ہمیشہ کیوں مرے گھر سے ہی بم نکلتا ہے

 

رشیدالدین

 

داعش کے نام پر حیدرآباد میں گرفتاریاں
ٹی آر ایس حکومت نشانہ پر تو نہیں؟

داعش سے مبینہ روابط کے الزام میں قومی تحقیقاتی ایجنسی کی اچانک کارروائی سے حیدرآباد قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ۔ اسلامک اسٹیٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد سے ہندوستان کے کسی شہر میں اب تک کی بڑی کارروائی اور اس قدر گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ قومی تحقیقاتی ایجنسی (NIA) کا دعویٰ ہے کہ ٹھوس ثبوت کی بنیاد پر کارروائی کی گئی۔ اگر واقعتاً کوئی نوجوان ملک دشمن سرگرمیوں کا حصہ ہے تو قانون کے مطابق کارروائی سے کسی کو اختلاف نہیں لیکن این آئی اے نے جس انداز میں کارروائی کی اور الزامات کے حق میں جو ضبط شدہ اشیاء پیش کی ہیں، اس نے کئی سوال کھڑے کردیئے ہیں۔ NIA نے ایک ہی وقت میں بیشتر مقامات پر دھاوے کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے حیدرآباد داعش کے ایجنٹس اور ہمدردوں کا مرکز ہے۔ گرفتاریوں کے ساتھ ہی  میڈیا کے ذریعہ سنسنی دوڑا دی گئی اور پھر بعد میں 11 کے منجملہ 5 کی گرفتاری کی توثیق کی گئی اور 6 دوسروں کو رہا کردیا گیا ۔

گرفتاریوں کے حق میں قومی تحقیقاتی ایجنسی نے جو کہانی پیش کی ہے، وہ سابق میں اس طرح کی گرفتاریوں کے موقع پر پیش کی گئی کہانی سے مختلف نہیں ہے ۔ اہم مقامات پر بم دھماکے ، اہم شخصیتوں کو نشانہ بنانا اور فرقہ وارانہ نفرت اور فساد برپا کرنے کیلئے مخصوص فرقہ کی عبادتگاہ کی بیحرمتی جیسے الزامات عائد کئے گئے ۔ دہشت گردی سے متعلق کسی بھی گرفتاری میں اکثر و بیشتر اسی نوعیت کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ سنگین الزامات اور گرفتار شدگان کے پاس سے ضبط شدہ اشیاء میں کوئی مطابقت نہیں ہے ۔ حیدرآباد کے بعض اہم تجارتی مراکز پر بم دھماکوں کی منصوبہ بندی کا دعویٰ کیا جارہا ہے لیکن ضبط شدہ اشیاء میں اس طرح کی تیاری کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔ NIA کے ذرائع نے انگلش اور تلگو اخبارات میں مختلف سنسنی خیز انکشافات پر مبنی رپورٹس کو لیک کیا ہے۔ ایک اخبار نے گرفتار شدگان کا تعلق  استنبول ایرپورٹ کے بم دھماکے سے جوڑدیا ۔ الغرض میڈیا گرفتار شدگان کے بارے میں طرح طرح کے سنسنی خیز انکشافات کے ذریعہ یہ ثابت کرنے میں مصروف ہے کہ جیسے یہ  نوجوان شام اور عراق سے حیدرآباد آئے ہوں ۔ ملک کی سلامتی سے جڑے کسی بھی مسئلہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ کیا جانا چاہئے

لیکن انصاف کے تمام اصولوں کی تکمیل کو ملحوظ رکھا جائے۔ قانون اور انصاف کا یہ اصول ہمیشہ تحقیقاتی ایجنسیوںکے پیش نظر رہے کہ بھلے ہی 100 گناہگار چھوٹ جائیں لیکن ایک بے قصور کو ناکردہ گناہوں کی سزا نہ ملے۔ NIA کی یہ گرفتاریاں مخصوص مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کی ہیں اور حال ہی میں اس گروپ میں اختلافات پیدا ہوئے تھے ۔ لہذا یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انتقامی جذبہ کے تحت پولیس کو مخبری کی گئی۔ خیر سچائی بھلے ہی کچھ  ہو لیکن مسلمانوں کی غلط تصویر دنیا کے سامنے پیش ہوئی ہے۔ مبصرین کا مانناہے کہ ہندوستان سے داعش کا کوئی مفاد وابستہ نہیں اور نہ ہی ہندوستان سے انہیں کوئی دشمنی ہے۔ ہندوستان ان ممالک کے اتحاد کا حصہ نہیں ہے جو داعش کے خلاف عراق اور شام میں حملے کر رہے ہیں۔ ایسے میں ہندوستان میں داعش کی کارروائیوں کی باتیں ناقابل فہم اور کمزور دلیل پر مبنی ہیں۔ ویسے بھی حال ہی میں مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ہندوستانی مسلمانوں کے داعش سے روابط اور شمولیت کے امکانات کو مسترد کردیا تھا۔ اس قدر واضح بیان کے باوجود این آئی اے کی یہ کارروائی یقیناً بحث کا موضوع بن چکی ہے۔ ملک کے وزیر داخلہ جن کے تحت تمام سیکوریٹی اور انٹلیجنس ایجنسیاں آتی ہیں

، ان کا بیان درست ہے یا پھر NIA کا دعویٰ ؟ اتنا ہی نہیں وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں مسلمانوں کی حب الوطنی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمان وطن پر جان دے سکتے ہیں لیکن کبھی ملک کے خلاف نہیں جاسکتے۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے ظاہر ہے کہ مکمل معلومات کی بنیاد پر ہی بیان دیا ہوگا ، پھر آخر کس کے اشارہ پر مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ مرکز میں حکومت بھلے ہی کسی پارٹی کی ہو ، تحقیقاتی ایجنسیوں کی  ذہنیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ملک میں کہیں بھی کوئی واقعہ پیش آئے، فوری شبہ کی سوئی مسلمانوں کی طرف گھمادی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے الزامات کے تحت ٹاڈا اور پوٹا جیسے سیاہ قوانین کا مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ مسلم نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک کرنے کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ آئی ایس آئی ، لشکر طیبہ ، انڈین مجاہدین ، حرکت الجہاد اسلامی کے بعد القاعدہ اور اب تازہ ترین معاملہ میں داعش کے نام پر کارروائی کی گئی۔ کیا مسلمان کا مطلب ہی دہشت گرد ہے؟ آخر کیوں اس طرح کا لیبل لگاکر دیگر ابنائے وطن میں نفرت کا جذبہ پیدا کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ مکہ مسجد ، اجمیر اور دیگر بم دھماکوں میں مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کیا گیا تھا لیکن بعد میں زعفرانی دہشت گردی کے ملوث ہونے کا ثبوت ملا۔ جہاں تک سوشیل میڈیا کے ذریعہ کسی تنظیم سے رابطہ میں آنے کا معاملہ ہے ، اگر کوئی اس کا شکار ہوجائے تو ان بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو کونسلنگ کے ذریعہ راہ راست پر لایا جاسکتا ہے ۔ بجائے اس کے کہ ان پر ملک سے جنگ اور بغاوت جیسے سنگین مقدمات دائر کئے جائیں۔ ملک میں بعض ایسی مثالیں بھی ہیں کہ دوسرے ملک سے داعش کے کیمپ پہنچنے والے نوجوانوں کی کونسلنگ کی گئی اور انہیں گھر والوں کے حوالے کردیا گیا۔ حیدرآباد میں بھی بعض نوجوانوں کی کونسلنگ کی جاچکی ہے لیکن تازہ ترین معاملہ میں این آئی اے نے صرف سوشیل میڈیا پر روابط کیلئے انتہائی سنگین الزامات کے ذریعہ نوجوانوں کے مستقبل کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ بم دھماکوں کی سازش کا الزام تو ہے لیکن دھماکو اشیاء کا کوئی ذخیرہ نہیں ملا۔ گھریلو استعمال میں آنے والی زیادہ تر اشیاء ضبط کی گئیں ۔ داعش کو یہاں کی اہم شخصیتوں سے کیا ناراضگی ہوسکتی ہے۔ NIA نے نوجوانوں پر شہر کی ایک اہم مندر میں بیف رکھتے ہوئے فساد کی سازش کا الزام لگایا ہے ۔ کہیں یہ ملک بھر میں جاری بیف کی سیاست کا حصہ تو نہیں تاکہ بی جے پی کے ووٹ بینک کو مضبوط کیا جاسکے۔ بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ نے کہا تھا کہ جنوبی ہند کی ریاستوں پر پارٹی کی نظر ہے۔ کرناٹک کے بعد تلنگانہ میں بی جے پی اپنے قدم جمانا چاہتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ مرکز کے ذریعہ این آئی اے کو استعمال کیا جارہا ہو۔ 2009 ء میں ملک میں این آئی اے کا قیام عمل میں آیا تھا ، اس کے بعد سے حیدرآباد یونٹ کا یہ پہلا کیس ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنے برس تک تلنگانہ میں NIA کو کوئی بھی دہشت گردی کا معاملہ ہاتھ نہیں لگا اور اسے اپنی کارکردگی کا کچھ تو حساب دینا ہی تھا۔ ایجنسی کے قیام کے بعد سے حیدرآباد میں دہشت گردی کا ایک بھی معاملہ منظر عام پر نہیں آیا لیکن اب اچانک سنسنی خیز خلاصے کئے جارہے ہیں۔ جس تنظیم کا ملک میں کوئی وجود نہ ہو اس کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے ؟ NIA ایک قومی تحقیقاتی ایجنسی ہے ، اسے دانستہ یا نادانستہ طور پر کسی بھی سیاسی سازش میں فریق نہیں بننا چاہئے ۔ دہشت گردی کے الزامات سے متعلق بیشتر مقدمات میں مسلم نوجوان عدالتوں سے بری ہوچکے ہیں لیکن طویل مدت تک جیل کی صعوبتوں نے ان کے مستقبل کو تاریک کردیا۔ حیدرآبادی نوجوانوں کو گجرات کے واقعات میں پھنسانے کی کوشش کی جاچکی ہے ۔

NIA نے تازہ ترین کارروائی میں جن پانچ نوجوانوں کے خلاف مقدمات دائر کئے ہیں، ان پر الزامات ثابت ہونا ابھی باقی ہیں لیکن میڈیا کے بعض گوشے انہیں ملزم کے بجائے مجرم کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ بعض ٹی وی چیانلس نے مسلمانوں کے خلاف بی جے پی قائدین کے بیانات کو ٹیلی کاسٹ کرتے ہوئے ماحول بگاڑنے کی کوشش کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا کو کس نے عدلیہ کے اختیارات دیئے ہیں، ان کا کام صرف خبر پیش کرنا ہے، نہ کہ سزا کا تعین کرنا ۔ الزامات کے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ عدالت میں ہوگا۔ گرفتاریوں کی جس انداز میں تشہیر کی گئی، اس سے سوال ہے کہ سماج میں مختلف مذاہب کے درمیان نفرت کے جذبات اور دوریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ عبادتگاہوں کو نشانہ بنانے کے الزام سے اکثریتی فرقہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہوں گے۔ یہ وہی NIA ہے جس نے مالیگاؤںبم دھماکوں میں ملوث زعفرانی دہشت گردوں کو بچانے کی کوشش کی۔ کرنل پروہت اور سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو کلین چٹ دی گئی لیکن عدلیہ نے اپنی آزادی اور  غیر جانبداری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے کلین چٹ کو مسترد کردیا اور سادھوی کی ضمانت کو منسوخ کردیا۔ دہشت گردی اور ملک دشمنی جیسے حساس معاملات میں تحقیقات کی ایجنسی کو صرف قیاس آرائیوں کی بنیاد اور تعصب و جانبداری کے ساتھ کارروائی سے گریز کرنا ہوگا تاکہ ادارہ کی ساکھ برقرار رہے۔ عجلت پسندی اور ٹھوس ثبوت کے بغیر کسی کے اشارہ پر کی جانے والی کارروائیوں سے NIA کا وقار مجروح ہوگا اور قیام کے 7 برسوں میں ہی ادارہ عوامی اعتماد سے محروم ہوسکتا ہے۔ جو افراد واقعی ملوث ہوں ان کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش کیا جائے تاکہ بے قصوروں کو پھنسانے کا الزام نہ آئے ۔ سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ جب یہ نوجوان طویل عرصہ سے یہ سرگرمیاں انجام دے رہے تھے تو پھر انٹلیجنس اور مقامی پولیس کس طرح بے خبر تھی۔ بہتر پولیسنگ اور تحقیقات کے معاملہ میں حیدرآبادی پولیس کو دوسرے شہروں پر امتیاز حاصل ہے۔ حیدرآباد کئی برسوں سے اپنی مثالی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بے خوف ماحول کے ذریعہ ملک میں پر امن شہروں کی فہرست میں سرفہرست تھا لیکن اچانک گرفتاریاں عید و تہوار کی خوشیوں کو متاثر کرسکتی ہیں۔ اگر NIA کے پاس کچھ ثبوت تھے تو وہ خاموشی سے بھی تحقیقات کرسکتی تھی۔ بجائے اس کے کہ میڈیا میں سنسنی خیز لیک دیئے جاتے ۔ میڈیا نے کچھ اس طرح سنسنی دوڑادی جیسے شام اور عراق سے داعش کے جنگجو حیدرآباد پہنچ چکے ہوں۔ ملک کے کسی بھی حصہ میں آج تک داعش یا کسی اور دہشت گرد تنظیم کے نام پر اس قدر بڑی گرفتاریاں نہیں ہوئیں۔ بیک وقت 11 نوجوانوں کو تحویل میں لینا کسی درپردہ عزائم کے بارے میں شبہات کو جنم دیتا ہے ۔ کیا پس پردہ کوئی سیاسی عزائم کارفرما تو نہیں؟ مبصرین کا خیال ہے کہ ہائی کورٹ کی تقسیم کے مسئلہ پر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے مرکز سے ٹکراؤ کے ساتھ ہی یہ کارروائیاں انجام دی گئیں تاکہ حکومت کوپریشان کیا جاسکے۔ کے سی آر نے نئی دہلی کے جنتر منتر پر مرکز کے خلاف دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ کارروائی کے سی آر حکومت کو لاء اینڈ آرڈر کے محاذ پر ناکام ثابت کرنے کی کوشش ہے۔ NIA کی اس کارروائی کے بعد غیر محسوس طریقہ سے تلنگانہ کی ترقی متاثر ہوسکتی ہے اور بیرونی سرمایہ کاری پر اثر پڑے گا۔ منظر بھوپالی نے حالات پر کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے  ؎
یہ اتفاق ہے منظرؔ کہ کوئی سازش ہے
ہمیشہ کیوں مرے گھر سے ہی بم نکلتا ہے