ہاتھ پر ہاتھ دھرنے سے نہیں کوشش سے راستہ پیدا ہو جائے گا

ظفر آغا
یہ ذکر ہے 24 مئی کا، یعنی نریندر مودی کی شاندار فتح سے کوئی 24 گھنٹے بعد! ہوا یوں کہ صبح 9 بجے یکایک میرے فون کی گھنٹی بجی۔ پاکستان سے میرے صحافی دوست مزمل سہروردی کا فون آیا۔ میں نے فون نہیں اٹھایا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ لیکن 11 بجے پھر مزمل کا فون آیا۔ میں پھر ٹال گیا۔ سوچا مزمل ہندوستان میں ہندوتوا طاقتوں کی شاندار کامیابی پر چھینٹا کشی کریں گے۔ ہم لبرل ہندوستانی مودی کی شاندار کامیابی پر یوں ہی پریشان تھے، ایسے ماحول میں بھلا پاکستانیوں کے طعنے تشنے سننے کی کیسے ہمت ہوتی، لیکن مزمل ٹھہرے ایک صحافی، وہ بھی ظاہر ہے کہ ہندوستانی انتخابات پر بات کرنے کو بے چین تھے۔ تقریباً ایک بجے دوپہر مزمل کا فون پھر آیا۔ آخر میں نے فون اٹھا ہی لیا اور ہوا وہی جس کا مجھے اندیشہ تھا۔ مزمل چھوٹتے ہی بولے… ’’کیوں آغا جی، آپ آج ہم سے کترا کیوں رہے ہیں۔ آپ گھبرائیے نہیں۔ ہم آپ کو پاکستان میں سیاسی پناہ گزیں بنوا دیں گے۔ ہم نے تو لاہور میں آپ کے لیے ایک گھر بھی دیکھ لیا ہے۔‘‘ میں نے جھنجھلا کر جواب دیا کہ آپ کو کیسے یقین آگیا کہ ہم پاکستان چلے آئیں گے۔ ہم نے تو آج تک پاکستان میں کبھی قدم بھی نہیں رکھا۔ اب مزمل نے بھی کڑک کر جواب دیا ’’چھوڑیے، دیکھیے ہم نے تو سنہ 1947 میں ہی اسلامک اسٹیٹ آف پاکستان بنا دی تھی اور اس کا اعلان بھی کر دیا تھا لیکن آپ نے اس وقت سیکولرزم کا لبادہ پہنا اور اس کا خوب ڈھنڈورا بھی پیٹا لیکن اب ہم اسلامک ریپبلک آف پاکستان ہیں، اور آپ ہندو ریپبلک آف انڈیا ہیں۔ آپ اس بات سے کتنا ہی منھ پھیر لیں حقیقت یہی ہے اور ہم نے تو کل اپنے ٹی وی شو میں یہی کہا کہ آخر جناح کی دو قومی تھیوری سہی ثابت ہوئی۔‘‘

مزمل کے اس ایک جملے سے لگا کسی نے پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ بس اس کے بعد جلد ہی بات چیت ختم ہو گئی۔ میں نے فون رکھا اور یکایک میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ کیونکہ مزمل نے جو بات فون پر کہی وہ بات کہیں نہ کہیں 23 مئی سے ہر ہندوستانی مسلمان کو پریشان کیے ہوئے تھی۔ انتخابی نتائج سے ہر مسلمان ناخوش ہی نہیں، بے چین اور گھبرایا ہوا ہے۔ اس کو یہ محسوس ہو رہا تھا کہ مانو ان انتخابات سے ایک دوسرا بٹوارا ہوگیا حالانکہ سنہ 1947 میں بٹوارے کے باوجود مسلم اکثریت ہندوستان کو اپنا وطن مان کر یہیں رکی رہی۔ خود میرے والد نے پاکستان جانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ گاندھی جی کے مرید تھے۔ ان کے کمرے میں مرتے دم تک گاندھی جی کی ایک تصویر ٹنگی رہتی تھی۔ انہوں نے ہم کو گنگا۔جمنی تہذیب کا سبق دے کر انہی قدروں میں پالا تھا۔ اب اس ملک میں اسی یقین سے عمر کاٹنے کے بعد کسی پاکستانی کے منھ سے اپنے لیے سیاسی پناہ گزین اورہندو ریپبلک جیسے جملے سننے کے بعد آنسو نہ نکلتے تو اورکیا ہوتا۔ بس یوں لگا کہ سب کچھ بکھرگیا، سب ختم ہوا۔ بس چونک گئے اور یکا یک دل ہی دل سوال اٹھا کیا واقعی اب سب ختم۔

تلخ حقیقت یہی ہے کہ اس ملک کے ہر مسلمان کو 23 مئی سے یہی سوال پریشان کر رہا ہے اور ایک مسلمان ہی کیا،کروڑوں لبرل ہندو بھی اسی طرح پریشان ہیں، لیکن مسلمانوں کی پریشانی ایک قدم آگے ہی ہے۔ وہ گھبرایا ہوا ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش میں ہے کہ آیا اب اس ملک میں اس کے لیے کوئی جگہ بچی ہے کہ نہیں۔ کیونکہ نریندر مودی کوئی اٹل بہاری واجپائی جیسے ہندو لیڈر نہیں ہیں۔ وہ خود کو سَنگھ اور ہندوتوا نظریہ کا ایک سپاہی مانتے ہیں اور وہ گولوالکر اورساورکر کے خیالوں کا ہندو راشٹر بنانے کو ہی اپنی زندگی کا عین مقصد سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے ہندو راشٹر میں اقلیتوں اور بالخصوص مسلم اقلیت کے لیے محض دوسرے درجے کی شہریت کی ہی جگہ بچتی ہے۔ بالفاظ دیگر وہ کم و بیش غلامی کی ہی زندگی بسر کر سکتا ہے، یعنی وہ اب چھوٹے موٹے کام کر سلم جیسی گندی بستیوں میں رہ کر اور ہر قسم کے اختیار سے محروم رہ کر ہی جی سکتا ہے۔ دراصل ہندوستانی مسلمان آج اسی پریشانی سے ایک مرتبہ پھر دوبارہ دو چار ہے جو پریشانی اس کے سامنے 1857 کی غدر کے بعد آن پڑی تھی۔ اس وقت انگریزوں نے مغل سلطنت کا خاتمہ کر محض حکومت ہی نہیں بدلی تھی بلکہ انگریزی دور کے عروج کے ساتھ ساتھ اس ملک کے مسلمان کی پوری طرز زندگی کا نظریہ ہی بکھر گیا تھا۔ اس کی زبان، اس کا تعلیمی نظام، اس کی سیاسی و سماجی فکر، اس کا نظام عدلیہ انگریزوں نے راتوں رات سب ختم کر پورا کا پورا ایک نیا نظام کھڑا کر دیا تھا۔ یہ وہ صورت حال تھی کہ سمجھنا ہی مشکل تھا کہ اس میں کیا کریں، آخر جائیں کہاں۔ کیونکہ پورا نظام بکھر گیا، آگے نئے نظام کو سمجھنے کا طریقہ اور سمجھ ہی نہ تھی۔ مرزا غالب جنھوں نے خود غدر دیکھی تھی، اس وقت کی ذہنی کوفت کو بخوبی یوں بیان کیا:
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے فکر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے
گاندھی اور نہرو کے ’آئیڈیا آف انڈیا‘ کے بکھرنے کے بعد کچھ یہی کیفیت ہے۔ اب سیکولر ہندوستان ختم اورہندوتوا والے ہندوستان میں آگے کیسے چلا جائے، یہ ہندوستانی مسلمان کی سمجھ سے باہر ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ نہرو کے گنگا۔جمنی ہندوستان اور مودی کے نیا بھارت کے بیچ اب صرف ایک لفظ سیکولرزم کا فاصلہ بچا ہے۔ اڈوانی جی پہلے ہی کہتے تھے کہ اندرا گاندھی نے لفظ سیکولرزم آئین میں جوڑا تھا اور ہم کو جب موقع ملے گا تو ہم اس لفظ کو ہٹا دیں گے۔ یعنی اب باقاعدہ ہندو راشٹر کا وقت آگیا اور آخر مودی یہ کام کر کے ہی دم لیں گے۔
بہت سے مسلمان اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ آزادی کے بعد اس کو اس ملک نے دیا ہی کیا! اس کی جھولی میں دَنگوں کی قطار، بابری مسجد کا المیہ، گجرات جیسی نسل کشی، کچھ چھوٹی موٹی نوکریاں، مسلم کوٹے میں ایک دو وزارت جیسے چند ٹکڑوں کے سوا اور ملا بھی کیا۔ لیکن پھر بھی اس ملک ے مسلمان نے کبھی امید کا دامن نہیں چھوڑا تھا۔ 6 دسمبر 1992 میں بابری مسجد المیہ کے بعد بھی وہ اٹھ کھڑا ہوا لیکن مودی کے ہندوستان میں موب لنچنگ، نماز اور اذان پر انگلی اٹھنے کے بعد اور ٹوپی پہننے پر سڑک پر پٹائی جیسے واقعات کے بعد اب بچا ہی کیا ہے۔ جو پردہ تھا وہ بھی ختم۔ وہ اب ایک غیر یقینی اور عدم تحفظ کے احساس سے گھرا ہے جو اس کو مارے ڈالتا ہے۔

ظاہر ہے کہ اس پریشانی کا حل جلد تو ملنے والا نہیں اور اس کا حل کوئی دوسرا دے بھی نہیں سکتا ہے اور نہ دے گا۔ خود اس ملک کے مسلمان کو اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ پہلے اپنے دامن میں جھانک کر دیکھنا ہوگا کہ کیا کیا غلطیاں ہوئیں۔ سب سے بڑی غلطی تو یہ تھی کہ بس حکومتوں پر بھروسہ کر لیا کہ وہ تقدیر بنا دیں گی۔ حکومتیں قوموں کی تقدیر نہیں بناتی ہیں بلکہ عقلمند قومیں حکومتیں بنا اور بگاڑ کر اپنی تقدیر خود رقم کرتی ہیں۔ اس لیے اس اندھیرے سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی ہوگی۔ پھر چلنا سیکھنا ہوگا۔ سرسید کی راہ ہی واحد راہ ہے جس پر چل کر کچھ حل نکل سکتا ہے۔ یعنی سب سے پہلے ہر مسلم مرد و عورت، لڑکے اور لڑکی کو جدید تعلیم سے لیس ہونا ہوگا تب ہی آگے کا راستہ نظر آئے گا۔ ورنہ غلامی ہی مقدر ہے۔ گھبرانے سے کام نہیں چلنے والا۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اچھا برا ہر وقت کٹ جاتا ہے۔ سنہ 1857 اور بٹوارے کا وقت آخر کٹا۔ مودی کا بھی وقت کٹ جائے گا۔ لیکن جذباتی قیادت اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے کام نہیں چلنے والا ہے۔

جہاں تک میرا ذاتی سوال ہے تو ایک بات عرض کر دوں۔ مزمل سہروردی جیسے دوست مجھ کو کیا پاکستان کی لالچ دیں گے، ہم کو تو ہمارے والد بچپن میں ہی سبق سکھا گئے۔ ہوا یوں کہ سنہ 1960 کی دہائی میں جب ہم تھوڑے بڑے ہوئے تو ہمارے والد نے ہم کو ایک روز ایک آپ بیتی سنائی۔ وہ ہم سے بولے کہ سنہ 1947 میں بٹوارے کے وقت ایک سکھ بزرگ ان کے پاس آئے اور انھوں نے لاہور میں اپنے دو بنگلوں کی تصویریں دکھائیں۔ پھر وہ ہمارے والد سے بولے کہ وہ ان کے لاہور والے دو بنگلوں کے عوض اپنے الٰہ آباد کے دو بنگلے دے دیں اور خود پاکستان چلے جائیں۔ تو ہم نے اپنے والد سے پوچھا کہ آخر سنہ 1947 کے اس اندھیرے میں اس وقت پاکستان کیوں نہیں گئے؟ تو انھوں نے بڑے اطمینان سے جواب دیا بیٹا، یہاں ہمارے آبا و اجداد دفن ہیں اور پھر یہ ہمارا وطن ہے۔ دو بنگلوں کے لیے کوئی اپنا وطن تو نہیں چھوڑتا ہے کیونکہ وطن چھوٹا تو پھر واپس تو نہیں ملتا۔‘‘
ہمارے والد کی طرح کروڑوں مسلمانوں نے سنہ 1947 میں ہی جناح کا اسلامک ریپبلک آف پاکستان ٹھکرا دیا تھا۔ بھلا اب ہم پاکستان کی کیا سوچیں گے۔ آخر علامہ اقبال نے یوں ہی نہیں کہا تھا ’’سارے جہاں سے اچھا، ہندوستاں ہمارا‘‘۔ لیکن ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے ہندوستان اچھا نہیں ہو جائے گا۔ کوشش کرنی ہوگی اور بس راستہ پیدا ہو جائے گا۔ یاد رکھیے آپ آج بھی اس ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہیں جس کو جمہوری نظام میں ہمیشہ کچل کر نہیں رکھا جا سکتا۔