مودی پھر ملک کے باہر…پارٹی میں قیادت کو چیلنج
ٹیپو سلطان سے پھر نفرت کا مظاہرہ
رشیدالدین
انتخابی فتح اور شکست سے بے نیاز نریندر مودی اپنی من پسند مصروفیت پر بیرون ملک روانہ ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم کا بیرونی دورہ اگرچہ پہلے سے طئے شدہ تھا لیکن جن حالات میں برطانیہ اورترکی کے دورہ پر روانہ ہوئے وہ بیرونی تقریب شکست کے غم کو خوشی میں تبدیل نہیں کرپائی ۔ برطانیہ میں ان کے چہرہ پر بہار کی شکست اور پارٹی میں بغاوت کے اثرات صاف طور پر جھلک رہے تھے۔ اندرون ملک تنقیدوں سے بچنے کیلئے وزیراعظم نے بیرون ملک سکون تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن عدم رواداری اور نفرت ان کا تعاقب کر رہی ہے۔ لندن میں اخباری نمائندوں نے جب ہندوستان میں عدم رواداری کے واقعات پر سوالات کی بوچھار کردی تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وزیراعظم خودکو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔ ان کے چہرہ کے اتار چڑھاؤ سے واضح ہورہا تھا کہ وہ اس طرح کے سوالات کا سامنا کرنے تیار نہیں ہیں۔ مودی نے جو نفرت اور عدم رواداری پر اندرون ملک خاموش رہے لیکن انہیں برطانوی وزیراعظم کے روبرو بیرون ملک اس مسئلہ پر زبان کھولنی پڑی۔ آخر کار انہوں نے عدم رواداری کی مذمت کی اور حکومت کی ذمہ داری کو یاد کیا۔ کاش نریندر مودی ہندوستان میں اپنی خاموشی توڑتے تو شائد بیرون ملک شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ظاہر ہے کہ دیڑھ سال میں 4 ریاستوں میں کامیابی کے بعد بہار میں شکست دراصل دہلی کا تسلسل ہے۔ اسمبلی انتخابات میں مسلسل دوسری شکست نے نریندر مودی کو ہلاکر رکھ دیا ہے ۔ نریندر مودی ایسے وقت بیرونی دورہ پر روانہ ہوئے جب پارٹی میں ان کی قیادت اور اپنے وزیر باتدبیر امیت شاہ کی صلاحیتوں پر سوال ا ٹھائے جارہے ہیں۔
ملک میں حالات بھلے ہی کچھ ہوں نریندر مودی بیرونی دوروں کے ریکارڈ کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ دیڑھ سال میں 30 سے زائد ممالک کا دورہ کسی عالمی ریکارڈ سے کم نہیں اور مودی کا نام گنیز بک میں ضرور شامل ہوسکتا ہے ۔ اب تک کے دوروں میں بھلے ہی مودی کو وطن سے دوری کا احساس نہ ہوا ہو لیکن اس بار بہار کی شکست ان کا تعاقب کر رہی ہے ۔ وزیراعظم کی باڈی لینگویج ان کے اندرونی کرب کو بیان کر رہی ہے ۔ اگر بہار میں کامیابی ہوتی تو بیرونی دورہ کا مزا ہی کچھ اور ہوتا۔ ہم وزیراعظم کے بیرونی دوروں کے خلاف نہیں ہیں بلکہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ بیرونی دنیا سے جڑنے سے زیادہ ضرورت ملک کے عوام سے جڑنے کی ہے۔ مودی کو دنیا سے زیادہ عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کی فکر کرنی چاہئے ۔ عوامی مسائل سے غفلت کا نتیجہ ہے کہ بہار میں رائے دہندوں نے بی جے پی کو دور کردیا۔ بیرونی دوروں سے وزیراعظم کی دلچسپی اگر اسی طرح برقرار رہی اور کبھی قیادت میں تبدیلی کا مطالبہ شدت اختیار کرلے تو عجب نہیں کہ نریندر مودی وزیراعظم کے بجائے وزیر خارجہ کی حیثیت سے برقراری کی خواہش کریں گے تاکہ بیرونی دوروں کا تسلسل جاری رہے۔ ملک میں رواداری کی برقراری میں ناکام نریندر مودی برطانیہ میں ہندوستان میں رواداری اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کا دعویٰ کرنے لگے۔ بہار میں بدترین شکست کے بعد بی جے پی میں دیپاولی بھی روشنیوں کو نہیں لوٹا سکی ۔ دیپاولی میں آتشبازی کے بجائے بی جے پی قائدین مشہور فلمی نغمہ ’’دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے‘‘ گنگنارہے ہیں۔ ویسے بھی نریندر مودی کیلئے پارٹی میں دیپاولی کے جشن کا کوئی موقع نہیں تھا۔ لہذا انہیں فوجی جوان یاد آگئے۔ انہوں نے فوجیوں کے ساتھ دیپاولی منائی اور ملک پر جان نچھاور کرنے والے حولدار عبدالحمید کو خراج پیش کیا۔ شکست کے بعد حولدار عبدالحمید کی قربانی کی یاد نریندر مودی کو آئی۔ کاش اسی طرح وہ گجرات میں احسان جعفری اور دادری میں اخلاق کے گھر پہنچ کر پرسہ دیتے۔
بہار میں بی جے پی کی شکست کے بارے میں گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران ملک اور بیرون ملک میں سیاسی تجزیہ نگاروں نے مختلف رائے ظاہر کی ہے لیکن انتخابی مہم کے دوران مودی نے گجرات کے عوام کے بارے میں جس رائے کا اظہار کیا تھا ، اسے رائے دہندوں نے سچ کر دکھایا۔ مودی نے کہا تھا کہ ’’ہندوستان کے عوام کو گجرات کے عوام کی سیاسی سوجھ بوجھ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ بہار ایسا پردیش ہے جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے لیکن جب لیتا ہے تو چن چن کر صاف کرتا ہے‘‘۔ مودی کی یہ بات بہار کے عوام کے دل پر اثر کر گئی اور ان کا فیصلہ کچھ اسی انداز میں آیا ۔ بہار میں بی جے پی کی شکست کو نفرت اور عدم رواداری کے واقعات اور بی جے پی حکومت کی مایوس کارکردگی کا نتیجہ بھلے ہی قرار دیا جائے لیکن درحقیقت سیکولر جماعتو ںکے اتحاد کے سبب نتیش۔لالو اتحاد کو کامیابی حاصل ہوئی۔ بہار میں بی جے پی کا ووٹ بینک 2014 ء کے عام انتخابات کے مساوی رہا اور اگر آر جے ڈی ، جنتا دل (یو) اور کانگریس تنہا مقابلہ کرتے تو بی جے پی کی کامیابی یقینی تھی ، جس طرح 2014ء میں اس نے اکثریتی نشستوں پر قبضہ کیا تھا ۔ یہ نتائج سیکولر جماعتوں کیلئے نئی روشنی کی طرح ہے اور اترپردیش ، مغربی بنگال ، آسام ، پنجاب اور کیرالا کے اسمبلی چناؤ میں سیکولر اتحاد کا فارمولہ ہی بی جے پی کی پیشقدمی کو روک سکتا ہے ۔ اگر سیکولر جماعتیں قومی سطح پر متحد ہوجائیں تو 2019 ء میں بی جے پی کا صفایا ممکن ہے ۔ بہار میں ہیٹ ٹرک کے ذریعہ نتیش کمار 2019 ء میں وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں نریندر مودی کیلئے چیلنج بن سکتے ہیں۔ بہار نتائج سے صاف ظاہر ہے کہ ملک کے عوام کی اکثریت سیکولرازم اور رواداری پر یقین رکھتی ہے۔
بہار شکست کے بعد ایک طرف آر ایس ایس نے بی جے پی قیادت کو پھٹکار لگائی تو دوسری طرف مارک درشک منڈل کے سینئر قائدین نے مودی کے خلاف محاذ کھول دیا جن میں ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی اور یشونت سنہا قابل ذکر ہیں جنہیں نریندر مودی نے نظرانداز کردیا تھا ۔ اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کا شمار ان قائدین میں ہوتا ہے جنہوں نے بی جے پی کو دو نشستوں سے اقتدار تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سینئر قائدین کی بغاوت مودی اور امیت شاہ کی قیادت پر کس حد تک اثر انداز ہوگی یا پھر پیالی میں طوفان ثابت ہوگی۔ کانگریس کے ترجمان نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ بی جے پی میں دو ’’شاہ‘‘ ہیں۔ ایک امیت شاہ ، دوسرے تانے شاہ ۔ مودی نے بہار کیلئے ایک لاکھ 25 ہزار کروڑ کے پیاکیج کا اعلان کیا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے جموں و کشمیر کیلئے 80 ہزار کروڑ کے پیاکیج کا اعلان کیا ہے ۔ ان پیاکیجس کے اعلانات کے وقت کاش نریندر مودی کو گجرات کے ان ہزاروں خاندانوں کی یاد آتی جو 2002 ء سے آج تک انصاف اور امداد دونوں سے محروم ہیں ۔ بہار اور کشمیر سے زیادہ مودی کی آبائی ریاست کے متاثرین پیاکیج کے مستحق ہیں۔ وہ شخص جس نے اچھے دن ، کالے دھن کی واپسی ، ہر کھاتے میں 15 لاکھ ، سب کا ساتھ سب کا وکاس ، مہنگائی کا خاتمہ اور دو کر وڑ روزگار جیسے وعدے کئے تھے، اسے عوام ڈھونڈ رہی ہے لیکن وہ بیرونی دوروں میں مگن ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہار کی ہزیمت سے بی جے پی نے کوئی سبق نہیں لیا اور وہ اپنی روش بدلنے کیلئے تیار نہیں۔ کرناٹک میں ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش تقاریب کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انگریزوں کے خلاف لڑنے اور ان کے دلوں میں خوف پیدا کرنے والے اس عظیم مجاہد آزادی کو بی جے پی اور سنگھ پریوار برداشت کرنے تیار نہیں۔ سرکاری سطح پر تقاریب میں انعقاد کی مخالفت کرتے ہوئے کرناٹک میں احتجاج شروع کیا جائے ۔ ٹیپو سلطان کو ہندوؤں کا دشمن قرار دینے والے عناصر دراصل ملک کی تاریخ کو مسخ کرنا چاہتے ہیں۔ مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار آنے کے بعد نئی تاریخ رقم کرنے کی تیاری ہے اور پہلے قدم کے طور پر نصابی کتابوں سے مسلم حکمرانوں اور ان کے کارناموں کو نکال دیا گیا ۔ آر ایس ایس نظریات کے حامل مورخین مسلم حکمرانوں کے بارے میں نئی نسل کے ذہنوں کو آلودہ کر رہے ہیں۔ کبھی اورنگ زیب تو کبھی ٹیپو سلطان کو مخالف ہندو ثابت کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ انگریزوں سے لڑتے ہوئے شہید ہونے والے بہادر کو مجاہد آزادی ماننے سے انکار لیکن قیام پاکستان اور ملک کی تقسیم کے ذمہ داروں کا یوم پیدائش بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے ۔ دنیا بھر کے مورخین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ٹیپو سلطان انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے ابتدائی حکمرانوں میں سے ہیں۔ جو تنظیمیں ٹیپو سلطان کو مجاہد آزادی تسلیم کرنے تیار نہیں ، ان کے بانیوں نے انگریزوں کے لئے جاسوسی کا کام کیا تھا ۔ ٹیپو سلطان سے نفرت محض اس لئے ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ ملک کی جدوجہد آزادی سے وابستہ کئی قائدین کے کارناموں کو حذف کردیا گیا اور اس لڑ ائی کو چند شخصیتوں تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ 1857 ء میں سب سے پہلے مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ ٹیپو سلطان کسی مذہب کے نہیں بلکہ عوام کے ہیرو ہیں اور بی جے پی نے ان کے خلاف مہم کے ذریعہ کرناٹک میں اپنے لئے اقتدار کے راستہ کو بند کرلیا ہے۔ اگر مسلم حکمرانوں سے اتنی نفرت ہے تو پھر ان کی یادگاروں پر ہندوستان کو فخر کیوں؟ مسلم حکمرانوں کی یادگاروں سے ہی دنیا بھر میں ہندوستان کی شناخت ہے۔ مسلم حکمراں کی یادگار پر ہر سال یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلمان قومی پرچم کی عظمت کو اپنے سینے پر سجائے ہوئے ہیں۔ اگر نفرت کا یہی ماحول رہا تو وہ دن دور نہیں جب مولانا ابوالکلام آزاد ، محمد علی جوہر ، محمد علی ، شوکت علی برادران ، خان عبدالغفار خاں اور دیگر مجاہدین آزادی کو آنے والے دنوں میں تاریخ سے حذف کردیا جائے گا ۔ شہود عالم آفاقی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہر بات جس کی تھی کبھی للکار کی طرح
خاموش آج ہے وہی دیوار کی طرح
rasheeduddin@hotmail.com