ہمارے منتخب نمائندوں کو کرنا کیا ہے؟ …… اور اکثر نمائندے کیا کررہے ہیں؟

عرفان جابری
آج دنیا کے تمام ملکوں پر اِک نظر ڈالیں تو طرز حکمرانی کی نوعیت غالب اکثریت کے ساتھ جمہوریت ہے؛ یعنی جمہور یا سادہ اصطلاح میں متعلقہ علاقہ، ریاست و ملک کے لوگوں کی طرف سے انتخاب انجام پاتا ہے کہ اُن پر حکمرانی کون کرے؟ اس طرز حکمرانی کے برعکس فرمانروائی ہے، جہاں لوگوں کو مستقبل کے حکمرانوں کو منتخب کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا بلکہ بادشاہت نسل در نسل چلتی رہتی ہے! بادشاہت کے مقابل جمہوریت بلاشبہ احسن طرز حکمرانی ہے کیونکہ اس طریقے میں عوام کی حکومت، عوام کیلئے اور عوام کے ذریعے ہوتی ہے، جو ظاہر ہے فرمانروائی سے کئی درجات بہتر نظام ہے؛ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ’ڈیموکریسی‘ میں کچھ خامیاں نہیں ہوتی ہیں۔
جمہوریت میں حق رائے دہی کسی بھی متعلقہ فرد کو مخصوص عمر (ہندوستان کے معاملہ میں 18 سال) میں حاصل ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ سرسری تخمینہ لگائیں تو مخصوص عمر سے کم سال والوں کی تعداد جملہ آبادی میں تقریباً 35 فیصد ہوتی ہے۔ یعنی 65 فیصد لوگ 100 فیصدی آبادی پر لاگو ہونے والے فیصلے بالواسطہ کرتے ہیں۔ اگر ہم حقیقت ِ حال پر نظر ڈالیں تو سو فیصدی پولنگ کبھی نہیں ہوتی بلکہ عمومی طور پر 60 فیصد کے لگ بھگ تناسب ہوا کرتا ہے؛ ایسی صورت میں مزید تھوڑے افراد اپنے حق رائے دہی کے ذریعے وہ نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں جو پوری آبادی پر اثرانداز ہونے والے فیصلے کرتے ہیں! اس لئے جمہوریت میں پولنگ کے تناسب کی بڑی اہمیت ہے۔ تاہم، میری دانست میں اس سے کہیں زیادہ اہم بات ’منتخب نمائندوں‘ کے فرائض و ذمہ داریاں اور ’حقیقی صورتحال‘ کی ہے۔ یعنی گاؤں اور پنچایت سے لے کر بلدی ادارہ، ریاستی اسمبلی اور لوک سبھا (راست عوام کے ذریعے منتخب کیا جانے والا پارلیمانی ایوان) کیلئے منتخب ہونے والے امیدواروں پر اپنے انتخاب کے بعد دستورِ ہند کے مطابق کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور موجودہ ہندوستان میں واقعتا کیا کیا ہورہا ہے؟ میں نے ان سطور میں یہی سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے جسے قارئین کرام کے جائزے کیلئے پیش کررہا ہوں۔ آنے والے مہینوں میں الیکشن کا موسم قومی سطح پر آنے والا ہے، اور ساتھ ہی بعض ریاستوں (جیسے راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ) میں ڈسمبر؍ جنوری تک اسمبلی چناؤ کا عمل پورا ہونا بھی دستوری طور پر ضروری ہے۔ اس لئے میں نے سوچا کہ ووٹروں کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے وقت امکانی منتخب امیدواروں کے فرائض و ذمہ داریوں کا علم ہو تو وہ اپنے ووٹ کا بہتر استعمال کرسکیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں ملک میں منتخب نمائندوں کی عمومی روِش کا جائزہ لینے کی کوشش کررہا ہوں۔
آج کے ہندوستان میں یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ انتخابات چاہے کسی سطح کے ہوں عملاً ’دولت اور طاقت کا کھیل‘ بن چکے ہیں، بہ الفاظ دیگر جس کے پاس دولت (کالادھن ہو کہ سفید) اور طاقت (غنڈہ گردی) یا دونوں ہوں، اُس کا الیکشن میں کامیاب ہونا شاذونادر ہی یقینی نہیں ہوتا۔ لیکن کیا یہی جمہوریت ہے، کیا انتخابات کے بارے میں ہمارے دستورِ ہند کا یہی منشاء ہے کہ الیکشن قوانین و ضوابط کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے جیتے جائیں۔ یا حقیقت یہ ہے کہ عام ہندوستانی اور عام ووٹر بزدل اور کھوکھلا ہوگیا ہے، اب وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے بے پرواہ ہوچکا ہے، یا پھر آج کل کے نوجوان بلکہ اَدھیڑ عمر والے ووٹروں کو تک کچھ اندازہ ہی نہیں کہ وہ اپنے ’نمائندوں‘ کو منتخب کرکے متعلقہ ایوان میں بھیجتے ہیں تو اُن سے کیا کیا توقعات وابستہ رکھنی چاہئیں اور کن کن باتوں کی صورت میں انھیں اگلی مرتبہ اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے ’خاطی ‘ منتخب نمائندوں کو ’سزا‘ دینا چاہئے؟

آنے والے مہینوں میں لوک سبھا کا جنرل الیکشن ہو کہ بعض ریاستوں کے اسمبلی انتخابات، بالعموم تمام ہندوستانیوں اور بالخصوص تمام ووٹروں (ہندو یا غیرہندو کی بات نہیں کیونکہ جس ملک میں کسی کی پیدائش ہو اُسی سرزمین سے اُس کی شناخت ہوتی ہے؛ اُس کے پسند کے طرزِ زندگی کا تعین تو وہ بالغ ہونے پر ہی ہوتا ہے) کیلئے بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ 2014ء میں چیف منسٹر گجرات نریندر دامودرداس مودی کی قیادت میں بی جے پی اور این ڈی اے نے ظاہراً اور آر ایس ایس نے مخفی طور پر جنرل الیکشن ’ترقی‘ (وکاس ؍ ڈیولپمنٹ) کے نعرہ پر لڑا اور یو پی اے II کو کراری شکست ہوگئی۔ کئی جگہوں پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں مبینہ اُلٹ پھیر کی باتیں اپنی جگہ ہیں لیکن عمومی طور پر ہندوستانی عوام یو پی اے II سے عاجز آچکے تھے اور انھوں نے تبدیلی کیلئے ووٹ دیا۔ تاہم، 2014ء کے بعد ان برسوں میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں وہ سب جگ ظاہر ہیں۔ اب تو مودی حکومت میں ’جمہوری عمارت‘ کا تقریباً ہر ’ستون‘ مخدوش ہوچکا ہے، عوام الناس (ووٹرز) آنے والے الیکشن کے معاملے میں غفلت برتنے کے متحمل ہرگز نہیں ہوسکتے ہیں۔ زائد از چار سالہ مودی حکمرانی کے نتیجے میں جمہوریت کے لالے پڑگئے ہیں، ہندوستان کا سکیولر تانا بانا خطرے میں ہے، ’وکاس‘ کی باتیں تو ہوا ہوگئیں، اب تو کئی جگہوں پر ہندوستانی کلچر کے ’وِناش‘ کی حرکتیں دھڑلے سے کی جارہی ہیں اور بی جے پی حکومتیں ’مجرمانہ غفلت کی نیند‘ سو رہی ہیں۔
ہم کو آنے والے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومت کے منتخب نمائندوں کے معاملے میں بہت احتیاط برتنا ہے۔ ہم کو دیکھنا ہے کہ آیا ہندوستان میں زندگی کے ہر شعبہ میں ’ہندو اور غیرہندو‘ کی بنیاد پر فیصلے کرنے والی حکومت چاہئے یا بالعموم ہندوستانیوں کی ترقی کیلئے کام کرنے والی حکومت کو منتخب کرنا ہے۔ ہم کو ایسے منتخب نمائندے نہیں چاہئیں، جو اپنے دستوری فرائض و ذمہ داریوں کی تکمیل کو چھوڑ کر شہریوں کے کھانوں (menu) کا انتخاب کرنے میں مصروف ہوجائیں اور اسے مسلط کرنے لگیں؛ جو یہ طے کرنے لگیں کہ شہریوں کی صبح کیسے ہو یعنی یوگا سے ہو کہ نماز کے ساتھ؛ جو اس دستوری آزادی کو سلب کرنے کے جتن کرنے لگیں کہ تمام ہندوستانی دستوری رعایتوں کے ساتھ اپنی پسند کا سیول کوڈ اختیار کرسکتے ہیں! اب سیاسی اخلاق و دیانت داری کا دَور کہاں، لال بہادر شاستری جیسے لیڈر کہاں، جنھوں نے ریلوے کا قلمدان سنبھالنے کے دوران محبوب نگر میں ایک ریل حادثے پر اپنی وزارت سے استعفا دیا ، جسے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے قبول نہیں کیا تھا مگر چند ماہ بعد ایک اور ریل حادثہ ٹاملناڈو میں پیش آیا جس کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے شاستری نے نہرو کابینہ سے علحدگی اختیار کرلی تھی۔ بعد میں وہ وزیراعظم ہند رہتے ہوئے پرلوک سدھارے۔
ہم ہمارے آس پاس نظر ڈالیں یا ریاستی و ملکی سطح پر دیکھیں تو ہمیں کئی منتخب نمائندے ایسے نظر آتے ہیں جو اپنا منہ کھولتے ہیں تو اکثر مخصوص ابنائے وطن کے خلاف زہر اُگلتے ہیں، فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا اُن کا وطیرہ بن چکا ہے، کئی نامعقول معاشرتی سرگرمیوں کی سرپرستی اور غلط طریقوں سے دولت اکٹھا کرنا جن کی عادتِ خاصہ بن چکی ہے۔ ہم کو ’اب کی بار‘ ایسے تمام ’منتخب نمائندوں‘ کو ہرانے کیلئے ووٹ ڈالنے کا عہد کرنا ہوگا۔ تب ہی انڈیا کا مستقبل سنور سکتا ہے ورنہ اس بھارت کا شیرازہ بکھرنے میں زیادہ سال نہیں لگیں گے!

موجودہ طور پر لوک سبھا (دارالعوام) یا ایوانِ زیریں کے 545 ارکان ہیں۔ 543 ارکان کو راست طور پر شہریانِ ہند آفاقی بالغ رائے دہی کی اساس پر منتخب کرتے ہیں اور وہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے پارلیمانی حلقوں کی نمائندگی کرتے ہیں، نیز 2 ممبرز کو صدرجمہوریہ ہند اینگلو انڈین کمیونٹی سے نامزد کرتے ہیں۔ لوک سبھا کے اراکین کی وسیع تر ذمہ داریاں یوں ہیں:
l قانون سازی کی ذمہ داری: ہندوستان کے قوانین کی لوک سبھا میں منظوری میں حصہ لینا۔
l نگرانی کی ذمہ داری: یہ یقینی بنانا کہ عاملہ ؍ ایگزیکٹیو (یعنی حکومت) اپنے فرائض اطمینان بخش طور پر انجام دے۔
l نمائندگی کی ذمہ داری: اپنے حلقہ انتخاب کے عوام کی باتوں اور اُمنگوں سے پارلیمانِ ہند (لوک سبھا) کو واقف کرانا۔

l فنڈز سے متعلق ذمہ داری: آمدنی اور حکومت کے تجویز کردہ مصارف کو منظور کرنا اور متعلقہ امور پر نظر رکھنا۔
l اراکین مرکزی مجلس وزراء جو ارکان پارلیمنٹ بھی ہوتے ہیں انھیں مجلس وزراء میں عدم شامل ممبرز کے مقابل عاملہ کی اضافی ذمے داری لاحق ہوتی ہے۔
ریاستی اسمبلی کے رکن کا جائزہ لیتے ہیں، جسے عوام راست طور پر منتخب کرتے ہیں۔ مقننہ (legislature) کا سب سے اہم کام قانون سازی ہوتا ہے۔ ریاستی مقننہ کو وہ تمام اُمور کے بارے میں قوانین بنانے کا اختیار ہے جن پر پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کرسکتی ہے جیسے پولیس، آبپاشی، زراعت، مجالس مقامی، صحت عامہ، مذہبی اسفار، آخری رسوم کے مقامات وغیرہ۔ ریاستی مقننہ کو قوانین بنانے کے علاوہ ایک انتخابی اختیار بھی حاصل ہوتا ہے، جو صدرجمہوریہ ہند کے انتخاب سے متعلق ہے۔ قانون ساز اسمبلی کے منتخب ارکان اس عمل میں منتخب ارکان پارلیمان کے ساتھ حصہ لیتے ہیں۔ دستور کے بعض حصوں میں پارلیمنٹ نصف تعداد میں ریاستی مقننہ جات کی منظوری کے ساتھ ترمیم کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا، ریاستی مقننہ جات دستور میں ترمیم کے عمل میں بھی حصہ لیتے ہیں۔
چنانچہ واضح ہوگیا کہ ہندوستان میں ایم پیز اور ایم ایل ایز پر قوانین بنانے اور وقتاً فوقتاً دستورِ ہند میں ترمیم کرتے رہنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے اقدامات پر نظر رکھنے اور عوام کی رائے اور امنگوں کو ایوان تک پہنچانے کی بھاری ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔ لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے بیشتر ایم پیز اور ایم ایل ایز اپنا بینک بیالنس اور اپنی جائیدادیں (اکثر بے نامی) بڑھانے کی عملاً ’مشینیں‘ بن چکے ہیں۔ تمام شہروں میں بلدی اداروں کے پاس ٹاؤن پلاننگ کا شعبہ ہوتا ہے لیکن عملی طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کیلئے نئی نئی بستیاں قائم کرتے ہوئے ’ٹاؤن پلاننگ‘ کی ذمہ داری ارکان مقننہ جات نے لے رکھی ہے۔ اگر ان کو ہی یہ ذمہ داری نبھانا ہے تو عوامی فنڈز کے ساتھ بلدی شعبہ کو قائم رکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ لا اینڈ آرڈر، کرائم حتیٰ کہ گھریلو اور ازدواجی معاملوں میں تک ارکان مقننہ بڑے شوق سے دخل اندازی کرتے ہیں۔ جب یہی روش برقرار رکھنا ہے تو پھر پولیس ڈپارٹمنٹ کو قائم رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اب وقت آچکا ہے کہ ایم ایل اے اور ایم پی بننے کے خواہشمندوں کو دستور کی مطابقت میں اُن کے فرائض و ذمہ داریاں یاد دلائی جائیں۔ جو کوئی رکن مقننہ ان سے روگردانی کرے اسے ’ووٹ کی طاقت‘ کے ذریعے ’اچھا سبق‘ سکھایا جائے۔ اس کے برخلاف اگر ایم ایل ایز و ایم پیز کو سیاسی اخلاق و اُصولوں کی یونہی دھجیاں اُڑانے دیا جاتا رہے تو ’اکھنڈ بھارت‘ چند سال میں ’منتشر بھارت‘ بن جائے گا!
irfanjabri.siasatdaily@yahoo.com