ہر بات پر مُکّے لہرانے والا لیڈر …

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
صدر کانگریس راہول گاندھی نے گذشتہ ہفتہ پرانے شہر کا دورہ کرتے ہوئے چارمینار کے دامن میں محتاط طریقہ سے تقریر کی اور ان کانگریسیوں کو مایوس کیا جو مجلس اتحاد المسلمین کے گڑھ میں اپنا سیاسی جلوہ دکھانے کی آرزو رکھتے ہیں ۔ مجلس والوں نے شاید راہول گاندھی کو اشاروں اشاروں میں یہ کہہ دیا ہو کہ ووٹ کاٹنے کا اگر شوق ہو تو ادھر نہ آئیں کوچہ عشق میں کچھ بھی نہیں حیرت کے سوا کیوں کہ یہ حلقہ صرف ہمارا ہے ۔ کانگریس کے قائدین کو داخلی طور پر یہ احساس ضرور ہے کہ مجلس کے تعلق سے اپنا موقف نرم ہی رکھیں تو بہتر ہے کیا معلوم کل معلق اسمبلی ہو اور کانگریس کو مجلس کی تائید حاصل کرنی پڑے ۔ کانگریس کے اقلیتی قائدین خاص کر پرانے شہر سے تعلق رکھنے والوں کو مجلس کے سیاسی موقف بدلنے کی عادت کا اندازہ ہے اگر کل تلنگانہ اسمبلی میں کانگریس کا پلڑا متوازن ہوا تو مجلس اس طرف جھکے گی لہذا صدر کانگریس راہول گاندھی نے پرانے شہر کا دورہ ضرور کیا مگر کوئی خواب نہیں دکھائے ۔ ماقبل انتخابات اور مابعد انتخابات ہر لیڈر کو ایک لیڈر کی تلاش ہوتی ہے ہر اس لیڈر میں خاص کر اقلیتوں کے ووٹ کاٹنے والے لیڈر کے چہرے میں کچھ تو خاص بات ہوتی ہے اس لیے یہ لوگ کسی سیاسی طاقت سے دوستی کرتے ہیں یوں ہی دوستی نہیں کرتے بلکہ ان کی پسند کچھ اور ہی ہوتی ہے ۔ مجلس کے مزاج سے واقف سیاستدانوں کو اکثر موقعوں پر مخلص ہو کر ملتے ہوئے بھی دیکھا جاچکا ہے ۔ اس لیے انتخابات کے وقت کوئی بھی بڑی سیاسی پارٹی مقامی جماعت سے شکوہ نہیں کرتی کیوں کہ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ اس سے کوئی شکوہ بھی کرے تو وہ ہنس دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سیاسی میدان میں کس نے وفا کی تھی جو ہم کریں گے ۔ آپ لوگوں کو یہ مناظر ضرور دیکھنے کو ملیں گے کہ آج حکمراں ٹی آر ایس کا دم بھرا جارہا ہے کل کانگریس کی صدائیں لگیں گی ۔ تلنگانہ کانگریس نے اندر ہی اندر اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی ہے اب راہول گاندھی کے دورہ حیدرآباد کے بعد مجلس کے حلقوں سے کانگریسیوں کے رویہ میں نرمی دیکھی جارہی ہے ۔

ظاہر بات ہے ریاست کے جن حلقوں میں مسلم ووٹوں کو اہمیت حاصل ہے وہاں کانگریس کے حق میں مسلم ووٹ آنے کی توقع کو بڑھانے میں مدد حاصل کی جائے گی ۔ ووٹ کٹوا پارٹی سے ذرا بچ کر رہنے کی کانگریس قائدین کی یہ حکمت عملی سیاسی درد سہتے ہوئے حکمت عملی اختیار کرنے پر توجہ دینا ہے ۔ عظیم اتحاد کے لیے اس کی دوڑ دھوپ کارگر ثابت ہوتی ہے تو بہتر ہے ورنہ اتحاد کے اندر کون اچھا اور کون برا یہ سمجھنے تک وقت رفو چکر ہوجائے گا ۔ ٹی آر ایس حکومت کو گرانے کے لیے کانگریس ۔ تلگو دیشم اتحاد کو بہت محنت کرنی پڑے گی ۔ اگر اس اتحاد نے مطلوب اکثریت حاصل نہیں کی تو مجلس کو سیاسی کزن بناکر حکومت بنانے کی طاقت حاصل کی جاسکتی ہے اور پھر ٹی آر ایس بی جے پی سے درپردہ ہاتھ ملانے والی اچانک اپنا قبلہ بھی تبدیل کرلے گی ۔ اس میں دورائے نہیں کہ کانگریس کی ریاستی یونٹ نے حکمراں ٹی آر ایس کو بہت سخت مقابلہ کھڑا کردیا ہے ۔ اگر اس طرح کی اپوزیشن اپنی جدوجہد یوں ہی جاری رکھے تو وہ حکومتوں کو دھڑام سے گرا سکتی ہے ۔ ریاستی و قومی سطح پر حکومتوں کو نانی یاد دلانے کے لیے راہول گاندھی کی سیاسی حکمت عملی کارگر ثابت ہوتی ہے تو راہول گاندھی نہ صرف سیاسی طور پر بہت مضبوط اور مقبول ہوں گے بلکہ کرپشن ، رافیل ، ٹیلی کام ، سی بی آئی میں داخلی خرابیوں جیسے مودی حکومت کی خرابیوں کے خلاف ہندوستانی عوام کو ہوشیار کرنے کے ساتھ تلنگانہ کے رائے دہندوں کی رائے بھی تبدیل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ مرکزی سطح پر بی جے پی حکومت کی خرابیوں کا فائدہ ریاستی اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو ہوگا ہندوستانی سیاست میں اس وقت جتنی کرپشن ہے اتنی شائد ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی نہیں تھی ۔ بوفورس کو کرپشن کی ماں کہتے تھے لیکن رافیل معاہدہ اور اب سی بی آئی میں کرپشن کے واقعات نے مودی حکومت کی خرابیوں کو آشکار کردیا ہے ۔ اس کا راست اثر تلنگانہ کے انتخابات پر بھی پڑے گا ۔ بشرطیکہ کانگریس اور اس کی امکانی اتحادی پارٹیاں اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں ۔ تلنگانہ کی سیاسی حکمران پارٹی ہو یا مقامی جماعت اب خاندانوں کی سلطنتیں بن گئی ہیں اور ان افراد یا خاندانوں کی حیثیت بادشاہوں یا شاہی خاندانوں جیسی ہوگئی ہے ۔ حکمراں ٹی آر ایس کے قائدین خود کو راجہ کے قائم مقام تصور کرنے لگے ہیں تو یہ تلنگانہ کے سیاسی عمل کے لیے تباہ کن بات ہے ۔ تلنگانہ کی موجودہ سیاسی ماحول ایک ایسی غیر متوقع پیشرفت کررہا ہے ۔ جس میں ٹی آر ایس کو اپنے کامیاب ہونے کا پورا یقین ہے تو دوسری طرف کانگریس کی کامیابی کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ جیسے جیسے رائے دہی کا دن قریب آتا جائے گا ۔ ہر پارٹی کا امیدوار پانی کی طرح پیسہ بہائے گا ۔ انتخابی میدان میں سیاستداں کئی قسم کے دکھائی دیں گے کچھ قائدین گاؤ زبان ہوتے ہیں یعنی گائے کی طرح سادہ مزاج رکھتے ہیں ۔ ان کا تعلق خمیرہ گاؤ زباں سے کم اور زبانی جمع خرچ سے زیادہ ہوتا ہے ۔ حکمراں لیڈر بھی دیکھنے میں گائے کی طرح سادہ نظر آتے ہیں وہ جلسے میں یوں صدائیں اور مکالمے لگاتے ہیں کہ سامعین محو حیرت ہوتے ہیں ۔ بعض قائدین کی تقاریر ایسی ہوتی ہیں جیسے گوبھی کے پھولوں سے ہم کلام ہوں ۔ جیسے بھینسوں کے باڑے کے سامنے تقریر کررہے ہوں ۔ ان کی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے ۔ وہ جھوٹ اتنے یقین اور اعتماد سے بولتے ہیں کہ سچ یہ سوچ کر اپنا منہ اپنے گریبان میں چھپا لیتا ہے کہ یہ منہ اور مسور کی دال ۔ ایک لیڈر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہر بات پر مُکّے لہرا لہرا کر کہتا ہے کہ اگر اس کی بات غلط ثابت ہوجائے تو اس کا نام بدل دینا اگر وہ غلط ثابت ہوئے تو میرا نام بدل دینا ، انہیں معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے اندر کسی کے پاس اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس لیڈر کا نام تبدیل کرسکیں ۔ تلنگانہ کی سیاست میں کچھ سیاستداں زعفرانی بھی ہیں وہ اپنا وزن بڑھانے کے لیے مخالف مسلم نعرے لگاتے رہے ہیں ۔ لیکن یہ لوگ اپنے حلقوں کے عوام کی محبتوں کے باعث اسمبلی تک پہونچ رہے ہیں ۔ لیکن حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کے قائدین کے حلقوں سے جو خبریں آرہی ہیں وہ حکمراں پارٹی کے لیے فال نیک نہیں ہیں ۔ کم از کم ایسے 7 واقعات سامنے آئے ہیں جہاں ٹی آر ایس قائدین کو انتخابی مہم کے دوران دیہی عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑا ۔ کئی دیہاتوں میں عوام نے آپس میں یہ حلف لیا ہے کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کریں گے اور ان سے ووٹ مانگنے کے لیے آنے والوں سے ان کے وعدوں کے بارے میں سوال کریں گے ۔ چند دن پہلے ٹی آر ایس کے سابق وزیر کو ان کے حلقے کے رائے دہندوں نے گھیر لیا ان کی کار روک کر احتجاج کیا عوام ان کی ایک بات بھی سننے تیار نہیں تھے جس کے نتیجہ میں جلسہ عام ملتوی کرنا پڑا ۔ ضلع ونپرتی ہو یا ضلع عادل آباد یا ضلع ورنگل کے وردھنا پیٹ ہر جگہ ٹی آر ایس قائدین کو عوام کی ناراضگی کا شکار ہونا پڑرہا ہے ۔ یہ واقعات بلا شبہ حکمراں پارٹی کے لیے شدید دھکہ ہیں ۔ اور مخالف حکمرانی لہر تیزی سے زور پکر رہی ہے یہ نعرے لگ رہے ہیں کہ ’ آپ کو ہمارا ووٹ مانگنے کا کوئی حق نہیں ہے ‘ ۔ لیڈروں کو یہ معلوم ہونا چاہئے جو ووٹر سنتا ہے وہ وقت آنے پر بول بھی سکتا ہے ۔ آج رائے دہندہ بولنے کی طاقت رکھتا ہے ایسے میں حکمراں پارٹی کا لیڈر اپنی خرابیوں کو پس پشت ڈال کر یہ کہتے پھرے کے کانگریس اور تلگو دیشم اتحاد کو ووٹ دیا جائے تو تلنگانہ تباہ ہوجائے گا تو ایک دن یہی لیڈر بچھڑ کر راہ اقتدار سے اس قدر ہوجائے گا تنہا کہ لوگ کہنے لگیں کے کہ یہ تھکے تنہا ، گرے تنہا ، اٹھے تنہا ، چلے تنہا اور لیڈر یہ کہتا ہوا کف افسوس ملے گا کہ جانے کس کی تھی خطا یاد نہیں ہم ہوئے کیسے جدا یاد نہیں ۔۔
kbaig92@gmail.com