گیتا امید کی ایک نئی کرن

ڈاکٹر صالح عبداللہ
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے ماحول میں گیتا کی وطن واپسی ایک خوشگوار واقعہ ہی کہا جائے گا ۔ تقریباً 15 برس بعد بولنے اور سننے سے معذور گیتا جب سرخ جوڑے میں ملبوس  دہلی کے ایئرپورٹ پر پہنچی تو عام شہریوں نے اس کا والہانہ استقبال کیا ۔ گیتا کے ہمراہ پاکستان سے پانچ افراد بھی ہندوستان آئے ، جن کا تعلق ایدھی تنظیم سے ہے ، جو فلاحی کاموں کے لئے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے ۔ اس تنظیم نے گیتا کو ایک بچی کی طرح پالا اور گیتا سے والہانہ تعلقات کی وجہ سے وہ اسے وطن تک پہنچانے آئے ۔ گیتا کی واپسی کے لئے ہندوستان اور پاکستان کے سفارتی حکام نے جو کوششیں کیں وہ قابل ستائش ہیں ۔ خاص طور پر ہندوستان آنے کے انتظامات کے لئے وزیر خارجہ سشما سوراج نے جو موثر رول ادا کیا ، اس کے لئے ایدھی فلاحی تنظیم کے بانی عبدالستار ایدھی کے بیٹے فیصل ایدھی نے جو گیتا کے ساتھ ہندوستان آئے ہیں ، خاص طور پر شکریہ ادا کیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ گیتا نے بہار کے مہتو کنبے کے افراد کو پہچاننے سے انکار کردیا ۔ اب ڈی این اے ٹسٹ سے ہی یہ ثابت ہوسکے گا کہ گیتا کے اصل والدین کون ہیں ۔
ہندوستان پہنچنے پر گیتا نے جس طرح کا تاثر دیا ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وطن پہنچ کر وہ کافی خوش ہے ۔ بہار کے مہتو کنبے کے علاوہ اترپردیش کے پرتاپ گڑھ کے رام پور گاؤں کی رہنے والی انارا دیوی اور اس کے شوہر کی آنکھوں میں بھی امید کی نئی کرن چمک اٹھی ہے اور وہ اپنی کھوئی ہوئی بیٹی کو حاصل کرنے کے مقصد سے اپنے ڈی این اے ٹسٹ کرانے جلد دہلی جائیں گے ۔ انارا دیوی اور اس کے شوہر رام راج کا دعوی ہے کہ اس کے پاس کچھ تصویریں ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ گیتا کوئی اور نہیں آج سے 12 سال قبل نانک شاہی مٹھ سے گم شدہ ان کی بیٹی سویتا ہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ اگست کو ان کو ٹی وی کے ذریعہ یہ اطلاع ملی کہ 12 سال قبل ان کی کھوئی ہوئی بیٹی پاکستان کے ایدھی فاؤنڈیشن کی سرپرستی میں رہ رہی ہے اور انہیں امید ہے کہ ان کی بیٹی انہیں دیکھتے ہی پہچان جائے گی ۔ اب گیتا کی جانب سے مہتو کنبے کو پہچاننے سے انکار کئے جانے کے بعد حکام نے اسے اندور کے ایک ادارے میں رکھا ہے ۔ جہاں سننے اور بولنے سے معذور بچوں کی پرورش کی جاتی ہے ۔ اس ادارے میں رہنے والے بچوں کو جب سے گیتا وہاں پہنچی ہے ،کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور وہ اس کی دیکھ بھال کے لئے جوش و خروش کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ۔
گیتا کی ہندوستان آمد کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان جہاں خیر سگالی کی ایک نئی امید پیدا ہوگئی ہے وہیں کچھ ایسے بچوں کے دلوں میں بھی اپنے گھر والوں سے ملنے کی آرزو مچلنے لگی ہے ۔ ایسے ہی بچوں میں محمد رمضان نام کا لڑکا بھی ہے جو 2011 میں بنگلہ دیش سے ہندوستان پہنچ گیا تھا  ۔ وزیراعظم کے دفتر کے ایک افسر آشوتوش شکلا نے بتایا کہ اس سلسلہ میں صدر کے دفتر کو مطلع کیا جاچکا ہے ۔ محمد رمضان اس وقت بھوپال میں بے سہارا بچوں کی پرورش کرنے والے ایک ادارے میں رہ رہا ہے ۔ حال ہی میں پاکستان ہائی کمشنر کی جانب سے اس بچے کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی تھیں ۔ پاکستان کے فلاحی کاموں کے لئے مشہور وکیل انصار برنی نے اس سلسلہ میں دونوں ملکوں کو مکتوب اور دستاویزات بھیجیں  ۔اب امید یہی کی جاتی ہے کہ ہندوستان گیتا کے واپسی کے تحفے کے طور پر رمضان کو پاکستان بھیج دے گا ۔ اسی طرح علی گڑھ کے 24 سالہ سلمان کا معاملہ بھی ہے جو 21 سال پہلے کراچی میں کھوگیا تھا ۔ اب جس طرح سے وزیر خارجہ سشما سوراج نے سلمان کو ہندوستان لانے کا وعدہ کیا ہے اور مقامی انٹلی جنس ایجنسی کے افسران نے سلمان کے گھر والوں سے کاغذات حاصل کئے ہیں اور یہی امید کی جاتی ہے کہ سلمان بھی جلد ہی اپنوں میں واپس آجائے گا ۔
گیتا کی واپسی دراصل اس بات کی علامت ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے ساتھ خیر سگالی اور بھائی چارے کا ماحول قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں شیوسینا کے کارکنان نے جس طرح پاکستانی ادیبوں  ، فنکاروں اور گلوکاروں کی مخالفت کے لئے مہم چھیڑی ہے ، اس سے ہندوستان کے عوام کی اکثریت متفق نہیں ہیں ۔ مشہور گلوکار غلام علی کے ممبئی کے ایک پروگرام کو ناکام بنانے میں خواہ شیوسینکوں کو کامیابی حاصل ہوگئی ہو لیکن اس حرکت کے خلاف جو آوازیں اٹھنی شروع ہوگئی ہیں انہیں آسانی سے دبایا نہیں جاسکتا ۔ شیوسینکوں نے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ کی کتاب کی رسم اجراء کے پروگرام کا اہتمام کرنے والے سدھیندر کلکرنی کے چہرے پر سیاہی ضرور پوت دی ہو لیکن انہوں نے چہرے پر لگی سیاہی کے ساتھ پریس کانفرنس کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ اس قسم کی گیدڑ بھبکیوں میں آنے والے نہیں ہیں ۔ ایک طرف جہاں شیوسینا نفرت کا ماحول پیداکرنے کے لئے اوچھے طریقے اپنارہی ہے تو دوسری طرف ایسے بھی جرأت مند لوگ ہیں جو پاکستان سے محبت کرنے کا اعلان کھلے عام کررہے ہیں اور ان کی حمایت میں دنیا بھر میں ایک بڑا طبقہ ان کے ساتھ آگیا ہے ۔ ممبئی کے رام سبرامنیم نے ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیس بک پر یہ پیغام بھیجا ، میں ایک ہندوستانی ہوں ، میرا تعلق ممبئی سے ہے ، میں پاکستان سے نفرت نہیں کرتا  ، میں اکیلا نہیں ہوں اور میرے ساتھ بہت سارے لوگ ہیں ۔ یہ پیغام اتنا موثر ثابت ہوا کہ ہندوستان اور پاکستان ہی نہیں بلکہ امریکہ ، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات تک یہی امن کا پیغام ہزاروں لوگوں تک فیس بک اور ٹوئیٹر کے ذریعہ ایک دوسرے تک پہنچ گیا ۔ اس طرح کے پیغام سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے عوام ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتے بلکہ وہ ایک دوسرے کے قریب آنا چاہتے ہیں ۔ دونوں ملکوں کے پرامن شہری اس بات سے متفق ہیں کہ دونوں ملکوںکے عوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ ان کے درمیان امن اور بھائی چارہ قائم ہو ۔ دراصل سبرامنیم کے اس پیغام نے لوگوں کے دل جو چھولیا ہے ۔ اب یہ دونوں ملکوں کے سربراہوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے قریب آنے کے لئے کیا مثبت قدم اٹھاتے ہیں ۔ گیتا کی وطن واپسی سے دونوں ملکوں کے درمیان جو خیر سگالی کا ماحول قائم ہوا ہے اس کا فائدہ اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔