ہر ایک کو 16 مئی کا انتظار

اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
کامیابی اور فتح انسان کو ہر حال خوشی دیتی ہے ۔ آندھراپردیش میں بھی کئی انسانوں نے ووٹ ڈالے ہیں اور جن کیلئے انہوں نے ووٹ ڈالا ہے ان کے لیڈروں نے اپنی اپنی کامیابی اور فتح کا اندازہ بھی کرلیا ہے ۔ سیما آندھرا میں چندرا بابو نائیڈو کی کامیابی کا بگل بجایا گیا ہے تو تلنگانہ میں ٹی آر ایس کو فتح حاصل ہونے کی خبروں نے سب کو خوش کردیا ہے جو ناراض اور ناخوش ہیں، ان کیلئے قطعی ناراضگی اور ناخوش یا غم کے بادل مسرت میں ڈھل جانے کی گھڑی تو 16 مئی کو وقوع ہوگی۔ فی الحال یہ خبر تکلیف دہ ہے کہ نتائج کے بعد شہریوں پر برقی کٹوتی کی مار کے ساتھ برقی شرحوں میں زبردست اضافہ کا بوجھ ڈالا جائے گا ۔ آندھراپردیش جیسی زر خیز اور قدرتی وسائل سے مالا مال ریاست کو اس کے سیاسی لٹیروں نے بری طرح لوٹ کر عوام کو مصائب میں ڈھکیل دیا ۔ ابھی نئی ریاست کی تشکیل عمل میں آئی ہی نہیں برقی کا مسئلہ ، پانی کا جھگڑا اور آب و ہوا رہائشی مسائل پیدا کردینے کی تیاری کی جارہی ہے ۔ منقسم ریاست میں دونوں حکومتوں کو شہر حیدرآباد میں ہی تو تو میں میں کرنے کا موقع دیا جارہا ہے ۔ آئندہ 10 سال تک تمام سکریٹریٹ سرکاری عمارتیں ، اسمبلی ، کونسل کی عمارتوں کو استعمال کرنے کے مسئلہ پر تلنگانہ قائدین کا اعتراض بھی شروع ہوگیا۔

تلنگانہ پردیش کانگریس کے صدر پونالہ لکشمیا نے سکریٹریٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اے بی سی بلاک تلنگانہ والوں کو اور ایچ اور دیگر بلاکس سیما آندھرا والوں کو دینے کی مخالفت کی ہے ۔ گورنر آندھراپردیش ای ایس ایل نرسمہن کے نام روانہ کردہ مکتوب میں مسٹر پونالہ لکشمیا نے تجویز رکھی کہ موجودہ سکریٹریٹ کو اور دیگر سرکاری دفاتر صرف تلنگانہ ریاست کو مختص کئے جائیں۔ اگر ایک ہی احاطہ کی عمارتوں کو دو ریاستوں کی حکومتوں کے کام کاج کیلئے استعمال میں لایا گیا تو اس سے مسائل پیدا ہوں گے ۔ اس رد و بدل اور عمارتوں کی مرمت کیلئے ہزاروں کروڑ روپئے کے مصارف بھی آئیں گے اور پھر 10 سال بعد سیما آندھرا والے اپنے علاقہ کو چلے جائیں گے مگر پیسہ تو عوام کا ضائع ہوجائے گا ۔ تلنگانہ میں جب تک سیما آندھرا کا غلبہ رہے گا اس وقت تک کئی دیگر مسائل اور نتائج بھی پیدا ہوں گے ۔ مرکز نے کام ہی ایسا کیا ہے کہ عوام ہمیشہ مسائل کا ہی شکار رہیں۔ دو ریاستوں کے قیام سے قبل ہی جو شکایات سامنے آرہی ہیں اس پر آئندہ چل کر کئی باتیں ہوں گی۔ اس وقت تمام پارٹیاں اپنے لئے اعداد و شمار اور کامیابی کے گراف و زائچے بنانے میں مصروف ہیں۔

تلگو دیشم کے سربراہ چندرا بابو نائیڈو نے 2009 ء میں اپنی پارٹی کی کامیابی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی پارٹی کو 200 سے زائد نشستیں ملیںگی جبکہ تلگو دیشم کو 107 پر کامیابی ملی تھی اب منقسم ریاست میں سیما آندھرا میں تلگو دیشم بی جے پی اتحاد کو 120 تا 130 نشستیں ملنے کی توقع کی جارہی ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو نے قبل از انتخابات بی جے پی سے اتحاد کرلیا تھا، انہیں حکومت سازی اور وزارتوں کی تقسیم کے لئے حلیف پارٹی بی جے پی کے ناز و نخرے بھی برداشت کرنے پڑیں گے ۔ تلنگانہ میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے والی ٹی آر ایس نے کوئی اتحاد نہیں کیا ، البتہ وہ اب اتحاد کی طرف قدم اٹھانے کوشاں نظر آتی ہے۔ پارٹی سربراہ کے سی آر نے تلنگانہ بھون میں اپنے قائدین کے ساتھ اس موضوع پر غور و خوض بھی کیا ہے ۔ تلنگانہ کانگریس کو اپنی بقاء کی فکر لاحق ہوگئی ہے ۔ تلنگانہ دے کر بھی اسے کامیابی نہیں ملے گی تو یہ پارٹی اور اس کے ارکان دوسروں کا سہارا لیں گے یا کسی اور کا سہارا بنے گی۔ ایک قومی جماعت جنوبی ہند کی بڑی ریاست میں صفایا کا ماتم کرنے والی ہے تو یہ وقت کا کرب ہوگا ۔

سیما آندھرا میں کانگریس قائدین اپنے رائے دہندوں کو منہ دکھانے کے لائق بھی نہیں رہے تو انہوں نے متحدہ آندھرا کی جدوجہد بھی ترک کردی ہے ۔ کانگریس کے سابق ایم پی لگڑا پاٹی راجگوپال نے بھی ا پنے آئندہ کی سیاست پر کوئی غور نہیں کیا۔ ایم پی سے استعفیٰ دینے کے بعد وہ انتخابی نتائج کی پیش قیاسیاں کرنے لگے ہیں۔ تلنگانہ ریاست کے 2 جون کو قیام کے بعد نئی ریاست میں سرکاری کام کاج اور نئی حکومت کیلئے لوگو کی تیاری بھی ایک اہم کام ہے ۔ ابھی تک یہ ’’لوگو‘‘ تیار نہیں ہوا ہے ۔ ریاست کا سرکاری نشان اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے ملازمین تلنگانہ میں ہی رہ کر کام کریں گے ۔ خوب جھگڑا بھی تقویت پائے گا ۔ تلنگانہ ملازمین نے سیما آندھرا ملازمین کے ساتھ مل کر کام کرنے سے انکار کردیا تو پھر دیگر مسائل پیدا ہوں گے ۔

تلنگانہ بن جانے کے بعد یہاں قابل اور باصلاحیت بیوریو کریٹس بھی نہیں ہوں گے۔ ڈاکٹرس کی تعداد بھی کم ہوجائے گی کیونکہ زیادہ تر ڈاکٹرس سیما آندھرا سے تعلق رکھتے ہیں۔ موجودہ ڈاکٹروں کی جملہ تعداد 70 فیصد آندھرا کے ہیں۔ تلگو میڈیا اس سلسلہ میں بہت شور مچارہا ہے ۔ اس نے سیاسی پارٹیوں کے حق میں کامیابی یا ناکامی کا بھی شور مچانا شروع کیا ہے ۔ سٹے بازوں نے بھی تلنگانہ اور سیما آندھرا میں پارٹیوں کی قسمت کے ساتھ اپنی جوئے کی رقم کو دوگنی کرنے کی کوشش شروع کی ہے ۔ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ سٹے بازوں کو فی الحال کامیابی و ناکامی سے متعلق میٹھے جھوٹ اچھے لگنے لگے ہیں۔ ہر کسی کیلئے ایک سیاہ رات کے بعد ایک شفاف صبح ضرور نمودار ہوتی ہے ۔ اندھیرا کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو روشنی کی ایک ہلکی سی کرن اسے ختم کردیتی ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بعض لوگوں کو ہمیشہ اندھیرا ہی بھاتا ہے ۔ انہیں نہ جانے کیوں اجالوں سے الجھن محسوس ہوتی ہے ۔ شاید اس لئے کہ ’’ان کا جھوٹ روشنی میں مرجاتا ہے اس لئے وہ اندھیرے کو ہی پسند کرتے ہیں ۔ جو لوگ سچ کی زندگی جینا نہیں چاہتے وہ اپنے اور اطراف و اکناف کے ماحول کو بھی جھوٹ کی سیاہ چادر میں لپیٹ کر رکھنا چاہتے ہیں ۔

شہر حیدرآباد کی مقامی سیاست کا یہی جھوٹ ا پنے اطراف سیاہ کو مضبوط کر رہا ہے ۔ ان کے جھوٹ کو روشنی کھا جائے گی اس لئے وہ اپنے رائے دہندوں کو بھی تاریکی میں جھونک دیتے ہیں ۔ سیاہ کی چادر اوڑھے ان کے رائے دہندوں نے انہیں ووٹ دیا ہے یا ان کے نام پر دھاندلیاں کر کے ووٹ ڈال لئے گئے ہیں ، یہ جھوٹ کا بھی ایک بھیانک غیر جمہوری غیر اخلاقی عمل ہے ۔ یہ لوگ ابہام ، تشویش ، سازشی کہانیوں اور جھوٹ کی چھتوں سے ا پنے جھوٹ کو زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ۔ مگر انہیں معلوم نہیں ہے کہ ’’اصل سچ ‘‘ مرتا نہیں بس کچھ دیر کیلئے اٹھالیا جاتا ہے ۔ ایک معینہ وقت پر ان سب کو کرارا جواب دینا پڑے گا ۔ حیدرآباد کے عوام نے جو کچھ فیصلہ کیا ہے اس کا خمیازہ مزید پانچ سال بھگتنا پڑے گا ۔ مگر زندگی کا ایک اور سچ یہ بھی ہے کہ جب تیز آندھی چلتی ہے تو پھل دار درخت خاموش رہتے ہیں لیکن دوسرے درخت شان شیان آتے ہیں کیونکہ وہ بے پھل ہوتے ہیں۔ لہذا کوئی لیڈر اور شخص آپ کا دل دکھائے تو کبھی ناراض نہ ہونا کیونکہ قدرت کا قانون ہے کہ جس درخت کا پھل سب سے زیادہ میٹھا ہوتا ہے لوگ پتھر بھی ، اسی کو مارتے ہیں ۔ آج یہ نام نہاد قائدین اپنے کردار سے ثابت کرچکے ہیں کہ شہر کی تہذیب پر اینٹ اور پتھر کھینچ کھینچ کر ضرب پہونچائی ہے ۔ انتخابات کے نتائج کے بعد ان کے حوصلے مزید بلند ہوں گے ، پھر اپنی ٹانگ اڑانے کیلئے ادھر ادھر دوڑ لگائیں گے ۔ تلنگانہ میں حکومت سازی کے عمل میں کس کو کیا ملے گا یہ 16 مئی کے نتائج ہی بتائیں گے۔
kbaig92@gmail.com