نسیمہ تراب الحسن
ایک دفعہ میں اپنی بھابی کے ساتھ پرانے شہر سے بنجارہ آرہی تھی ۔ آٹو والا بیگم بازار کی طرف پلٹا تو میں نے کہا ادھر کدھر؟ کہنے لگا اس طرف ٹریفک بہت رہتی ہے ، دیکھئے میں آپ کو سکون سے لے جارہا ہوں۔ ٹریفک تو وہاں بھی تھی البتہ بس نہیں تھیں۔ آٹو اس کا چلانے والا وہ سوائے خاموشی کے چارہ نہ تھا مگر انجانے راستے پر کچھ نہ کچھ سوالات کرتے رہنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔ میں نے پھر سوال کیا آپ کو یہ راستے کیسے معلوم ہوتے یہ تو ہمارے لئے بھی نئے ہیں۔ کہنے لگا میں یہاں کئی سال سے ہوں، مولانا آزاد یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہوں، پہلے شام کو عربی پڑھنے کی ٹیوشن لیا کرتا تھا پھر آٹو چلانے لگا ، اس میں زیادہ فائدہ ہے ۔ مولانا آزاد یونیورسٹی میں میرا بیٹا پروفیسر ہے لیکن میں نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ کہیں سفارش وغیرہ کا قصہ نہ شروع ہوجائے مگر اتنا ضرور پوچھا کہ کیسی یونیورسٹی ہے؟ اس کا جواب سن نہ سکی کیونکہ ٹریفک زیادہ تھی ۔ موٹر ، موٹر سائیکل اور آٹوز کے ہارن کا ہنگامہ عروج پر تھا ۔ میں کب چپ رہتی کہنے لگی بیکار ادھر سے آئے، وہ سیدھا راستہ تھا، قریب بھی ، ٹریفک تو آج کل ہر طرف رہتی ہے ۔ پھر میں نے سوال کیا آپ اردو پڑھتے ہیں ؟ اس نے بتایا کہ وہ اردو ادب میں کیا کر رہا ہے ۔ اب تو اردو کا ذکر نکلا تو سوالوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا ۔ اردو لکھنے والوں کے متعلق عوام میں کتنی جانکاری ہے ، کا اندازہ کرنے کی خواہش جاگ اٹھی ۔ اس نے جو نام بتائے وہ سب شمالی ہند کے تھے۔ میں نے پوچھا حیدرآباد کے ادیبوں میں کسی کو آپ نہیں جانتے؟ اس نے جو نام لئے تو میں نے کہا یہ تو شاعر ہیں۔ یہاں کے افسانہ نگار ، مضمون نگار کے بارے میں آپ نہیں جانتے ، کہنے لگا مشاعروں میں کبھی کبھی چلا جاتا ہوں ۔ میری بھابی بولیں آپ اخبار نہیں پڑ ھتے ، یہ جو آپ کی آٹو میں بیٹھی ہیں یہاںکی مشہور رائٹر ہیں ۔ ہر ہفتہ ان کا مضمون چھپتا ہے۔ میرا نام بھی بتایا لیکن اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اب ہمارا گھر آگیا تھا ، کرایہ لیتے ہوئے اس نے کہا میں کبھی کبھی کچھ لکھتا ہوں، ایک دن لاکر آپ کو بتاؤں گا۔ میں نے کہا ضرور جب چاہے آیئے ۔
اس واقعہ کو گزرے کافی دن ہوگئے ۔ ذہن سے اس کی یاد بھی نکل چکی تھی۔ مجھے اپنی نئی کتاب جو پبلیشر کے پاس سے آنے والی تھی کا انتظار تھا ۔ جب صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا تو میں نے پبلیشر کو فون کیا ۔ انہوں نے کہا ’’میڈم میں بڑی پریشانی میں ہوں‘‘ میں نے خیریت پوچھی تو بتایا ویسے تو اللہ کا فضل ہے ، ہوا یہ کہ میں آپ کی کتاب لا رہا تھا۔ آپ جانتی ہیں کتابوںکے ڈبے آٹو رکشا میں رکھ کر میں اپنی موٹر سائیکل پر آتا ہوں تاکہ واپسی میں مشکل نہ ہو، آج کل سڑکوں پر ٹریفک کا حال کچھ مت پوچھئے ، ہم ایک چوراہے پر ٹھہرے تھے پھر جو وہاں سے نکلے وہ آٹو نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔ خیال آیا شاید آگے نکل گیا ہوگا کیونکہ کرایے کی بات کرتے ہوئے بنجارہ ہلز تو بتایا تھا ۔ اس راستے پر چلتے ہوئے نظریں اس کو ڈھونڈتی رہیں لیکن اس کا کہیں پتہ نہ تھا ، دماغ ماؤف ہوگیا ، کیا کروں سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔ اگر سوٹ کیس یا کچھ دوسرا سامان ہوتا تو الگ بات تھی۔ پریس سے کتابوں کے ڈبے لے کر اس طرح چمپت ہونا ایک انوکھا واقعہ ہے مگر آپ فکر مت کیجئے ، آپ کی کتاب کا سٹی ڈی تو میرے پاس ہے نا ! دیر ضرور ہوگی لیکن انشاء اللہ آپ کی کتاب آپ کو مل جائے گی ۔ ریسور رکھ کر میں سوچنے لگی آج کل اردو پڑھنے کا شوق و ذوق رکھنے والے انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، تحفتاً کتاب دی جائے تو لے کرمیز پر رکھ دیتے ہیں یا الماری میں سلیقے سے سجادیتے ہیں ۔ یہ اللہ کا بندہ اردو ادب کا ایسا عاشق کہ کئی ڈبے لے کر رفو چکر ہوگیا ۔ مجھے یہ الجھن بھی تھی کہ اردو اکیڈیمی سے مالی امداد کی دوسری قسط لینے کیلئے مقرہ تاریخ پر آٹھ کتابیں داخل نہ کی جا ئیں تو کتاب کا مسودہ منظور ہونے پر جو رقم دی گئی تھی وہ واپس کرنا ہوتی ہے ۔ ان ہی خیالات سے سر چکرا رہا تھا ۔ آٹھ ہزار روپئے کالا دھن رکھنے والوں کیلئے کچھ بھی نہیں مگر ہم جیسے متوسط لوگوں کی آمدنی وہ بھی محنت و ایمانداری سے حاصل کی ہوئی بڑی رقم کے مماثل ہوتی ہے۔ اگر یہ روداد لکھ کر اردو اکیڈیمی کے دفتر میں درخواست دوں تو کون یقین کرے گا ، حیلہ بہانہ اور قلم چلانے کا فن تصور کیا جائے گا ۔ وہ بھی کیا کریں آج میری بات مان کر مجھے مہلت دیدیں تو کل دوسرے سامنے کھڑے ہوجائیں گے ۔ کروں تو کیا ؟ عقدہ حل کرنے کیلئے مشکل کشا کو پکارا ، غفور و رحیم پروردگار عالم کے آگے سر بہ سجود ہوکر دعا مانگی کہ اس الجھن کو سلجھا دے ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آٹو ڈرائیور کا فون آیا ، کہنے لگا آپ کی کتابیں میرے پاس ہیں۔ دراصل مجھے غلط فہمی ہوگئی کہ جو کتابیں میرے آٹو میں وہ کسی بڑے ادیب کی ہیں ، میں نے سوچا کہ انہیں مختلف بک شاپ میں رکھ دوں گا تو معقول رقم ہاتھ آجائے گی بس اس خیال کے آتے ہی میں نے پبلیشر کو چکما دیا ۔ اپنے گھر جاکر ڈبے رکھ دیئے اور کچھ کتابیں لے کر ہمالیہ بک ڈپو پہنچا۔ انہوں نے کہا پچاس فیصد ڈسکاؤنٹ پر ہم لینے کیلئے تیار ہیں ، مجھے سودا برا نہ لگا ۔ دس کتابیں ان کے سامنے رکھ دیں۔ مصنف کا نام دیکھ کر کہنے لگے یہ نہیں لیں گے ، یہ مشہور رائٹر نہیں ، نہ جانے آپ کہاں سے اٹھا لائے ، نا بھائی نا ! ہم معافی چاہتے ہیں۔ میرے دل کو دھکہ لگا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری ، کتابیں اٹھائیں اور حسامی بک ڈپو گیا ۔ انہوں نے بھی انکار کیا اور بولے مشہور مصنف نہ سہی اگر مذہبی کتاب ہوتی تو ہم پھر بھی رکھ لیتے مگر یہ نہیں۔ مجھے یکدم ہر ایک ڈپو یاد آگیا ، فوراً ادھر کا رخ کیا ۔ وہاں پوچھا یہاں اردو کتابیں بیچنے کیلئے رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا ہاں صاحب دیکھئے مجتبیٰ حسین کی کتابوں کا سیٹ ہے ۔ علامہ اعجاز فرخ کی کتابیں ہیں، اقبال متین کی دوسری معیاری نثر و شاعری کی کتابیں ، صرف حیدرآباد کے ہی نہیں بلکہ دوسرے مشہور مصنفوں کی تخلیقات سے الماریاں سجی ہیں ، دکھایئے ، آپ کس کی تصنیف لاتے ہیں؟ کتاب ہاتھ میں لے کر مصنف کے نام پر نگاہ ڈالی ، منہ بناکر بولے یہ کون ہے ؟ ہم واقف نہیں اور آج تک کسی نے ان کی کتاب کی فرمائش کی۔ بھئی ان کا رکھنا مدفضول ہے ۔ اس کے بعد یہ کتابیں کہیں اور لے جانا بیکار تھا ۔ میرے سامنے دو راستے تھے ، ایک تو پریس واپس جاکر ان صاحب کو دے دوں یا آپ کے پاس پہنچادوں۔ آپ کا پتہ اور فون نمبر کتاب میں تھا ۔ میں نے فون کرنا مناسب سمجھا ۔ بتایئے کتابیں پریس لے جاؤں یا آپ کے گھر لے آؤں۔ میں اپنی حرکت پربہت شرمندہ ہوں۔ اس کے اس معصوم جملے پر مجھے چچا غالب یاد آگئے ۔
ہائے اُس زود پشیمان کا پشیماں ہونا
میں نے کہا میرے پاس لے آیئے ، میں سوچنے لگی دنیا کدھر جارہی ہے ۔ مشہور کمپنیوں کا لیبل تو روز مرہ کی اشیاء کیلئے اہمیت رکھتا تھا ۔ اب ادب بھی اس کا شکار ہوگیا ۔ کتاب پر سنہرے حروف میں لکھا مصنف کا نام ، کسی مشہور عالم کا تحریر کردہ پیش لفظ ہی کتاب کی خوبی کا مظہر بن گیا اور نئے اہل قلم کی کتابیں ردی کی حیثیت کی حامل۔ اگر کتاب کی دوکان کے مالک اس قابل نہیں ، ان میں اتنی سمجھ نہیں کہ کتاب کے چند ورق پڑھ کر کتاب کے چند ورق پڑھ کر دیکھیں اردو کیسی ہے ؟ انداز تحریر کیسا ہے ؟ عنوانات کے موضوع آج کے حالات سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں ، طنز و مزاح کے تیور بدلتے زمانے کے ساتھ میل کھا رہے ہیں تو انہیںاپنی دوکان میںایک گوشتہ بنانا چاہئے ’’نئے قلم کاروں کی تخلیقات ‘‘ ۔میری کتاب رکھنے کے انکار سے مجھے افسوس نہیں ، میرے مضامین نہ تو ادبی شہ پارے ہیں اور نہ ہی تحقیق و تنقید کی ٹھوس باتیں ۔ میرا کہنا یہ ہے کہ نئے قلم کاروں کی نگارشات جب تک قاری کے ہاتھوں میں نہ جائیں کیسے پتہ چلے گا ، علم و ادب میں مختلف دریچے کھلے ہیں ۔ نئے لکھنے والوں کی کاوش آنے والے وقت کی ادبی مانگ کو پوری کرنے کی صلاحیت رکھتی یا نہیں کیونکہ قاری ہی اصل جج ہوتا اور ہم ان سے کہنہ مشق ادیبوں شاعروںکے جانشین بننے کی امید وابستہ کرسکتے ہیں یا نہیں۔ بڑے ادیبوں ، شاعروں کی بڑائی اپنی جگہ مسلم ہے لیکن نئی نسل کے قلم کو بھی اہمیت دینا ضروری ہے ورنہ مستقبل میں نئی تخلیقات کتابوں کی دوکانوں کیسے جگہ پائیں گی ۔ اس لئے جیسا میں نے کہا کتابوں کی دوکانوں میں ایک گوشہ ’’نئے اہل قلم کی تخلیقات‘‘ کا ضرور رکھنا چاہئے ۔ میں اس سوچ میں غلطاں بیٹھی تھی کہ آٹو والا میری کتاب کے ڈبے لے لیا ۔ اس کو دیکھتے ہی میں کہہ اٹھی’’ارے آپ‘‘