’’ہمارے ملک نے ہی ہمیں اکیلا چھوڑدیا ہے ‘‘محبوبہ مفتی کا شکوہ

الیکٹرانک میڈیا پرتصادم کے واقعات بڑھا چڑھاکر پیش کرنے کا الزام،کشمیر میں 31سال بعد ٹائی کنونشن
سری نگر ، 28مارچ ( سیاست ڈاٹ کام) جموں وکشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ایک بڑے ملک کا حصہ ہونے کے باوجود جموں وکشمیر کے لوگ اجنبیت محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اہلیان جموں وکشمیر کو اپنے ملک نے بھی اکیلے چھوڑ دیا ہے ۔ محبوبہ مفتی نے ان باتوں کا اظہار گذشتہ شام یہاں شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کناروں پر واقع شیر کشمیر انٹرنیشنل کنونشن کمپلیکس میں ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن آف انڈیا (ٹائی) کی 64 ویں کنونشن کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے قومی الیکٹرانک میڈیا پر برستے ہوئے کہا کہ کشمیر میں کہیں مسلح تصادم ہوتا ہے تو اسے اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے جیسے پورا جموں وکشمیر جل رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال سے نمٹنے کے مختلف طریقے ہیں لیکن کشمیر میں بندوق کا مقابلہ بندوق سے کیا جاتا ہے اور ان بندوقوں سے لگنے والے زخموں پر کوئی مرہم نہیں رکھنا ۔ محبوبہ مفتی نے ریاست میں سیاحتی شعبہ کی بحالی کو یقینی بنانے کی ہمدردانہ اپیل کرتے ہوئے ملک کی سیاحتی برادری سے کہا کہ وہ آگے آکر لوگوں کے مابین روابط کو مستحکم کرنے میں مدد کریں تاکہ سیاحتی شعبے کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچایا جاسکے ۔ انہوں نے کہا ‘اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم ایک مشکل وقت سے گذر رہے ہیں۔ ہم نے آپ کو ہمارے ہاتھ پکڑنے کے لئے بلایا ہے ۔ کہیں کچھ ہوتا ہے تو ٹیلی ویژن پر اسے ایسے دکھایا جاتا ہے جیسے پورے جموں وکشمیر پر مصیبت آن پڑی ہے ۔ اس سے کشمیر کے ساتھ ساتھ جموں کے سیاحت پر بھی اثر پڑتا ہے ۔

محترمہ مفتی نے 31 برس بعد سری نگر میں منعقد ہونے والی اس کنونشن کے قریب 600 مندوبین سے مخاطب ہوکر کہا ’’ کہ آپ آئے بہار آئی۔ ہمارے حالات کسی سے چھپے نہیں ہیں۔ عالمی سطح پر ہر ایک جگہ مسئلے ہیں۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے ملک نے بھی اکیلے چھوڑ دیا ہے ۔ حالات کو ڈیل کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ ہم ایک ہی طریقہ استعمال کرتے ہیں وہ یہ کہ بندوق کا مقابلہ بندوق سے کرتے ہیں۔ جو زخم اس بندوق سے لگتے ہیں، ان کا کوئی مرہم نہیں کرنا چاہتا۔ وہ مرہم اگر کوئی کرسکتا ہے تو وہ اپنے لوگ ہیں’۔انہوں نے کہا کہ ایک بڑے ملک کا حصہ ہونے کے باوجود اہلیان جموں و کشمیر اجنبیت محسوس کرتے ہیں۔انہوں نے بعض ٹی وی نیوز چینل کا نام لیکر قومی الیکٹرانک میڈیا کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ‘آپ یہاں بیٹھے ہیں اور کہیں دور مسلح تصادم چل رہا ہے ۔ جب شام کے وقت اس مسلح تصادم کو لیکر ٹی وی پر بحث ہوتی ہے تو ہمارے یہاں بیٹھے سیاح کو فون آتا ہے کہ کیا تم اُسی کشمیر میں ہو جس کو میں ابھی ٹائمز نو پر دیکھ رہا ہوں۔ جس کو میں ری پبلک، نیوز ایکس اور انڈے ٹو ڈے پر دیکھ رہا ہوں۔ انہوں (الیکٹرانک میڈیا) نے ایک ایسے تاثر کو جنم دیا ہے جیسے پورا جموں وکشمیر جل رہا ہے ۔ ایسا ہوتا نہیں ہے ‘۔واضح رہے کہ تین روزہ ٹائی کنونشن سری نگر میں 31برسوں کے وقفے کے بعد منعقد ہورہی ہے ۔ پچھلی بار سری نگر میں یہ کنونشن سنہ 1987ء میں منعقد کی گئی تھی ۔وزیر اعلیٰ نے کشمیر کو خواتین کے لئے سب سے محفوظ جگہ قرار دیتے ہوئے کہا ‘یہ خواتین کے لئے ایک محفوظ جگہ ہے ۔ اگر ہمارے ملک میں کوئی جگہ خواتین اور لڑکیوں کے لئے محفوظ ہے تو وہ جموں وکشمیر ہے ‘۔ انہوں نے کہا ‘جب بندوقیں چلتی ہیں تو زخم بہت لگے ہیں۔ ہمیں زخموں کو مندمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہماری حکومت اکیلے کچھ نہیں کرسکتی۔ اس میں ہمیں آپ لوگوں کی ضرورت ہے ‘۔محترمہ مفتی نے سیاحوں کو کشمیر آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ‘جموں وکشمیر کے لوگ بہت اچھے ہیں۔ وقت کے ستائے ہوئے ہیں۔ تکلیف کے مارے ہیں۔ مگر دل کے بہت اچھے ہیں۔