ہمفسر کے انتخاب کا حق اور ’لو جہاد‘ پر سیاست

نئی دہلی ۔ 29 اگست (سیاست ڈاٹ کام) ہمارے ملک میں ہر سال سینکڑوں لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کی محبت میں پڑتے ہیں۔ وہ والدین، ذات پات اور مذہبی روایتوں کی پرواہ کئے بغیر ایک دوسرے کے ہوجاتے ہیں اور شادی کے بندھن سے جڑجاتے ہیں۔ کچھ لوگ اہل خانہ کے دباؤ میں آ کر واپس پلٹ بھی جاتے ہیں۔ اس طرح کی کہانیاں ہم بالی ووڈ کی فلموں میں دیکھتے ہیں جن کو دیکھ کر ہم ہنستے بھی ہیں اور روتے بھی ہیں۔ ایسے جوڑوں کی مدد اور ان کے تحفظ کیلئے عدالت عظمیٰ ہمیشہ سامنے آئی اور انہیں تحفظ فراہم کیا۔ عدالت عظمیٰ نے لتا سنگھ مخالف حکومت اترپردیش (2006) 5 SSC 475) میں پورے مشاہدے کے بعد حکم دیا کہ ’یہ ایک آزاد اور جمہوری ملک ہے، یہاں جب کوئی بالغ ہوجاتا ہے؍ ہوجاتی ہے تو انہیں اپنی پسند کی شادی کرنے کا پورا حق ہوتا ہے۔ اگر لڑکے یا لڑکی کے والدین کو بین مذاہب یا بین ذات شادی منظور نہیں یا پسند نہیں تو انہیں صرف اتنا حق ہے کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی سے سماجی رشتہ توڑ سکتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو نہ دھمکی دے سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں ڈرانے دھمکانے کیلئے کسی بھی طرح کے اقدام کرنے کی اجازت ہے۔ اس لئے عدالت عظمیٰ یہ حکم جاری کرتی ہیکہ انتظامیہ ؍ پولیس اس معاملہ کو دیکھے اور بین مذاہب یا بین ذات شادیاں کرنے والے لڑکے اور لڑکی کو تحفظ فراہم کرائیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ دھمکیوں یا تشدد کے شکار نہ ہوں اور وہ ہر وہ شخص جو ایسے جوڑوں کو دھمکی دے یا ڈرائے یا ان کے ساتھ تشدد برتے تو اسے مجرمانہ فعل سمجھتے ہوئے قانون کے مطابق اس پر پولیس ایکشن لیا جائے۔