ہاشم پورہ قتل عام کیس میں انصاف کا قتل عبث

غضنفر علی خان

ہاشم پورہ میں ایک رات پی اے سی کے مسلح جوان آبادی میں داخل ہوئے اور تمام مرد افراد سے کہا کہ وہ گھروں سے باہر آجائیں، ایسا ہی ہوا۔ مرد گھر سے باہر آگئے۔ خواتین گھروں میں رہ گئیں۔ ان تمام کو ایک جگہ کھڑا کیا گیا پھر انہیں جانوروں کی طرح سڑک پر بٹھایا گیا ۔ یہ تفصیلات اس لئے بھی مستند ہیں کہ ان کو ایک قومی ٹیلی ویژن پر اس قتل عام میں بچ جانے والے ہاشم پورہ کے ایک شخص مظفر نے بیان کیا ہے، پھر انہیں ایک نہر کے پاس لے جایا گیا اور ان پر گولیاں برسائیں گئیں۔

ہمارے ملک میں دن بدن انصاف کا حصول مشکل سے ناممکن ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ ہمارے قانون شہادت میں موجود قانونی گنجائشوں ، تشریحات کا سہارا لیکر قتل کے ملزمین بھی قانون کی گرفت سے آزادی حاصل کرلیتے ہیں۔ ہاشم پورہ میں آج سے تقریباً 28 سال قبل 1987 ء میں یہ واقعہ ہوا تھا۔ یہ ضلع میرٹھ میں واقع ہے، بلکہ وہاں کا ایک محلہ ہے جہاں غریب مسلمان رہا کرتے تھے ۔ نہ تو وہ کوئی مجرمانہ ریکارڈ رکھتے تھے اور نہ 1987 ء کے فرقہ وارانہ دنگوں سے ان کا کوئی تعلق تھا ۔ میرٹھ کے اس وقت کے بگڑے ہوئے حالات پر قابو پانے کیلئے پولیس کے خصوصی شعبہ پی اے سی کو تعینات کیا گیا تھا ۔ ہاشم پورہ میں ایک رات پی اے سی کے مسلح جوان آبادی میں داخل ہوئے اور تمام مرد افراد سے کہا کہ وہ گھروں سے باہر آجائیں، ایسا ہی ہوا۔ مرد گھر سے باہر آگئے۔ خواتین گھروں میں رہ گئیں۔ ان تمام کو ایک جگہ کھڑا کیا گیا پھر انہیں جانوروں کی طرح سڑک پر بٹھایا گیا ۔ یہ تفصیلات اس لئے بھی مستند ہیں کہ ان کو ایک قومی ٹیلی ویژن پر اس قتل عام میں بچ جانے والے ہاشم پورہ کے ایک شخص مظفر نے بیان کیا ہے

، پھر انہیں ایک نہر کے پاس لے جایا گیا اور ان پر گولیاں برسائیں گئیں۔ مظفر نامی یہ شخص بھی گولی لگنے سے (جو اس کے بازو پر لگی تھی) نہر میں گرپڑا اور وہیں دم سادھے پانی میں پڑا رہا ۔ پی اے سی کے قاتل جوانوں نے اسے مردہ سمجھ کر چھوڑدیا اس کے اطراف کچھ اور بھی بچے تھے جن کی حالت بہت بری تھی ۔ بعد میں مہلوکین کی نعشوں کو نہر میں بہادیا گیا ۔ ویسے تو میرٹھ کا یہ واقعہ دیڑھ ماہ تک چلتا رہا ۔ ہاشم پورہ کا یہ واقعہ اس لئے مشہور ہوگیا اس میں ایک وقت میں 35 افراد جاں بحق ہوگئے تھے ۔ یہ قتل عام تھا ، یہ قتل عبث تھا ۔ 28 سال تک کئی حکومتیں بدلیں ، کئی جماعتوں کو اقتدار ملا لیکن کسی بھی حکومت نے ہاشم پورہ قتل عام کیس کی عاجلانہ اور منصفانہ یکسوئی کیلئے کچھ بھی نہیں کیا اور کرتی بھی کیوں ، مرنے والے بیچارے مسلمان تھے

اور مارنے والی باقاعدہ پولیس کی وردی پہنے ہوئے بندوقوں سے لیس پی اے سی Police Armed Constabulary فورس تھی۔ مختلف حکومتوں کے لئے جو اترپردیش میں بنتی اور ٹوٹتی رہی صورتحال’’ اپنے ہی دانت اور اپنے ہی ہونٹ ‘‘ جیسی تھی۔ ایک باقاعدہ سرکاری پولیس ایجنسی نے یہ قتل عام کیا تھا ۔ دہلی کی جس عدالت نے یہ فیصلہ 21 مارچ 2015 ء کو سنایا ہے، وہ 216 صفحات پر مشتمل ہے۔ فیصلہ مزید طویل بھی ہوتا تو اس سے مظلوم انسانوں کو کیا فائدہ ہوتا۔ اس فیصلہ میں ایڈیشنل سیشن جج مسٹر جسٹس سنجے جندال نے خود اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ’’بے قصور لوگ مصیبت سے دوچار ہوئے اور سرکاری ایجنسی کے ذریعہ انہیں ہلاک کیا گیا لیکن تحقیقاتی ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ استغاثہ قتل کے ملزمین کے خلاف ٹھوس ثبوت فراہم نہ کرسکے۔ تمام 16 مجرمین کو محض ’’شک کا فائدہ‘‘ حاصل رہا ، ان کے خلاف یہ ثبوت نہیں دیا گیا کہ واقعی یہی لوگ تھے جنہوں نے ہاشم پورہ میں قتل عام کیا۔ قانون شہادت کے تحت قاتل کی حتمی شناخت ضروری ہے ۔ استغاثہ کے علاوہ جن چھان بین کرنے والی ایجنسیوں کا یہ کام تھا کہ وہ پختہ ثبوت عدالت کو فراہم کرتے، انہوں نے بھی مجرمانہ غفلت برتی اور شواہد کی کمی کی وجہ ملزمین چھوٹ گئے۔ نقصان کس کا ہوا ، نظام قانون نے تو اپنا کام کیا۔ مقدمہ 28 سال سے چل رہا تھا ۔ کئی جج آئے اور گئے ۔ نظم و نسق میں کئی تبدیلیاں ہوئیں۔ کئی سیاست دانوں کو زوال بھی ہوا، کچھ نے عروج بھی پایا لیکن ہاشم پورہ کے مظلوم انصاف کو ترستے رہے ۔ اس مقدمہ کے نتیجہ میں یہ عقیدہ بھی مجروح ہوا ہے کہ عدلیہ ہر صورت میں انصاف کرتی ہے جو کچھ ہوا وہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ 35 انسانوں کے قاتلوں کو کس طرح انجام تک پہنچایا جاسکتا ہے ، اس کیلئے ضروری ہے کہ اس کیس کی از سر نو سماعت کی جائے ۔

پھر سے چھان بین کی جائے ۔ سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات کی جائیں۔ ایک فاسٹ ٹریک عدالت میں اس کی روزانہ بنیادوں پر سماعت ہو ،یہ کام مشکل نہیں ہے ، اس کیلئے سیاسی عزم کی ضرورت ہے ۔ جس وقت ہاشم پورہ کا یہ واقعہ ہوا، اس وقت بی جے پی کے پارلیمان میں صرف دو ارکان تھے ۔ بی جے پی کہیں اقتدار پر نہیں تھی ۔ البتہ کانگریس برسر اقتدار تھی ۔ آنجہانی راجیو گاندھی کی طوطی بول رہی تھی ۔ اس زمانہ میں شیلا نیاس کی انہوں نے اجازت دی تھی ۔ غرض یہ کہنا کہ بی جے پی کا رسمی کوئی عمل دخل درست نہ ہوگا۔ 1984 ء میں آنجہانی اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی کا دور شروع ہوا تھا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی فساد زدہ علاقہ میں کونسی فورس کے کسی بٹالین کو روانہ کیا جاتا ہے اور اس میں کون کون سیاسی یا جوان شامل ہوتے ہیں یہ سرکاری ریکارڈ میں درج ہوتا ہے ۔ موجودہ فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پی اے سی کے جن جوانوں کو ملزمین مان کر پیش کیا گیا تھا ۔ ان کے خلاف پختہ ثبوت نہیں تھے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر پی اے سی کے ان قاتل جوانوں کو جو ہاشم پورہ قتل عام میں ملوث تھے کس نے بچانے کی کوشش کی۔ کیوں ملوث افراد کی صحیح نشاندہی کر کے عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ؟

اس کے پس پردہ کیا سازش ، کیا عوامل کارفرما تھے؟ ان ملزمین نے اگر قتل عام نہیں کیا تو پھر کس نے کیا؟ کسی نہ کسی کے ہاتھ تو معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگے گئے تھے ۔ وہ ہاتھ کیوں چھپائے جارہے ہیں؟ ایسا کرنے کی کیا سیاسی وجہ ہے؟ یہ سارے سوالات کا جواب ڈھونڈنا اور مقدمہ کی پھر سے سماعت کرنا ہی واحد حل ہے کیونکہ ہاشم پورہ کے قاتلوں کی برات نے ہمارے عدلیہ کے نظآم کے لئے کئی چیلنج پیدا کردیئے ہیں۔ عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ عدلیہ کبھی ناانصافی نہیں کرسکتا۔ یہ تو حق و انصاف کا واحد دنیاوی دروازہ ہے ۔ اگر بی جے پی کی مودی حکومت چاہتی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اور سیکولر ذہن رکھنے والے عام باشندے اس پر اعتماد کریں تو وزیراعظم کو ذاتی دلچسپی لیکر ہاشم پورہ قتل عام کیس کی از سر نو شروعات کرنی چاہئے ۔ یہ قطعی ممکن ہے ۔ صرف عدل گری کی ضرورت ہے ۔ ہاشم پورہ کے قتل عام کے بارے میں حیدرآباد کے مشہور شاعر تاج مہجور نے کہا تھا ؎
ایک سانسوں کی گھڑی باندھے بھاگ رہے تھے جو آگے
وردی پہنے موت بھی ان کے پیچھے پیچھے ساتھ چلی