوزیشن کے مقام تک پہنچایا تھا ۔ یہ قائدین آج بی جے پی میں اثاثہ کی طرح باقی نہیں رہے بلکہ بوجھ بن چکے ہیں۔ وزیراعظم بننے کا خواب بکھرنے کے بعد اڈوانی کی نظریں صدر جمہوریہ کے عہدہ پر ٹکی تھی لیکن مودی نے اس آخری خواہش پر بھی پانی پھیردیا ۔ صدارتی عہدہ کے سلسلہ میں اڈوانی سے منسوب ایک لطیفہ ان دنوں سوشیل میڈیا میں زیر گشت ہے۔ کہا جارہا ہے کہ صدارتی امیدوار کے مسئلہ پر بی جے پی کی اعلیٰ سطحی میٹنگ کے دوران ایل کے اڈوانی اچانک اٹھ کھڑے ہوئے ۔ امیت شاہ نے کہا کہ ’’آپ کیوں کھڑے ہوگئے، آپ امیدوار تھوڑی ہیں‘‘۔ اس پر اڈوانی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’کیا واش روم بھی نہ جاؤں‘‘۔ جس وقت مودی گجرات کے چیف منسٹر تھے، اڈوانی نے مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان کی تعریف کی تھی جس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ اڈوانی اور جوشی کے موجودہ حشر کی وجوہات بھلے ہی کچھ ہوں لیکن دونوں کی اس حالت کے لئے خود ان کے کرتوت ذمہ دار ہیں۔ کسی مسلم رہنما نے کہا تھا کہ بابری مسجد اپنے قاتلوں کا پیچھا کر رہی ہے۔ جس پارٹی میں یہ دونوں صف اول کے قائد اور سیاہ و سفید کے مالک تصور کئے جاتے تھے ، اسی پارٹی میں اپنوں کے ہاتھوں بے عزت ہوگئے اور یہ تمام قدرت کا انتقام ہے۔ گجرات میں راجیہ سبھا کی ایک نشست کیلئے بی جے پی کی بوکھلاہٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک مسلمان کو راجیہ سبھا میں دیکھنا نہیں چاہتی۔ خود تو مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیتے اور اگر کوئی دے تو اسے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ گزشتہ تین سال سے شاہنواز حسین کو بی جے پی نے کوئی عہدہ نہیں دیا۔ گجرات سے احمد پٹیل کے انتخاب کو روکنے کیلئے کانگریس ارکان میں پھوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ جب کانگریسی ارکان کرناٹک چلے گئے تو ان کے میزبان وزیر کے گھر پر انکم ٹیکس دھاوے کئے گئے ۔ یہ سیاسی انتقامی کارروائی کی واضح مثال ہے۔ کیا سارے ملک میں صرف کرناٹک کے وزیر برقی ہی غیر محسوب اثاثہ جات رکھتے ہیں اور پھر دھاوؤں کا خیال انکم ٹیکس کو اسی وقت کیوں آیا جب وہ گجرات کے ارکان اسمبلی کی میزبانی کر رہے تھے۔ یہ دھاوے پہلے بھی ہوسکتے تھے یا پھر راجیہ سبھا الیکشن کے بعد ۔ مرکزی حکومت کم از کم ایک بار ناگپور میں بھی اس طرح انکم ٹیکس کے دھاوے کرائے تاکہ وہاں کی غیر محسوب دولت کا پتہ چل سکے۔ دراصل بی جے پی انتقامی کارروائی میں کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے۔ کرناٹک میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہیں اور چیف منسٹر سدا رامیا نے ریاست کیلئے علحدہ پرچم کا مسئلہ چھیڑ کر بی جے پی کو پریشان کردیا ہے ۔ انہوں نے کشمیر کی طرح کرناٹک کا الگ پرچم تیار کرتے ہوئے کنڑ جذبات کو بھڑکادیا ہے ۔ سدا رامیا اقتدار بچانے کیلئے بی جے پی کی ہر چال کا جواب دینے تیار ہیں۔ دوسری طرف مرکز نے خارجہ سطح پر دو پڑوسیوں کے معاملہ میں دوہرا معیار اختیار کیا ہے ۔ سشما سوراج نے اعلان کیا کہ چین کے ساتھ تنازعہ کی یکسوئی بات چیت کے ذریعہ کی جائے گی جبکہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیلئے دہشت گردی کے خاتمہ کی شرط رکھی گئی ہے ۔ 1962 ء کی جنگ کے بعد سے چین ، ہندوستان کے بڑے حصہ پر قابض ہے لیکن ہندوستان یہ کہنے کے موقف میں نہیں کہ جب تک ان علاقوں کا تخلیہ نہیں کیا جاتا ، اس وقت تک بات چیت نہیں کی جائے گی ۔ چین نے اروناچل پردیش کو عملاً اپنی چہل قدمی کا مرکز بنالیا ہے۔ دیش بھکتی کے دعوے کرنے والی بی جے پی حکومت کا یہ دوہرا معیار باعث افسوس ہے۔ چین کی طاقت کے آگے کیا ہندوستان مرعوب ہوچکا ہے۔ تنازعہ جب دونوں ممالک سے ہو تو پھر مذاکرات کیلئے موقف بھی یکساں ہونا چاہئے ۔ انکم ٹیکس دھاوؤں کے پس منظر میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے سب ٹھکانوں