ہمارے جسم کے داغوں پہ تبصرہ کرنے

رشیدالدین
نریندر مودی دنیا بھر میں گھوم کر اپنی حکومت کے کارناموں کی لاکھ تشہیر کرلیں لیکن مذہبی آزادی اور مذہبی رواداری کے تحفظ میں ناکامی کا الزام ان کا مسلسل تعاقب کر رہا ہے۔ نریندر مودی ہندوستان میں مذہبی آزادی کے دستوری حق کے تحفظ اور مذہبی منافرت پھیلانے والوں پر شکنجہ کسنے کے بھلے ہی دعوے کرلیں لیکن امریکی کانگریس کی رپورٹ نے ان تمام دعوؤں کو کھوکھلا ثابت کردیا ہے اور نریندر مودی سرکار کو کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جس ملک کے صدر نے حال ہی میں مودی کو مصلح اعظم قرار دیا اور ان کی تعریفوں کے پل باندھے، اسی ملک کے ادارے نے اقلیتوں پر حملوں اور فرقہ وارانہ منافرت کے سلسلہ میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے مودی حکومت کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کردیا۔ مختلف شعبوں میں ہندوستان بھلے ہی ترقی کرلے لیکن دستور میں دیئے گئے حقوق کو تلف کرنا ساری ترقی پر پانی پھیرنے کیلئے کافی ہے۔ عالمی مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں مودی کی سرکار کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے مذہبی اقلیتوں پر حملوں، جبری تبدیلی مذہب ، فسادات اور مذہبی منافرت میں اضافے کی نشاندہی کی ہے۔ سالانہ رپورٹ میں امریکی ادارے نے منافرت کی مہم کے ذمہ دار تنظیموں جیسے آر ایس ایس ، وشوا ہندو پریشد کے خلاف کارروائی میں حکومت کی ناکامی کی نشاندہی کی۔ رپورٹ میں گجرات فسادات اور مودی کے سازش میں شامل ہونے کے الزامات کو دہرایا ۔ امریکہ نے گجرات فسادات کے بعد نریندر مودی کو ویزے کی اجرائی سے انکار کردیا تھا۔

بحیثیت چیف منسٹر گجرات انہیں ویزا جاری نہیں کیا گیا لیکن وزیراعظم بنتے ہی امریکہ کا رویہ یکایک تبدیل ہوگیا۔ اسی امریکہ نے نریندر مودی کے دورہ کے موقع پر خوب آؤ بھگت کی۔ حال ہی میں اوباما نے ٹائم میگزین میں مودی کا پروفائل تحریر کرتے ہوئے انہیں مصلح اعظم قرار دیا تھا جس پر مودی نے فوری شکریہ ادا کیا لیکن اب امریکی کانگریس کی رپورٹ کو قبول کرنے سے ہندوستان انکار کر رہا ہے۔ جس طرح تعریفوں کو قبول کیا گیا اسی طرح تنقید کو بھی قبول کرنا چاہئے ۔ کیا مودی حکومت رپورٹ میں پیش کئے گئے حقائق سے انکار کرسکتی ہے؟ دراصل امریکی کانگریس کے پیانل کی یہ رپورٹ عیسائیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے تیار کی گئی۔ اس میں مسلم اقلیت کا تذکرہ صرف وزن پیدا کرنے کیلئے ہے۔ دورہ ہند کے موقع پر اوباما نے مودی کو مذہبی آزادی کا جو درس دیا تھا وہ عیسائی عبادت گاہوں پر حملوں کے پس منظر میں تھا۔ سنگھ پریوار کا گھر واپسی پروگرام دراصل مشنریز کی سرگرمیوں کے خلاف ہے اور اس پروگرام کا اصل نشانہ عیسائی مشنریز ہیں ، لہذا امریکی ادارے کی رپورٹ مسلمانوں سے زیادہ عیسائی مفادات کے تحفظ کیلئے ہے۔ اوباما پر دباؤ بنایا جارہا ہے کہ وہ مشنریز کے تحفظ کیلئے آگے آئیں۔ رپورٹ میں گجرات اور مظفر نگر فسادات کے تذکرہ سے کچھ نہیں ہوگا۔ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے ساتھ امریکہ کے سلوک سے کون واقف نہیں؟ اب اچانک ہندوستانی مسلمانوں سے ہمدردی کیوں ؟ دراصل مسلم اقلیت کی آڑ میں امریکہ کے پیش نظر عیسائی اقلیت اور مشنریز ہیں جن کی سرگرمیاں اور بیرونی فنڈنگ پر روک لگانے کیلئے مودی سرکار قدم اٹھا رہی ہے۔ جس طرح کسی بھی واقعہ پر نریندر مودی فوری ٹوئیٹ کرنے کیلئے مشہور ہیں، انہیں امریکی ادارے کی رپورٹ پر بھی ٹوئیٹ کرنا چاہئے تاکہ ان کے من کی بات عوام تک پہنچ سکے۔

آفات سماوی ممالک کے درمیان سرحدوں کی پابندیوں کو ختم کردیتی ہے اور مصیبت کی گھڑی میں مختلف ممالک کا راحت کاموں میں مشغول ہوجانا جذبہ انسانیت کو اجاگر کرتا ہے۔ نیپال میں تباہ کن زلزلہ اور ہندوستان کے بعض علاقوں میں اس کے اثرات نے پاکستان اور ہندوستان کو قریب آنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے نریندر مودی کو فون کرتے ہوئے ہندوستان میں ہوئی تباہی پر دکھ کا اظہار کیا ۔ ساتھ ہی نیپال میں بروقت راحت اور بچاؤ کاموں کیلئے ہندوستان کی ستائش کی۔ نریندر مودی نے گفتگو کے دوران سارک کے کسی رکن ملک میں آفات کی صورت میں تمام رکن ممالک کی جانب سے مشترکہ امدادی اقدامات کی صلاح دی ہے ۔ یقیناً دونوں وزرائے اعظم کے درمیان بات چیت اچھی علامت ہے اور دونوں نے تعلقات بہتر بنانے کی سمت پہل کی ہے۔ گفتگو کی پہل بھلے ہی کسی جانب سے ہو، لیکن یہ سلسلہ آگے بڑھنا چاہئے کیونکہ مذاکرات ہی باہمی تنازعات کے خاتمہ کا واحد اور بہترین راستہ ہیں کیونکہ دوست تو بدلے جاسکتے ہیں لیکن پڑوسی تبدیل نہیں کئے جاسکتے۔ نواز شریف کی یہ پہل دراصل سارک جذبہ کی علامت ہے۔ اگر ان دونوں ممالک میں کشیدگی ہو تو سارک کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کا باہمی ربط فطری ہے لیکن اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یاہو کا نریندر مودی سے ربط پیدا کرنا کچھ اور ہی اشارے دے رہا ہے۔ نیپال میں امدادی کاموں کے سلسلہ میں نتن یاہو نے نریندر مودی کی ستائش کی۔ اسے محض اتفاق کہا جائے یا پھر منصوبہ بند اقدام کہ ہندوستان میں متعین اسرائیلی سفیر کی بی جے پی صدر امیت شاہ سے ملاقات کے دوسرے ہی دن نتن یاہو نے نریندر مودی سے بات کی۔ نیپال کے امدادی کاموں میں ہندوستان کے علاوہ جو دیگر ممالک سرگرم ہیں، ان میں اسرائیل نمایاں ہے۔ امدادی کاموں میں اسرائیل کی خصوصی دلچسپی اور ہندوستان سے قربت کہیں علاقہ میں اپنے مفادات کو وسعت دینے کی حکمت عملی کا حصہ تو نہیں؟ بسا اوقات انسانیت کے جذبہ کے نام پر آنے والے افراد کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کیونکہ خود ان کا دامن انسانیت سوز واقعات ، جبر اور ظلم سے داغدار ہوتا ہے ۔ جن کے کارناموں کو دیکھ کر حیوانیت بھی شرما جائے ، وہ انسانیت کی دہائی دینے لگیں تو یقینی طور پر حیرت ہوگی۔ الغرض نتن یاہو کا نریندر مودی کو فون کرنا دونوں ممالک میں بڑھتی قربت کا مظہر ہے۔ مودی سے نتن یاہو کی گفتگو ہو یا پھر امیت شاہ سے اسرائیلی سفیر کی ملاقات، دونوں میں جو بات قدرے مشترک ہے، وہ یہ کہ مودی اور امیت شاہ گجرات کے پراڈکٹ ہیں جبکہ نتن یاہو فلسطینیوں پر مظالم کا عالمی ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اگرچہ پی وی نرسمہا راؤ کے دور میں ہندوستان اور اسرائیل کے رشتوں نے سفارتی شکل اختیار کی اور ہندوستان میں اسرائیلی سفارت خانہ کے قیام کی اجازت دی گئی۔ ہندوستان میں قدم رکھتے ہی اسرائیل نے رشتوں کے استحکام اور مفادات کی تکمیل میں کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ مرکز میں حکومت بھلے کسی پارٹی کی رہے ، اسرائیل کے مفادات کی تکمیل کا سفر جاری رہا۔ بھلے کبھی رفتار سست کیوں نہ ہو۔ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد اسرائیل کیلئے ہندوستان اوپن مارکٹ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ مختلف شعبوں خاص طورپر داخلی سلامتی کے شعبہ میں اشتراک کے نام پر ہندوستان میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کی ٹریننگ حاصل کی جارہی ہے۔ حالیہ عرصہ میں دہشت گردی کے نام پر ملک میں پولیس نے جو کارروائیاں انجام دیں ، وہ اسرائیل کی ٹریننگ کا حصہ ہیں۔ اسرائیل سے بڑھتی قربت نے ہندوستان کو فلسطین کی تائید سے متعلق روایتی پالیسی سے منحرف کردیا۔ آج فلسطین کیلئے ہندوستان کی تائید محض زبانی اور ضابطہ کی تکمیل بن چکی ہے۔ حالیہ عرصہ میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔

بی جے پی صدر امیت شاہ سے اسرائیلی سفیر کی ملاقات میں مودی کی ’’میک ان انڈیا‘‘ پالیسی کی تائید کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ کسی ملک کے سفیر کی کسی پارٹی کے صدر سے ملاقات کیا معنی رکھتی ہے؟ وزیراعظم ، وزیر خارجہ یا پھر کسی اور وزیر سے ملاقات پھر بھی قابل فہم ہے لیکن امیت شاہ سے ملاقات آخر کس پروٹوکول اور روایت کا حصہ ہے ۔ جس طرح ملک میں ہندوتوا ایجنڈہ کے نفاذ کی تیاریاں کی جارہی ہیں اور لسانی و مذہبی اقلیت کو جس طرح مختلف عنوانات کے تحت تنگ کیا جارہا ہے، ایسے میں اسرائیلی سفیر کی یہ ملاقات یقیناً کسی خفیہ ایجنڈہ کا حصہ رہی ہوگی۔ اسی دوران کانگریس کے یوراج راہول گاندھی کی 56 دن کی چھٹیوں کے بعد واپسی نے کانگریس میں نئی جان ڈالنے کا کام کیا ہے۔ آرام اور محاسبہ کے بعد واپسی کے ساتھ ہی راہول جس جارحانہ انداز میں بی جے پی اور نریندر مودی حکومت پر ٹوٹ پڑے ، اس کی توقع بی جے پی کو نہیں تھی۔ کسانوں کی خودکشی کے مسئلہ پر راہول کی پد یاترا نے حکومت کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔ سوٹ بوٹ کی سرکار کے مکھیا نریندر مودی نے دہلی کی میٹرو ریل میں سفر کیا تو راہول گاندھی نے ریلوے کے سکنڈ کلاس میں سفر کرتے ہوئے عام آدمی کا دل جیتنے کی کوشش کی۔ گزشتہ دس ماہ سے بی جے پی مطمئن تھی کہ کانگریس اس کیلئے خطرہ نہیں بن سکتی لیکن راہول نے اپنے والد اور دادی کی وراثت کی ایک جھلک پیش کردی۔ جس طرح اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی شکست کے بعد اقتدار میں واپس ہوئے تھے ، راہول گاندھی بھی کانگریس کے احیاء کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ نریندر مودی نے حکومت کی تشکیل کے بعد ملک سے زیادہ بیرون ملک وقت گزارا۔ 10 ماہ میں انہوں نے دس سے زائد ممالک کا احاطہ کیا لیکن اندرون ملک عوام کا حال جاننے 10 ریاستوں کے دورہ کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اسی لئے گزشتہ دنوں مودی جب بیرونی دورہ سے واپس ہوئے تو سیاسی پنڈتوں نے کچھ اس طرح طنز کیا کہ ’’نریندر مودی 10 ماہ میں چھٹویں مرتبہ مختصر دورہ پر ہندوستان آئے ہیں‘‘۔ راہول نے صحیح کہا کہ وزیراعظم کچھ دن کیلئے ہندوستان کے دورہ پر ہیں، انہیں کم از کم کسانوں کی تکالیف کا جائزہ لینے ریاستوں کا دورہ کرنا چاہئے۔ امریکی ادارہ کی ہندوستان کے بارے میں رپورٹ پر راحت اندوری کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
ہمارے جسم کے داغوں پہ تبصرہ کرنے
قمیص لوگ ہماری پہن کے آتے ہیں
rasheeduddin@hotmail.com