گجرات چناؤ …مودی کا وقار داؤ پر
کووند کا ٹیپو کو خراج … یوگی کی زبان پر ’’واہ تاج‘‘
رشیدالدین
گجرات اسمبلی انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن نے آخر کار شیڈول جاری کردیا ہے ۔ گجرات چناؤ بی جے پی کے لئے اس اعتبار سے وقار کا معاملہ ہے کیونکہ یہ وزیراعظم اور بی جے پی قومی صدر کی جنم بھومی اور آبائی ریاست ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ہماچل پردیش کی انتخابی تاریخوں کے ساتھ گجرات کا شیڈول جاری نہ کرنے پر کانگریس اور دیگر جماعتوں نے اعتراض کیا تھا ۔ ان کا الزام تھا کہ مرکز کے دباؤ کے تحت تاریخوں کا اعلان ایک ساتھ نہیں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن ایک دستوری ادارہ ہے، لہذا اس کی کارکردگی پر سوال اٹھانا مناسب نہیں۔ اسمبلی کی میعاد کی تکمیل کے لحاظ سے الیکشن کی تاریخیں طئے کی جاتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں ہر مسئلہ میں سیاسی فائدہ تلاش کرتی ہیں، لہذا ہماچل اور گجرات کی تاریخوں کو تنازعہ کا موضوع بنادیا گیا۔ دونوں ریاستوں کیلئے علحدہ شیڈول کی اجرائی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کے حق میں بہتر ہے۔ وہ دونوں ریاستوں کی مہم پر توجہ مرکوز کرسکتے ہیں۔ اگر تاریخیں ایک ساتھ ہوتیں تو نہ صرف زحمت بلکہ توجہ منقسم ہوجاتی۔ دونوں ریاستوں کے نتائج کی تاریخ ایک ہی ہے، لہذا ایک دوسری ریاست کے نتائج پر اثرانداز ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن پر بی جے پی کے زیر اثر کام کرنے کا الزام عائد کردینا تو آسان ہے لیکن کیا یو پی اے کے 10 سالہ دورِ حکومت میں کمیشن پر دباؤ ڈالا گیا اور کتنی بار کمیشن نے دباؤ قبول کیا ، اس کی وضاحت ہونی چاہئے۔ کیا کانگریس پارٹی قبول کر رہی ہے کہ اس کی حکومت میں کمیشن نے اس کی مرضی کے مطابق فیصلے صادر کئے تھے۔ یہ وہی الیکشن کمیشن ہے جس نے گجرات سے راجیہ سبھا کے چناؤ میں احمد پٹیل کو کامیابی دلائی ۔ اگر کمیشن کو جانبداری دکھانی ہوتی تو اس سے بڑھ کر کوئی اور موقع نہیں تھا۔ امیت شاہ خود امیدوار تھے اور کانگریس کے دو باغی ارکان کے ووٹ درست قرار دینے کیلئے ارون جیٹلی ، روی شنکر پرساد جیسے سینئر مرکزی وزراء نے کئی مرتبہ الیکشن کمیشن سے نمائندگی کی ۔ مرکزی کابینہ کے اہم ارکان کے دلائل کے باوجود کمیشن نے احمد پٹیل کو کامیاب قرار دیا۔ کمیشن کی غیر جانبداری اور آزادانہ کارکردگی کی خود کانگریس نے ستائش کی تھی لیکن گجرات میں الیکشن کی تاریخوں کے اعلان میں تاخیر کو لیکر موقف تبدیل کردیا گیا۔
ایسا کیا ہوگیا کہ کانگریس کو کمیشن جانبدار دکھائی دے رہا ہے۔ گجرات میں انتخابی بگل بجنے سے قبل ہی بی جے پی اور کانگریس نے مہم کا آغاز کردیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور کانگریس کے یوراج راہول گاندھی نے ایک سے زائد مرتبہ دورہ کرتے ہوئے انتخابی ماحول کو گرما دیا۔ نریندر مودی کے گجرات چھوڑنے کے بعد ریاست میں یہ پہلا الیکشن ہے اور مودی کسی بھی صورت میں پارٹی کو دوبارہ برسر اقتدار لانا چاہتے ہیں۔ مودی اور ان کے وزیر باتدبیر امیت شاہ کیلئے اس چناؤ کو ایسڈ ٹسٹ کہا جاسکتا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مودی کے بغیر اس مرتبہ گجرات میں بی جے پی کیلئے جیت کی راہ آسان نہیں ہے لیکن مضبوط پارٹی کیڈر اور سرکاری مشنری کے ذریعہ کچھ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ گجرات میں بی جے پی کو دلتوں اور پٹیل برادری کی مخالفت کا سامنا ہے لیکن یہ ناراضگی کانگریس کے حق میں کس حد تک ووٹ کی شکل اختیار کرے گی، کہنا مشکل ہے۔ مختلف طبقات کی مخالفت کو دیکھتے ہوئے نریندر مودی نے گجرات پر ساری طاقت جھونک دی ہے۔ وزیراعظم جاپان کی موجودگی میں بلٹ ٹرین کے کام کا آغاز کیا گیا ۔ اس کے علاوہ کئی پراجکٹس کا افتتاح عمل میں آیا۔ ترقی کے ایجنڈہ کے ساتھ مودی عوام کا دل جیتنا چاہتے ہیں۔ عام طور پر یہ روایت رہی ہے کہ کسی ریاست کے چناؤ میں وزیراعظم انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیتے لیکن یہاں تو مودی گجرات کے چیف منسٹر اور پارٹی کے اسٹار کیمپینر کی طرح مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔
انتخابی تاریخوں کے اعلان سے قبل مودی نے پہلے مرحلہ کی انتخابی مہم مکمل کرلی ہے ۔ گجرات کے اوپنین پول میں اگرچہ کانگریس کے موقف میں بہتری دکھائی گئی۔ تاہم کامیابی کی پیش قیاسی بی جے پی کے حق میں ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق کانگریس کی کامیابی کا دعویٰ محض خوابوں کی جنت کی طرح ہے کیونکہ گزشتہ 15 برسوں میں کانگریس تنظیمی طور پر کافی کمزور ہوئی ہے۔ تنظیمی استحکام کے بغیر اقتدار کی امید نہیں کی جاسکتی۔ راہول گاندھی نے مودی کے جواب میں اچھی بولیاں ادا کرنا سیکھ لیا ہے جس سے وقتی طور پر عوام کو محظوظ کیا جاسکتا ہے لیکن انہیں ووٹ میں تبدیل کرنا آسان نہیں ۔ کانگریس کے لئے راہول گاندھی کے علاوہ کوئی دوسرا چہرہ نہیں ہے ۔ اس کے پاس چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے کوئی مقبول عام چہرہ تک نہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ کانگریس اقتدار میں واپسی نہ سہی لیکن موقف میں بہتری کرسکتی ہے۔ کانگریس کے سابق قائد شنکر سنگھ واگھیلا نے تمام حلقوں سے امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے سیکولر ووٹ تقسیم ہوں گے اور فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ یہ ارکان اسمبلی کے ذریعہ راجیہ سبھا کیلئے منتخب ہونا نہیں ہے بلکہ عوام کے ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔
ہماچل پردیش میں کانگریس کا موقف مستحکم ہے اور بی جے پی کیلئے وہاں فی الوقت گھر واپسی کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ اس طرح دونوں پارٹیاں اپنی اپنی ریاستوں میں مستحکم دکھائی دے رہی ہیں۔ گجرات اور ہماچل کے الیکشن کو مرکز کی کارکردگی پر ریفرنڈم نہیں کہا جاسکتا۔ گجرات چونکہ تاجر برادری کا مرکز ہے ، لہذا نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے مسائل کو کانگریس ہوا دے رہی ہے ۔ یہ دونوں موضوعات چناؤ پر کس حد تک اثر انداز ہوں گے ، ایک اہم سوال ہے ۔ مرکز نے گجرات چناؤ کو پیش نظر رکھتے ہوئے جی ایس ٹی کی شرحوں میں کمی کا اعلان کیا۔
تاریخی مقامات اور ملک کے تہذیب کی علامات سے متعلق بی جے پی قائدین کی منفی مہم کے نقصانات کا اثر زائل کرنے کیلئے یوگی ادتیہ ناتھ کو میدان میں اتارا گیا۔ چیف منسٹر اترپردیش نے اس تاریخی شاہکار کا دورہ کیا جس سے وہ کل تک ہندوستان کی تہذیب کی علامت ماننے سے انکار کرتے رہے۔ تاج محل جو کل تک ادتیہ ناتھ کو پسند نہیں تھا ، اس پر نظر پڑتے ہی ان کی دل کی حالت بدل گئی اور زبان سے بے ساختہ نکل پڑا ’’واہ تاج‘‘ ۔ ادتیہ ناتھ نے تاج محل کی تعریف کے پل باندھ دیئے اور اسے فخر ہندوستان اور انمول رتن جیسے القابات سے نوازا۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ بیرونی زر مبادلہ کا اہم ذریعہ بھی تاج محل ہے اور ہندوستان میں سب سے زیادہ بیرونی سیاح تاج محل کے مشاہدہ کیلئے آتے ہیں ۔ ادتیہ ناتھ کو جب تاج محل کی عظمت کا اعتراف ہے تو پھر انہوں نے حکومت کی سیاحتی مقامات کی فہرست سے اس عمارت کو علحدہ کیوں کیا ؟ شاید لکھنو میں دور سے دیکھ کر وہ تاج محل کی عظمت کو سمجھ نہیں پائے لیکن آگرہ پہنچتے ہی محبت کی نشانی پر نظر کیا پڑی ، آنکھیں خیرہ ہوگئیں اور زبان سے تعریفیں نکلنے لگیں۔ بی جے پی رکن سنگیت سوم نے تاج محل کو ہندوستانی تہذیب پر دھبہ اور غداروں کی نشانی قرار دیا تھا جبکہ ونئے کٹیار نے شیو مندر ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس منفی مہم کا دنیا بھر میں اثر دکھائی دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ادتیہ ناتھ کے ذریعہ تنازعہ کی شدت کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ جہاں تک بیرونی زر مبادلہ کے حصول کا سوال ہے، مغل حکمرانوں کے دور میں ملک کی معیشت مستحکم تھی اور ان کے گزرنے کے بعد ان کی نشانیاں ملک کو زر مبادلہ دلا رہی ہے۔
ملک کے چپہ چپہ میں مسلمانوں کی عظمت کے نشان ہیں اور یہی نشانات حکومت کے خزانے کو بھر رہے ہیں۔ اگر ہندوستان کے سیاحتی نقشہ سے ان یادگاروں کو علحدہ کردیا جائے تو شاید ہی کوئی بیرونی سیاح ملک کا رخ کرے گا۔ ادتیہ ناتھ نے کہا کہ ہندوستانیوں کے خون پسینے سے تاج محل تعمیر کیا گیا۔ ان کی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن عوام کو خوشی اس بات کی ہے کہ کم از کم یوگی کی زبان سے لفظ ’’ہندوستانی‘‘ نکلا ورنہ سوائے ہندو اور مسلم کی اصطلاح میں زہر اگلنے کے سوا کوئی کام نہیں تھا ۔ اسے یوگی میں نمایاں تبدیلی کہیں یا پھر ان کی مجبوری اس کا فیصلہ ہم عوام پر چھوڑتے ہیں۔ دوسری طرف صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے شیر میسور ٹیپو سلطان کو خراج پیش کرتے ہوئے تاریخی حقائق سے قوم کو آگاہ کیا ہے ۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کرناٹک حکومت کی جانب سے ٹیپو سلطان تقاریب کے انعقاد کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ایسے میں رام ناتھ کووند نے انگریزوں سے لڑائی میں ٹیپو کی عظیم موت کا ذکر کرتے ہوئے نفرت پھیلانے والی طاقتوں کو جواب دیا ہے۔ صدر جمہوریہ کی تقریر پر بی جے پی چراغ پا ہے ، اس کا کہنا ہے کہ سدا رامیا حکومت نے صدر جمہوریہ کو ٹیپو سلطان کی تاریف پر مجبور کیا ۔ بی جے پی قائدین کا یہ الزام اس لئے بھی مضحکہ خیز ہے کہ صدر جمہوریہ کی تقریر کو ریاستی حکومت تیار نہیں کرتی بلکہ صدر جمہوریہ کے مشیرتیار کرتے ہیں اور یہ صدر کی منظوری سے ہوتا ہے۔ لہذا رام ناتھ کووند کی صلاحیتوں کو کمتر ظاہر کرتے ہوئے ریاستی حکومت کے دباؤ کے تحت تقریر کا الزام قابل مذمت ہے۔ کووند نے انگریزوں سے لڑائی کے علاوہ ٹیپو کی جانب سے پہلی مرتبہ راکٹ ٹکنالوجی کے استعمال کا ذکر کیا۔ جہاں تک راکٹ ٹکنالوجی کا سوال ہے ، ٹیپو سلطان نے اس کی شروعات کی اور ملک کے میزائیل میان اے پی جے عبدالکلام نے اس ٹکنالوجی کو بام عروج تک پہنچایا۔ اس طرح ملک میں میزائیل ٹکنالوجی کیلئے ٹیپو سلطان اور عبدالکلام ایک ناقابل تردید تسلسل ہیں۔ مسلم حکمرانوں کے کارناموں اور ان کی یادگاروں کی اہمیت گھٹانے والوں کیلئے راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پر طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں