ظفر آغا
گھبرایئے مت، خوف کی زـنجیر توڑ دیجئے۔ آخر جنید کی موت نے اس ملک کے صبر کا باندھ توڑ دیا اور بس ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل پڑے اور ایک آواز میں چیخ اُٹھے ’’ بہت ہوگیا، بس اب اور نہیں ‘‘ دہلی کے جنتر منتر سے لے کر ہندوستان کے انیس شہروں میں 29جون کو ہونے والے احتجاج کی بس یہی آواز تھی کہ ہندوستان کو گاؤ رکھشکوں کی آڑ میں بے گناہ مسلمانوں کی موت اب اور منظور نہیں۔ جیسا کہ اخبارات اور ٹی وی کی خبروں سے ظاہر ہے کہ ہزاروں افراد دہلی میں اکٹھا ہوئے، میں خود اس احتجاج میں موجود تھا۔ اس روز دہلی کے جنتر منتر کا سماں ہی کچھ اور تھا۔ عورت، مرد، نوجوان، بوڑھے سب اپنے ہاتھوں میں ایک تختی اٹھائے ہوئے جس پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا ’’ ناٹ اِن مائی نیم ‘‘ اکٹھا تھے۔ مجمع کا غصہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا لیکن کسی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اخلاق اور جنید جیسے معصوموں کو مارنے والوں کو خود پیٹ پیٹ کر ماردیں۔ پورے ماحول سے ایک انقلاب کی بو آرہی تھی۔ اس جلسہ میں نہ کوئی سیاسی پارٹی شامل تھی اور نہ کوئی پوسٹر بغیر تھے۔ اس کی شروعات تو ایک عورت نے فیس بک پر لکھ کر کی تھی جس میں لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا کہ گائے کے نام پر مارے جانے والوں کے احتجاج میں 29 جون کو دہلی کے جنتر منتر پر شام چھ بجے اکٹھا ہوجایئے۔ اور بس صبا دیوان کی اس چھوٹی سی فیس بک پوسٹ نے ایک تحریک کی شکل لے لی ہو۔ واٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعہ اس کال کا شور مچ گیا۔ ملک کے کونے کونے میں عام شہریوں نے اس کال کو اپنی تحریک سمجھ کر لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کردیا اور جب میں شام 6 بجے جنتر منتر پہنچا تو وہاں ہزاروں کا مجمع اکٹھا ہوچکا تھا اور شدید برسات کے باوجود ہزاروں افراد جنتر منتر پر کھڑے رہے جہاں کبھی فیض کی نظمیں تو کبھی کبیر کے گیت گائے جارہے تھے۔
وہ سماں دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا کیونکہ اس روز ہندوستان کی صدیوں پرانی تہذیب نے ایک بار پھر سے انگڑائی لی تھی۔ جنتر منتر دہلی پر 29 جون کو جو ہوا وہ ایک تہذیبی جنگ کا پیش خیمہ تھا کیونکہ جنتر منتر پر جو لوگ اکٹھا ہوئے تھے وہ ہندوستان کی صدیوں پرانی تہذیب کے دفاع میں اکٹھا ہوئے تھے۔ ’’ ناٹ اِن مائی نیم ‘‘ کی صدا کا مقصد یہ تھا کہ تم ہمارے نام پر اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو نہیں مٹا سکتے ہو، اور یہ آواز کسی اور کی نہیں بلکہ ہندوؤں کی آواز تھی۔ وہ شخص اخلاق اور جنید جیسوں کے قتل پر احتجاج نہیں کررہے تھے بلکہ وہ تو آج کے ہندوستان کو یہ یاد دلارہے تھے کہ ہندوستان تو ہمیشہ سے گنگا جمنی تہذیب کی آماجگاہ رہا ہے اور اس تہذیب کو ہندوتوا کے نام پر مٹایا نہیں جاسکتا ہے۔
یہ کوئی سیاسی نظارہ نہیں بلکہ ایک تاریخی اور تہذیبی حقیقت ہے جس کا اعلان جنتر منتر پر ہندوستان ایک بار پھر کررہا تھا۔ کیونکہ اس ہندوستان کا دامن تو ہمیشہ سے کھلا رہا ہے، یہاں کون نہیں آیا اور اس ہندوستان نے کس کس کو پناہ نہیں دی، جی ہاں، یہاں آرین آئے جنہوں نے ہندو مذہب کی بنیاد رکھی، یہاں گوتم بدھ نے جنم لیا جنہوں نے انسانی برابری کا پیغام دیا۔ پھر یہاں عیسائی آئے اور انہوں نے چرچ قائم کیا۔ یہاں ایران سے آکر پارسیوں نے پناہ لی اور آتش کدوں میں اپنے خداؤں کا نام روشن کیا۔ یہاں اسلام آیا اور مسلمانوں نے اس ملک کو ایک رنگا رنگ تہذیب دی۔ اس ملک میں جین اور سکھ مذہب نے اپنی جڑیں جمائیں اور ان سارے مذاہب اور تہذیبوں کی آماجگاہ کا نام پڑا ہندوستان، تب ہی تو جنگ آزادی کے دوران اس گنگا جمنی تہذیب کو ’’ نظریہ ہند ‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ گاندھی جی نے اس تہذیب کو ’’ ایشور اللہ تیرو نام ‘‘ کی سیکولر شکل دی اور یہی خیال آزاد ہندوستان کے آئین کا سنگ میل بن گیا جس نے یہ اعلان کیا کہ ’’ بغیر تفریق مذہب و ملت ، ذات پات اور جنس ‘‘ اس ملک کے ہر شہری کو برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ لیکن کچھ لوگ تھے جنہوں نے 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے فوراً بعد ہی اس گنگا جمنی تہذیب کے خلاف ایک نئے تہذیبی نظریہ کو شکل دینی شروع کردی تھی۔ اس نظریہ کی فکری بنیاد یہ تھی کہ ہندوستان محض ہندوؤں کا ہے اس لئے یہاں محض ایک قوم ، ایک مذہب اور ایک کلچر کو ہی عروج ہوگا اور باقی سب دوسرے درجے کے شہری بنائے جائیں گے اور یہی نظریہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا نظریہ ہے جس کو انہوں نے ’’ ہندوتوا ‘‘ کا لیبل دے دیا ہے، اور یہ گاؤ رکھشک اخلاق اور جنید جیسے بے گناہوں کا قتل کرکے ملک کی گنگاجمنی تہذیب کو ختم کر تے ہوئے ملک میں ہندوتوا تہذیب لانا چاہتے ہیں۔ جنتر منتر پر جمع ہونے والے ہر مذہب کے لوگوں نے یہی آواز بلند کی کہ ہمیں ہندوتوا نہیں بلکہ اس ملک کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب ابھی بھی منظور ہے۔
اور یہ آواز ہندوستان سے نہیں تو اور کہاں سے اٹھتی، کیونکہ اسی ہندوستان نے 1949 میں اسی طرح کے ایک مذہب، ایک قوم اور ایک کلچر کے نام پر اٹھنے والی جناح کی آواز کو رد کردیا تھا۔ اسوقت ہندوستان نے بٹوارہ منظور کیا لیکن ہندوستان کو سیکولرازم کی بنیاد پر قائم کیا۔ آج جناح کے نظریہ کے پجاری ہندوتوا کے نام پر اس ملک کو ایک ہندو پاکستان کی شکل دینا چاہتے ہیں، لیکن اب اس خیال سے ہندوستان کی روح مجروح ہوچکی ہے اس لئے ہندوستانیوں کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوچکا ہے اور اب وہ سڑکوں پر نکلنے لگ گئے ہیں۔
یہ لڑائی ایک سنگین لڑائی ہے کیونکہ یہ دو تہذیبی نظریات کی لڑائی ہے ۔ یہ نظریاتی جنگ محض ایک احتجاج سے ختم نہیں ہونے والی ہے اس میں قربانی دینی پڑے گی۔ اس لڑائی میں بڑی جدوجہد کرنی ہوگی اور کوئی جدوجہد خوف کے دائرہ میں رہ کر نہیں ہوسکتی۔ اس لئے ایک بار پھر یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ گھبرایئے مت کیونکہ اس جدوجہد میں لاکھوں ہندو بھی آپ کے ساتھ ہیں بلکہ اس تہذیبی جنگ کے لیڈر بھی وہی ہیں اور یہ جنگ گاندھی جی کے بتائے ہوئے پُرامن راستہ پر ہی ہوسکتی ہے اس لئے پُرامن طریقہ سے ناٹ اِن مائی نیم جیسا کوئی بھی احتجاج ہوتا ہے تو اس میں اپ بھی ہزاروں کی تعداد میں شریک ہویئے تاکہ اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو بچایا جاسکے، اور جہاں پھر کوئی اور اخلاق اور جنید نہ مارا جاسکے۔ اس لئے اُٹھیئے اور اپنے اپنے شہروں میں’’ ناٹ اِن مائی نیم ‘‘ جیسے احتجاج کیجئے، اسی میں آپ اور صدیوں پرانی ہندوستانی روایت کی بقاء ہے۔