حلیم بابرؔ
دنیا میں جہاں جہاں اردو لکھنے اور پڑھنے والے زندہ ہیں اور خصوصیت کے ساتھ جہاں شاعر و اریب موجود ہیں وہاں ایک عظیم المرتبت عالمی شہرت یافتہ بزرگ استاد شاعر اردو و فارسی مرزا غالب کی شاعری کا وہ بے حد احترام کرتے ہیں اور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یہ بات سب شعراء ، ادباء و محبان اردو پر روشن ہوکر مرزا غالب نے جس اندازِ فکر سے اپنی شاعری کے وہ انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ مرزا غالب کی بلند فکر شاعری پر بڑے بڑے دانشور و استاد شعراء نے قلم اٹھاتے ہوئے بے حد ستائش کی ہے اور اپنی رائے میں کہا کہ اس طرح کا شاعر پیدا ہونا مشکل ضرور ہے ۔ ان کے بیسیوں اشعار داد و تحسین کے مستحق بنے ہیں۔ انہیں فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں بیک وقت مکمل دسترس حاصل تھی ۔ مرزا غالب کی یادیں ہر سال دنیا کے مختلف مقامات پر غالب صدی تقاریب کا اہتمام بڑے احترام و ادب سے کیا جاتا ہے ، ان کی شاعری پر تبصرہ کئے جاتے ہیں اور خراج عقیدت کے ساتھ ساتھ دعائے مغفرت بھی کی جاتی ہے اور اس طرح کا عمل شعراء ، ادبا و محبان اردو کے فرائض میں بھی داخل ہے ۔ دورِ حاضر کے نامساعد و اختلافی حالات کے تناظر میں مرزا غالب نے اپنے ایک شعر میں بڑے ہی دلنشیں انداز میں بڑی جامع بات کا اظہار کیا ہے جو ہمارے فہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے ۔ مرما غالب کا شعر یوں ہے کہ
آزاد رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
مرزا غالب نے صلح کل مسلک کو اپناتے ہوئے ملت کو یکجا ہونے کی بات کہی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے عمل سے کسی سے عداوت یا دشمنی پیدا نہیں ہوسکتی ۔ آج کے اس پرآشوب دور میں مسلکی اختلافات نے مسلمانوں کے اتحاد کا شیرازہ بکھیر رہے ہیں اور مسلمان ایک دوسرے سے مسلک کے معاملہ میں سخت گیر عمل کو اپناتے ہوئے کسی بھی مشورہ کو ماننے تیار نہیں ہیں۔ آج مسلمانوں کو ہوش میں آنے کی ضرورت ہے ۔ جوش میں آکر ہوش کھونے کا وقت نہیں ہے ۔ آج باطل کی قوتیں چاروں طرف سے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ ان حالات میں اگر ہم آپس میں ہی اختلافات کو ہوا دیکر رسوائی و محرومی کی منزلوں میں داخل ہوجائیں تو پھر ملت کا خدا ہی حافظ ہے۔ علامہ اقبال نے بھی بڑے درد و کرب سے مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کا سبق اپنی شاعری میں دیا ہے ۔ مگر آج مسلمانوں میں انانیت کے زہریلے جراثم اس طرح داخل ہورہے ہیں کہ اس کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔ آج مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد جیسی عظیم طاقت چھوٹ چکی ہے اور وہ مسلکی اختلافات میں اس طرح ڈوب گئے ہیں کہ اس سے بچنا مشکل نظر آتا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم کلمہ کی بنیاد پر ایک دوسرے کو بھائی سمجھیں۔ اس کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم سب اللہ کے بندے اور نبی کے امتی ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے مسلکی اختلافات کو بڑا بناکر دشمنی کی فضاء پیدا کرنا آج کے وقت کا تقاضہ نہیں ہے ۔ اگر ہم آپس میں یونہی لڑتے رہیں تو کیا امید کی جاسکتی ہے کہ دوسرا ہماری مدد کرے ۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں ایسی سچائی کا اظہار کیا ہے جس کا ا قرار ضروری ہوجاتا ہے کہ
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
اگر یہ شعر کا مفہوم ہمارے دلوں میں اتر جائے تو یقیناً ہم مسلمان ایک آہنی قوت بن کر ابھر سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اتفاق و اتحاد عنوان پر کس قدر پر اثر بات اپنے شعر میں کہی ہے۔ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے ۔ اس میں خلوص ، محبت اور رو اداری اس طرح رچ بس گئی ہے کہ ہم ایک دوسرے کا احترام کرنے والے کہلائے جاتے ہیں۔ اکرام مسلم کی صفات کو اپنائیں۔ مگر دورِ حاضر کی اس بگڑتی اور سلگتی ہوئی ہواؤں کو کیا کیا جائے جو مسلمانوں کو جلاکر راکھ کر رہی ہے اور مسلمان ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ بہرحال بات کا بنیادی عنوان مرزا غالب کا وہ شعر ہے جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ میرا مسلک صلح کل ہے اور میں اس پر گامزن ہونے کی یا کسی سے کوئی عداوت یا دشمنی نہیں رکھتا۔ بہرحال یہ شعر کے تقاضوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ہم اپنے استحکام کی فکر کریں جو ہر گام متزلزل ہورہی ہے ۔ کبھی طوفان میں ہچکولے کھا رہی ہے تو کہیں آگ میں جل رہی ہے تو کہیں آندھی کی نذر ہورہی ہے ۔ خدارا اب ملت ایک نازک موڑ پر آچکی ہے اور اگر اب اس کی حفاظت نہ کی جائے تو عین ممکن ہے ۔ ہم اپنے وجود کو کھو بیٹھیں ۔ آج اسلام مسلمانوں سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ تم ایک اللہ کے بندے اور ایک نبی کے امتی ہوتے ہوئے اس قدر سخت دل کیوں بن چکے ہو اور مسلک کے نام پر عداوت اور دشمنی پر کیوں تلے ہوئے ہو۔ آج ہمارے سامنے ہماری نااتفاقیاں و عداوت کے نقشے اس طرح متاثر کر رہے ہیں کہ ہم شاید ایک دن اپنی شناخت بھی کھودیں۔ اس سنگین دور میں جہاں مسلمان دیگر مذاہب کی نظروں میں کھٹک رہا ہے ، وہاں وہ اپنوں سے بھی قریب نہیں اور اس کو ایک بڑا المیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
حرف آخر : مضمون کی اختتامی بات یہی ہے کہ مسلمان متحد ہوجائیں ۔ مسلک کے مسائل کو ہوا نہ دیں بلکہ اپنے اپنے ملک کے اعتبار سے عبادات کریں ، کسی کو برا بھلا نہ کہیں۔ اکرام مسلم جیسی عظیم صفت کو اپنائیں تو خدارا یقین ہے کہ مسلمانوں کے دن بدل جائیں۔
رسوائی و بربادی سرخروی میں تبدیل ہوجائے
یہ زمانہ مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کا متحرک ہوجائے
دوبارہ مرزا غالب کا شعر پیش کیا جاتا ہے تاکہ ذہنوں میں ان کے شعر کا مفہوم مسلمانوں کو متحرک بیدار و متحد بنانے میں کامیاب ہوجائے ۔
آزآد رو ہوں اور مرا مسلک ہی صلح کل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے