ہمارے ملک میں قاتل سزا پایا نہیں کرتے

رشیدالدین

راجیو گاندھی کے قاتلوں کے نام پر سیاست
عشرت جہاں کیس …مودی امیت شاہ کو کلین چٹ
ایسے وقت جبکہ چار ریاستوں اور ایک مرکزی زیرانتظام علاقہ میں اسمبلی انتخابات کا بگل بج چکا ہے، سیاسی جماعتوں نے اقتدار کیلئے نت نئی ترکیبوں اور چالبازیوں کا آغاز کردیا ہے۔ یوں بھی سیاسی جماعتوں کے نزدیک اقتدار ہی سب کچھ ہے اور وہ اس کیلئے اصولوں کو بھی قربان کرسکتے ہیں۔ مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی کسی ایک ریاست میں اقتدار کا خواب دیکھ رہی ہے۔ مذکورہ چار ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقہ پانڈیچیری میں غیر بی جے پی جماعتیں اقتدار میں ہیں ۔ مغربی بنگال ، ٹاملناڈو ، کیرالا ، آسام اور پانڈیچیری کیلئے الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کر دیا ہے۔ کیرالا اور آسام میں کانگریس کا اقتدار ہے جبکہ مغربی بنگال اور ٹاملناڈو میں ترنمول کانگریس اور انا ڈی ایم کے کی حکومت ہے۔ یہ جماعتیں اپنے اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں تو دوسری طرف بی جے پی ان ریاستوں میں اپنی بنیادیں مستحکم کرنے کے فراق میں ہے۔ بی جے پی کو اس جدوجہد میں اس لئے بھی کوئی خطرہ نہیں کیونکہ کسی بھی ریاست میں اس کا اقتدار نہیں ہے ۔ ٹاملناڈو کی جیہ للیتا حکومت نے ٹامل عوام کے جذبات کو تائید میں تبدیل کرنے کیلئے راجیو گاندھی کے قاتلوں کی رہائی کا فیصلہ کیا۔ جیہ للیتا نے انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ سیاسی حربہ کے طور پر لیا ہے۔ سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے قتل کے سلسلہ میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے، 7 افراد کی رہائی کیلئے مرکز سے اجازت طلب کی گئی ہے۔ ریاستی حکومت کا یہ استدلال ہے کہ تمام قید 20 سال سے زائد قید کی سزا بھگت چکے ہیں۔ راجیو گاندھی کے قاتلوں کی رہائی اب مرکز کے ہاتھ میں ہے ۔ رہائی کیلئے ٹامل جماعتیں بھی علحدہ مہم چلا رہی ہیں۔ جیہ للیتا نے رہائی کا سیاسی کارڈ 2014 ء کے لوک سبھا انتخابات سے قبل بھی کھیلا تھا اور مرکز سے رائے طلب کی تھی۔ اس وقت کی مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کو ترجیح دی جس پر عدالت نے کہا تھا کہ رہائی کیلئے مرکزی حکومت کی منظوری لازمی ہے ۔ ظاہر ہے کہ کانگریس زیر قیادت یو پی اے حکومت کی منظوری کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی ۔

مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے بعد جیہ للیتا نے پھر ایک بار اس مسئلہ کو چھیڑ دیا ہے ۔ مرکز کیلئے راجیو گاندھی کے قاتلوں کی رہائی کے حق میں فیصلہ کرنا آسان نہیں۔ جیہ للیتا کو قیدیوں سے ہمدردی نہیں بلکہ ان کی نظر ٹامل ووٹ پر ہے۔ بی جے پی اور انا ڈی ایم کے باہم حلیف ہیں ، لہذا بی جے پی اس مسئلہ کے ذریعہ کانگریس کو کمزور کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ حالیہ عرصہ میں راہول گاندھی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف جارحانہ انداز میں دکھائی دے رہے ہیں ۔ پارلیمنٹ اور اس کے باہر حکومت پر راہول گاندھی کے پے در پے حملوں نے بی جے پی کو پریشان کر رکھا ہے ۔ عدالت کا سہارا لیکر راجیو گاندھی کے قاتلوں کی رہائی مرکز اور جیہ للیتا دونوں کیلئے مصیبت بن سکتی ہے۔ اس طرح کا کوئی فیصلہ آسام اور کیرالا میں کانگریس کیلئے ہمدردی کی لہر پیدا کرسکتا ہے۔ جس پارٹی کے قائدین اور ان کے نظریہ ساز سنگھ پریوار بابائے قوم گاندھی جی کے قاتل کو دیش بھکت اور قوم کا ہیرو قرار دیں، ان کے لئے راجیو گاندھی کے قاتلوں کو رہا کرنا کوئی مشکل نہیں۔ حب الوطنی اور ملک سے غداری کا سرٹیفکٹ جاری کرنے والوں کی تاریخ خود ملک سے غداری کی ہے

لیکن آج وہی لوگ حب الوطنی کا پیمانہ لئے بیٹھے ہیں۔ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ اختلاف رائے بھی غداری کے زمرہ میں آچکا ہے ۔ حب الوطنی جنہیں چھوکر بھی نہیں گزری ، آج وہ دوسروں کو دیش بھکتی کا درس دے رہے ہیں۔ شائد اسی صورتحال پر بی جے پی کے سینئر اور جہاندیدہ قائد ایل کے اڈوانی نے کہا تھا کہ ملک ایمرجنسی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جیہ للیتا حکومت راجیو گاندھی کے قاتلوں کی رہائی کیلئے ناتھورام گوڈسے کے بھائی کی رہائی کی مثال پیش کر رہی ہے۔ سیاسی مقصد براری کی اس سے بڑھ کر بدترین مثال اور کیا ہوسکتی ہے ۔ قید میں 20 سال کی تکمیل پر رہا کرنا ہی ہو تو ملک کی جیلوں میں کئی ایسے قیدی ہیں جنہوں نے 20 تا 25 سال مکمل کرلئے لیکن کسی حکومت نے پروانہ رہائی جاری نہیں کیا۔ جب تک کوئی سیاسی تائید اور سرپرستی حاصل نہ ہو ملک میں سزا کی تکمیل کے بعد رہائی ممکن نہیں۔ اس کی تازہ مثال سنجے دت ہیں جنہیں سزا کی تکمیل سے قبل ہی رہا کردیا گیا۔ گجرات ، مہاراشٹرا ، مدھیہ پردیش ، راجستھان ، آسام اور دوسری ریاستوں میں مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہے۔ گجرات کے بعض واقعات کے نام پر گرفتار کئے گئے مسلم نوجوانوں کو فرضی مقدمات میں ماخوذ کردیا گیا۔ مقدمہ کے بغیر کئی نوجوان برسوں سے دردناک اذیتوں کے ساتھ جیلوں میں بند ہیں۔ ان کے بارے میں پوچھنے اور آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔ حکومت بھلے ہی کسی پارٹی کی ہو لیکن تحقیقاتی ایجنسیوں میں موجود متعصب ذہنیت نے اپنا کام کیا ہے۔ راجیو گاندھی کے قاتلوں سے ہمدردی لیکن گجرات کے متاثرین سے کوئی ہمدردی نہیں۔ مظفر نگر فساد کے ذمہ داروں کو حکومت میں شامل کر کے مسلمانوں پر مظالم کا انعام دیا گیا۔ بیف کے نام پر ہلاک کئے جانے والے اخلاق حسین کے غریب خاندان سے کسی کو ہمدردی نہیں۔ کیا وہ ہمدردی کے مستحق نہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کا ایک ہی جواب ہوگا کہ وہ مسلمان ہیں اور ان کا وجود ہی مظالم سہنے کیلئے ہے۔ کوئی مسلمان گرفتار ہو تو دہشت گردی کا لیبل لگادیا جاتاہے لیکن سابق وزیراعظم کو ہلاک کرنے والے دہشت گرد نہیں بلکہ رہائی کے مستحق تصور کئے جارہے ہیں۔ اس طرح کی ذہنیت ملک کیلئے نقصاندہ ہے۔

ملک میں زعفرانی ذہنیت کی زہر افشانی کا سلسلہ تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔ ان میں بھی اشتعال انگیز بیانات کیلئے مسابقت کی دوڑ شروع ہوچکی ہے ۔ اشتعال انگیز بیانات چونکہ شہرت کے حصول کا آسان ذریعہ ہے، لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ وہ سماج کو بانٹنے کا سنگین جرم کر رہے ہیں۔ جب سماج کمزور ہوگا تو یقیناً ملک کی بنیادیں بھی کھوکھلی ہوجائیں گی ۔ مرکزی وزراء ، ارکان پارلیمنٹ اور سنگھ پریوار کے قائدین وقفہ وقفہ سے زہر سماج میں گھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ بیانات تو دیتے ہیں لیکن بعد میں اس سے مکر جاتے ہیں۔ ایسے قائدین حتیٰ کہ مرکزی وزراء جن کے نام سے بھی عوام واقف نہیں تھے، زہر افشانی کے ذریعہ اخبارات اور ٹی وی چیانلس کی سرخیوں میں آگئے ۔ بعض گمنام مرکزی وزراء جو کارکردگی کی بنیاد پر مقبولیت حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، انہوں نے یہ آسان طریقہ اختیار کرلیا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک مرکزی وزیر نے آگرہ میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا،ان کا نام سننے کے بعد لوگوں کو پتہ چلا کہ وہ مرکزی وزیر ہیں۔ اب تو مغربی بنگال بی جے پی کے صدر بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے پاکستان کے حق میں نعرہ لگانے پر سر قلم کرنے کی دھمکی دی ہے۔

یقیناً کوئی بھی شخص ملک سے دشمنی کی تائید ہرگز نہیں کرسکتا لیکن دیش بھکتی کے دعویدار بی جے پی اور سنگھ پریوار کو پہلے وزیراعظم نردیندر مودی سے پوچھنا چاہئے کہ پاکستان سے اس قدر محبت کا آخر کیا راز ہے؟ کیوں نواز شریف سے ملنے اور سالگرہ کی مبارکباد دینے بن بلائے مہمان کی طرح لاہور پہنچ گئے تھے۔ اتنا ہی نہیں اب امریکہ میں نواز شریف سے ملاقات کی تیاری میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان سے محبت کرے کوئی اور دیش دروہی کا الزام کسی اور کے سر پر کیوں ؟ ان دنوں مرکزی حکومت اور اس کے تحقیقاتی ادارے عشرت جہاں انکاؤنٹر کیس میں نریندر مودی اور امیت شاہ کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہوچکے ہیں۔ ممبئی بم دھماکوں کے گواہ معافی یافتہ ڈیوڈ ہیڈلی کے اقبالی بیان کے بعد سے ان کوششوں میں تیزی پیدا ہوگئی ۔ بعض سابق عہدیداروں کے ذریعہ یہ الزام عائد کیا گیا کہ سابق مرکزی حکومت نے عشرت جہاں کے لشکر طیبہ سے تعلق کو چھپانے کی کوشش کی ۔ دوسری طرف تحقیقات میں شامل ایک سی بی آئی عہدیدار نے واضح کیا کہ عشرت جہاں کا لشکر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس مسئلہ پر بی جے پی کو عدالت سے زیادہ ڈیوڈ ہیڈلی کے بیان پر بھروسہ ہے۔ اگر حکومت میں ہمت ہو تو وہ ڈیوڈ ہیڈلی کو ہندوستان طلب کرتے ہوئے اس کا بیان دیگر مجرموں کی طرح ریکارڈ کرے۔ اگر یہی روایت قائم رہی تو پھر ملک کو درکار تمام ملزمین خود کو گواہ معافی یافتہ بناکر دیگر ممالک سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ بیانات ریکارڈ کریں گے۔ ڈیوڈ ہیڈلی کے بیان تک کسی نے عشرت جہاں کے لشکر سے تعلق کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا ۔ ملک کی سیکوریٹی ایجنسیاں اور  RAW جیسا ادارہ کیا اس قدر کمزور ہے کہ وہ اتنے برس تک عشرت  جہاں کے لشکر سے تعلق کا پتہ نہیں چلا سکا۔ ہندوستان میں تحقیقاتی اداروں سے زیادہ ڈیوڈ ہیڈلی کو اہمیت حاصل ہوچکی ہے ۔ اگر مان لیا جائے کہ عشرت جہاں کا تعلق لشکر طیبہ سے تھا پھر بھی اسے فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کرنے کا اختیار کس نے دیا؟ پولیس کو چاہئے تھا کہ اسے گرفتار کرتے ہوئے قانون کے مطابق الزام ثابت کرتی اور پھر سزا کا تعین ہوتا۔ ہائی کورٹ نے خود بھی اس انکاؤنٹر کو فرضی تسلیم کرلیا ہے۔ دراصل گجرات کے فسادات کی طرح عشرت جہاں انکاؤنٹر کے خون کے دھبوں کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے عشرت جہاں کے بارے میں جو بیان دیا ، اس پر تو کافی ہنگامہ ہے لیکن افضل گرو کے بارے میں چدمبرم کے بیان پر سناٹا طاری ہے۔ انہوں نے افضل گرو کی سزا اور پارلیمنٹ پر حملہ میں ملوث ہونے پر شبہات کا اظہار کیا تھا۔ جے این یو میں افضل گرو کے حق میں تقریب منعقد کرنے والوں پر غداری کا مقدمہ لیکن چدمبرم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں جبکہ دونوں نے افضل گرو کے حق میں یکساں رائے ظاہر کی ہے۔ غداری کے مقدمات میں دوہرے معیارات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے ان نام نہاد وفاداروں کو اپنے سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے کی فکر ہے۔ صرف پاکستان کی تائید ملک سے غداری نہیں بلکہ دستور اور قانون پر حلف لیکر اس کی خلاف ورزی کرنا بھی اصولاً ملک سے غداری کے مترادف ہے۔ شہود آفاقی نے اپنے کرب کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے   ؎
تمہیں روکا ہے کس نے جس کو چاہو قتل کر ڈالو
ہمارے ملک میں قاتل سزا پایا نہیں کرتے