ہمارے گھر پر چھاپہ

میرا کالم مجتبیٰ حسین
کل رات ہم نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا ۔ اس خواب کی تفصیل آپ کو بھی سنائے دیتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
ہم رات کے پچھلے پہر اپنے کمرہ میں گہری نیند سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ ہماری بیوی نے ہمیں جگاتے ہوئے کہا ’’ذرا سنئے ، دیکھئے تو سہی ہمارے گھر چھاپہ مارنے والے آگئے ہیں‘‘ ۔ ہم نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا ’’ان سے کہو معاف کریں اور آگے جائیں‘‘ ۔ بیوی نے کہا ’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو معاف کردیتے ہیں ۔ یہ تو چھاپہ مارنے والے ہیں ۔ ان کا معافی سے کیا تعلق؟‘‘۔ ہم نے ایک اور کروٹ بدلتے ہوئے کہا ’’کون سے چھاپہ مارنے والے ؟ ان دنوں چھاپہ مارنے والے بھی کئی قسم کے ہوگئے ہیں ۔ انکم ٹیکس کے چھاپہ مار ، سی بی آئی کے چھاپہ مار ، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ، کمرشیل ٹیکس اور نہ جانے کس کس کے چھاپہ مار ۔ پہلے پتہ تو کرو کہ کس ڈپارٹمنٹ سے آئے ہیں‘‘ ۔ ہماری بیوی نے کہا ’’تم خود جا کر پوچھ لو۔ میں پوچھوں گی تو کہیں واپس نہ چلے جائیں ۔ مجھے تو صورت سے یہ چھاپہ مارنے والے کم اور …!‘‘

اس وقت تک ہم نیند کے خمار سے نکل آئے تھے ۔ جب ہمیں پتہ چلا کہ ہمارے گھر سچ مچ چھاپہ مارنے والے آئے ہیں تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا ۔ ہم نے بیگم سے کہا ’’میں نہ کہتا تھا ایک دن ہمارا شمار بھی بڑے آدمیوں میں ہوگا ۔ خدا کا شکر ادا کرو کہ آج اس نے ہمیں یہ اعزاز بخشا ہے ۔ اگرچہ لکشمی کبھی ہمارے گھر نہیں آئی لیکن چھاپہ مارنے والے تو آگئے ہیں ، تم جلدی جلدی ان سارے احباب اور رشتہ داروں کو اس خوش خبری کی اطلاع دے دو جو ہمیں دیکھ دیکھ کر بلاوجہ حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں ۔ انہیں مزید جلانے کا اس سے بہتر کوئی اور موقع نہیں ہوسکتا‘‘ بیگم نے کہا ’’کیسے اطلاع دوں ۔ ٹیلی فون کا بل بروقت ادا نہ کرنے کی وجہ سے آج ہی تو ہمارا ٹیلی فون کٹا ہے ۔ کتنی بار تم سے کہا کہ ہمارے ٹیلی فون کا یوں بار بار کٹ جانا اچھا نہیں ۔ کوئی بھی ایمرجنسی آسکتی ہے‘‘ ۔ہم نے کہا ’’تم پڑوسی کے یہاں جا کر ٹیلی فون کرو ۔ میں اتنی دیر میں چھاپہ مارنے والوں سے نمٹتا ہوں‘‘۔
ہم دیوان خانہ میں آئے تو دیکھا کہ چار پانچ اصحاب دیوان خانہ کی ہر چیز کو نہایت غور سے دیکھ رہے ہیں اور دیکھنے سے زیادہ انہیں پرکھ رہے ہیں ۔ ان کے افسر اعلی نے ہم سے کہا ’’معاف کیجئے ہم آپ کے گھر چھاپہ مارنے کے لئے آئے ہیں‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’زہے نصیب ۔ ضرور چھاپہ ماریئے ۔ ہمیں تو آپ ہی کا انتظار تھا‘‘ ۔ افسر نے کہا ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو ہماری آمد کا پہلے ہی سے پتہ تھا‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں ۔ اگر آپ کی آمد کا پہلے سے پتہ ہوتا تو ہم آپ کو یوں سوتے ہوئے ملتے ۔ ہم تو آپ کے خیر مقدم کے لئے گھر پر چراغاں کرتے اور گلی کے نکڑ پر ایک خیر مقدمی کمان تو کھڑی کردیتے‘‘ ۔
افسر اعلی :’’دیکھئے مذاق بند کیجئے ۔ پہلے ہم آپ کے گھر کی تلاشی لینا چاہتے ہیں‘‘ ۔ ہم : ’’ضرور لیجئے مگر اسی بھی کیا جلدی ہے ۔ پہلے چائے وغیرہ تو پیجئے ۔ ہم نے اپنے کچھ صحافی دوستوں اور فوٹوگرافروں کو فون پر اطلاع دینے کے لئے کہا ہے کہ وہ جلد از جلد یہاں آجائیں۔ وہ آجائیں تو تلاشی شروع کردیجئے‘‘ ۔

افسر اعلی: ’’آپ نے صحافیوں اور فوٹوگرافروں کو کیوں بلایا ۔ آپ بھی عجیب آدمی ہیں ۔ لوگ تو چھاپے کی اطلاع کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘ ۔
ہم : ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے گھر چھاپہ پڑے اور اس کی اطلاع اخباروں میں نہ آئے ۔ پھر چھاپہ روز روز تو پڑنے سے رہا ۔ اخبار والے آؑجائیں تو ذرا مزہ آجائے گا ۔ ہمارے گھر سے اگر کوئی چیز نہ بھی ملے تو اخبار والے اپنی خبر میں نکال لیں گے ۔ اس طرح ہماری عزت اور احترام میں اضافہ ہوگا‘‘ ۔

چھاپہ مار ٹیم کا افسر ہم سے یہ بات چیت کر ہی رہا تھا کہ اچانک کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی ۔ دیکھا تو معلوم ہوا کہ ٹیم کے ایک کارندے نے ہماری وہ لاقیمت اور بے مثال دیواری گھڑی گرادی ہے جو ہمیں اپنے والد سے اور ہمارے والد کو ان کے والد سے ورثہ میں ملی تھی ۔ یہ گھڑی فرانس کے ایک گھڑی ساز نے 1857ء میں اس وقت تیار کی تھی جب ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی لڑی جارہی تھی ۔ ہمارے پاس یہ گھڑی پچھلے پچاس برسوں سے تھی ۔ اس سے پہلے یہ ہمارے والد کے پاس تھی ۔ ان کابیان تھا کہ ان کے پاس یہ گھڑی کبھی نہیں چلی ۔ لگ بھگ سو برس سے یہ گھڑی دس بج کر پینتیس منٹ بجارہی تھی ۔ یہ معلوم نہیں تھا کہ دن کے دس بج کر پینتیس منٹ بجارہی تھی یا رات کے ۔ البتہ مشہور یہ تھا کہ جس وقت ہمارے دادا کا انتقال ہوا تھا عین اس وقت ہمارے ایک تایا نے اس گھڑی کو چلنے سے روک دیا تھا ۔ گویا پچھلے سو برس سے وہ ہمارے اہل خاندان کو ہمارے دادا کے مرنے کا وقت بتارہی تھی ۔ ہمارے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ بھلے ہی یہ گھڑی نہ چلے لیکن اس میں ایک خوبی یہ ہے کہ دن میں دو دفعہ بالکل صحیح وقت بتاتی ہے ۔دیگر گھڑیوں کی طرح بالکل نہیں تھی جو دن کے کسی بھی وقت میں صحیح وقت نہیں بتاتیں ۔ تاہم اس گھڑی میں ہم وقت نہیں دیکھتے تھے بلکہ اپنے اسلاف کے کارناموں کو ڈھونڈتے تھے ۔ جیسے ہی یہ دیوار ی گھڑی گری ہمارے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔ ہم نے کارندے کو جا کر پکڑا کہ میاں جب تک اس گھڑی کا معاوضہ ہمیں ادا نہیں کیا جاتا تب تک ہم تمہیں کسی اور چیز کو ہاتھ لگانے نہیں دیں گے اور مزید تلاشی کی اجازت نہیں دیں گے ۔ افسر اعلی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ’’آپ اطمینان رکھیں آپ کو اس گھڑی کا معاوضہ مل جائے گا‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’مگر معاوضہ کیا ہوگا ۔ پہلے یہ تو طے کیجئے‘‘ ۔
افسر اعلی نے گھڑی کے ٹوٹے ہوئے پرزوں کا جائزہ لینے کے بعد کہا ’’آپ کو اس کے پچاس روپئے مل جائیں گے‘‘۔

ہم نے چیخ کر کہا ’’کیا کہا پچاس روپئے ۔ بھائی صاحب میں اس گھڑی کے پچاس لاکھ روپئے سے کم نہیں لوں گا ۔ آپ نے اس گھڑی کو کیا سمجھا ہے ۔ ہمارے باپ دادا کی نشانی ہے ۔ جس فرانسیسی کاریگر نے یہ گھڑی بنائی تھی اگر اس کے اہل خاندان کو اس گھڑی کا پتہ چل جائے تو وہ کروڑوں روپیوں میں اسے ہم سے خریدلیں گے‘‘ ۔ ہم یہ بحث کر ہی رہے تھے کہ کچھ صحافی حضرات اور فوٹوگرافر وہاں آگئے ۔ ہم نے انہیں سارا ماجرا کہہ سنایا اور بتایا کہ اس قدیم گھڑی کے دام پر ہم میں اور چھاپہ مارنے والوں میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا ہے ۔ وہ ہمیں پچاس روپئے دینا چاہتے ہیں اور ہم اس کے پچاس لاکھ سے کم نہیں لینا چاہتے ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ایک جہاندیدہ صحافی نے اس گھڑی کے ٹوٹے ہوئے کل پرزوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد کہا کہ اس کا دام آسانی سے ایک کروڑ روپئے بھی تعین کیاجاسکتا ہے لیکن جب تم نے پچاس لاکھ روپئے طے کردیا ہے تو چلو یہی سہی ۔ اس گھڑی کی قیمت اس کے کل پرزوں سے نہیں بلکہ اس کی عمر سے لگائی جانی چاہئے۔ بھلے ہی وہ بیسویں صدی میں ایک منٹ کے لئے نہیں چلی لیکن اس نے پوری ایک پُرآشوب صدی کو گزرتے ہوئے دیکھاہے ۔اس گھڑی سے تمہارے ارکان خاندان کا جو جذباتی رشتہ ہے وہ ایسا بیش قیمت ہے کہ اس کا معاوضہ تو کوئی ادا کر ہی نہیں سکتا ۔ پھر بھی تم نے کہہ دیا ہے تو پچاس لاکھ روپئے لے کر معاملہ کو رفع دفع کرو ۔

اس استدلال کے بعد افسر اعلی نے اپنی ٹیم کے کارندوں سے کہا کہ وہ چھاپہ مارنے کی مہم کو روک دیں ۔ کہیں لینے کے دینے نہ پڑجائیں ۔ ہم نے چھاپہ مارنے والوں کے یہ تیور دیکھے تو کہا ’’حضور ! آپ کو اب چھاپہ تو مارنا ہی پڑے گا ۔ اب تو صحافی اور فوٹوگرافر بھی آچکے ہیں ۔ ہم آپ کو یوں جانے نہیں دیں گے ۔ پھر آپ کی ٹیم نے تو ابھی اس گراموفون کو نہیں دیکھا ہے جو ہمیں اپنے نانا کی طرف سے ورثہ میں ملا ہے ۔ بخدا ایسا تاریخی اور یادگار گراموفون ہے کہ آپ اسے دیکھیں گے تو حیران رہ جائیں گے ۔ کچھ لوگوں کا تویہاں تک کہنا ہے کہ یہ گراموفون اس وقت کا بنا ہوا ہے جب ابھی سائنسدانوں نے خود گراموفون کو ایجاد نہیں کیا تھا ۔ اگر خدا کرے یہ کسی طرح ٹوٹ جائے تو ہمارے خاندان کو کم از کم ایک کروڑ روپئے ضرور دلاسکتا ہے ۔ ہماری بات کو سن کر افسر اعلی نے پہلے تو ہم سے یہ پتہ کیا کہ گراموفون مذکور کہاں رکھا ہوا ہے اور جب اس کے محل و قوع کا پتہ چل گیا تو اس نے اپنے کارندوں سے کہا کہ ’’خبردار! جو کوئی اس گراموفون کے قریب گیا تو ۔ یہ ایک عجیب و غریب گھر ہے یہاں ٹوٹنے سے پہلے کسی چیز کا دام تو پچاس روپئے ہوتا ہے ۔ لیکن یہی جب ٹوٹ جائے تو اس کا دام پچاس لاکھ ہوجاتا ہے ۔ لہذا چھاپہ مارنا بند کرو!‘‘۔
ہمارے بچوں نے کہا ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ چھاپہ نہ ماریں ، آپ کو چھاپہ تو مارنا ہی پڑے گا ۔ ہم تو کب سے آپ کا انتظار کررہے ہیں‘‘ ۔ ایک بچہ نے کہا ’’میرا ایک بال پین پچھلے ایک ہفتہ سے غائب ہے ۔ آپ کو تلاشی میں ملے تو واپس کردینا‘‘ ۔ ہماری بیوی نے کہا ’’اور ہاں ہماری پوتی کی ایک انگوٹھی کہیں گر گئی ہے ۔ بہت تلاش کیا لیکن پتہ نہیں چلا ۔ آپ لوگ تو ماہر ہیں ۔ آپ کو یہ انگوٹھی ملے تو ضرور دے دیں‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’ہماری بھی بعض ضروری چیزیں غائب ہیں ۔ یہ فہرست ہم آپ کو بعد میں دیں گے ۔ لیکن پہلے وہ دیواری گھڑی کا معاوضہ طے ہوجائے‘‘ ۔

ہماری بات معقول تھی اس لئے ہمارے صحافی دوستوں نے بھی اصرار کرنا شروع کردیا کہ جب تک دیواری گھڑی کی قیمت طے نہیں ہوجاتی تب تک چھاپہ مار ٹیم کو یہاں سے جانے نہ دیاجائے ۔ اس کے ساتھ ہی چھاپہ مار ٹیم کے ارکان نے بھاگنا شروع کردیا ۔ دوسرے دن اخباروں میں ہمارے گھر پر چھاپہ کی تفصیلی خبریں شائع ہوئیں ۔ جگہ جگہ ہمارے چرچے ہونے لگے اور لوگ ہمیں مبارکباد دینے لگے کہ اس چھاپہ کے عوض انکم ٹیکس والے تمہیں پچاس لاکھ روپئے ادا کررہے ہیں ۔ ایسا تاریخی چھاپہ آج تک کہیں نہیں پڑا ہوگا ۔ اس کے بعد اچانک ہماری آنکھ کھُل گئی ۔ دیکھا تو دور دور تک کسی کا نام و نشان تک نہیں تھا ۔ ہم نے بیوی سے پوچھا ’’چھاپہ مارنے والے کہاں چلے گئے؟‘‘ ۔ بیوی نے ہمیں ڈانٹتے ہوئے کہا ’’کوئی خواب دیکھا ہے کیا؟ کیسا چھاپہ اور کہاں کا چھاپہ؟‘‘ ۔ ابھی میں نے تمہارے پرس پر چھاپہ مارا تھا صرف دو روپئے نکلے ۔ یہ منہ اور مسورکی دال‘‘ ۔ اور یہ سن کر ہم اپنی آنکھیں ملنے میں مصروف ہوگئے ۔