ہجرت مقدسہ رسول اللہؐ سے ہجری سال کا آغاز و تعین بہ عہد فاروق اعظم ؓ ہوا

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا کا تاریخ اسلام اجلاس۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی کا خطاب

حیدرآباد ۔26 اکٹوبر( پریس نوٹ) سن ہجری کے تعین کے سلسلہ میں امام بخاری فرماتے ہیں کہ مسلمانوں نے حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے اپنے سن کا آغاز کیا۔۸؍ربیع الاول ۱۳ نبوی روز دوشنبہ کو رسول اللہؐ قبا میں رونق افروز ہوے۔قبامیں چند روز قیام فرما کر بتاریخ ۱۲؍ربیع الاول ۱ھ مدینہ منورہ کا ارادہ فرمایا۔ وہ جمعہ کا روز تھا۔ اہل عرب کے نزدیک مہینوں میں سے پہلا مہینہ محرم شمار ہوتا تھا اس لئے انھوں نے ہجری سال کا آغاز ماہ محرم سے کیا تا کہ ان کے ہاں مروج طریقہ کے مطابق سال کی ابتداء ہو تا کہ کاروبار اور لین دین میں کسی قسم کا خلل واقع نہ ہو۔اسلام سے پہلے مختلف اقوام نے اپنے تاریخی واقعات اور کاروباری امور وغیرہ کے سر انجام دینے کے لئے مختلف قسم کے کیلنڈر مقرر کر رکھے تھے۔ دنیا بھر میں مختلف سنین جاری تھے۔یہودی سنہ بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کے واقعہ کی یادگار ہے،یونانی جنتری سکندر اعظم کی پیدائش سے بعد ازاں آگسٹس کی پیدائش سے، عیسوی سنہ حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت سے شمار ہوتی ہے۔ ان حقائق کے اظہار کے ساتھ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور دو بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۱۱۸‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت الیسع علیہ السلام کے مقدس حالات اوردوسرے سیشن میں’’ہجری ۔ سال نو‘‘ کے عنوان پر مبنی توسیعی لکچر دئیے۔ قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے بتایا کہ حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد اپنے سنین کا شمار حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کو آتش کدہ نمرود میں جھونکے جانے کے واقعہ سے کرتی تھی۔ پھر تعمیر کعبہ کے سال سے اپنی جنتری کا آغاز کرتے تھے۔ بعد ازاں کعب بن لویٔ کی وفات سے اپنے برسوں کا شمار کرنے لگے۔ پھر جب ابرہہ نے کعبہ مقدسہ کو گرانے کا عزم کیا تو اللہ تعالیٰ نے ابابیل کے ذریعہ ان پر سنگ باری کرکے انہیں تہس نہس کر دیا اس وقت سے اہل عرب نے اس واقعہ سے اپنے سال شمار کرنے شروع کئے جسے عام الفیل سے موسوم کیا جاتا ہے۔ارباب سیر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسلام پھیلنے کے بعد سورتوں کے نزول کی نسبت سے واقعات یاد رکھے جانے لگے جیسے کافروں سے قتال کی اجازت (سورہ حج) کا واقعہ کچھ عرصہ تک بطور سنہ رائج رہا۔ سورہ توبہ کے نزول کے بعد سنہ براء ت مقبول ہوا۔ حجۃ الوداع کے بعد سنۃ الوداع کا سلسلہ رہا۔ علاوہ ازیں جب اسلامی کیلنڈر کی ابتداء کس واقعہ سے کی جاے کا معاملہ درپیش ہوا تو اکثر اہم واقعات پر غور و خوض ہوا جن کے منجملہ چند یہ تھے : میلاد النبی ؐ، بعثت مبارکہ، ہجرت مقدسہ، فتح بدر، فتح مکہ، حجۃالوداع یا رحلت شریف وغیرہ۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے بتایا کہ اس تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانو ںنے پہلے سے اس سلسلہ میں کوئی مخصوص واقعہ کا تعین نہیں کیا تھا یہاں تک کہ امیر المومنین حضرت عمر ابن خطابؓ کا دور آیا یعنی جب آپ مسند خلافت پر متمکن ہوے تو اس مسئلہ کو حل کر لیا گیا۔حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ (گورنر یمن) نے حضرت فاروق اعظمؓ کے پاس عریضہ بھیجا کہ آپ کے پاس سے فرامین اور خطوط آتے ہیں لیکن ان پر تاریخ نہیں ہوتی۔ اس توجہ دہانی کے باعث حضرت عمرؓ نے اس مسئلہ کو طے کرنے کا ارادہ فرمالیا۔ اور اپنی مجلس مشاورت کا اجلاس طلب کیااور کہا کہ’’ ہمیں اپنا ایک سن مقرر کرنا چاہئیے جس کے مطابق لین دین وغیرہ کے سلسلہ میں حتمی تاریخوں کا تعین کیا جا سکے اس کے بارے میں مشورہ دو‘‘۔لوگوں نے اہل فارس کے کیلنڈر اور بعض نے رومیوں کے کیلنڈر کو اپنانے کی تجاویز پیش کیں جسے آپ نے مسترد کر دیا۔ چند حضرات نے حضور انورؐ کی یوم ولادت کو اسلامی تاریخ کے آغاز کے لئے اختیار کرنے کی صلاح دی کچھ صاحبین نے رسول اللہؐ کی بعثت مبارک کے دن سے اور کسی نے سرکار دو عالم ؐ کی رحلت شریف کو اور چند حضرات نے واقعہ ہجرت سے اسلامی سن کی ابتداء مقرر و معین کرنے کی راے دی۔حضرت عمر ؓ کو واقعہ ہجرت سے اسلامی سن کے تعین کی تجویز پسند آئی اور آپ نے جب ہجرت سے اسلامی کیلنڈر کے آغاز کے متعلق اپنی پسند و رضامندی ظاہر کی تو تمام شرکاء مشاورت نے بھی اتفاق راے سے اس تجویز کو منظور کر لیا۔