گڈس اینڈ سروسیس ٹیکس کا چھوٹی صنعت اور کاروبار پر بڑا اثر‘حیدرآباد کی ’نمائش ‘ میں لگی بیرونی ریاستوں کے اسٹال مالکین کے تاثرات

حیدرآباد۔ حکمران جماعتوں کی جانب سے ملک کی اقتصادی ترقی کے متعلق ایوانوں کے اندر او رباہر بلند بانگ دعوے تو کئے جاتے ہیں اور اقتصادی ترقی کے نام پر پیش کئے جانے والے اصلاحات کودرست ٹھرانے کی ہر ممکن کوششیں بھی کی جاتی ہیں مگر زمینی حقیقت پر کوئی بات نہیں کرتا۔ ہندوستان کی مجموعی آبادی کا بڑا حصہ مزدور پیشہ لوگوں کا ہے دوسرے اور تیسرے نمبر پر نوکری پیشہ اور چھوٹی صنعت سے وابستہ لوگ ہیں صرف ایک فیصد طبقہ ایسا ہے جس کاتعلق کارپوریٹ شعبہ ہے اور حالیہ دنوں میں ائے ایک سروے اکسفام نامی ادارے نے پیش کیا تھا جس کے مطابق ملک کی 73فیصد دولت پر ایک فیصد سرمایہ کاروں کا قبضہ ہے ۔ ایک حساب سے ملک کی معیشت سرمایہ کاروں کے قبضے میں ہے۔

سال2016میں حکومت ہند کی جانب سے نوٹ بندی ( یعنی پرانے پانچ سو اور ایک ہزار نوٹوں کی تنسیخ) عمل میں ائی اس کے بعد سال2017میں گڈس اینڈ سروسیس ٹیکس( جی ایس ٹی ) کا اعلان کیا گیا۔نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا اثر بھلے ہی ان ایک فیصد سرمایہ کاروں کی تجارت پر نہیں پڑا ہوگا جس کی قبضے میں ملک کی 73فیصد دولت ہے مگر چھوٹی صنعت‘ اورچھوٹی پیمانے پر تجارت کرنے والی کا نہ صرف کاروبار اس سے متاثر ہوا بلکہ لاکھوں کی تعداد میں نوجوان بے روزگار بھی ہوگئے ہیں۔

ملک کی کئی ریاستوں میں چھوٹی صنعت سے وابستہ لوگ سڑکوں پر اتر کر جی ایس ٹی کی مخالفت کرنے پر مجبور ہوگئے ۔78ویں کل ہند صنعتی نمائش میں لگائی گئی ریاست ہریانہ کے فتح ہینڈلوم اسٹال کے مالک ہرپریت سنگھ سے جب ہم نے جی ایس ٹی سے تجارت پر پڑنے والے اثر کے متعلق بات کی تو انہوں نے کہاکہ پچھلے 78سالوں سے ان کے دادا نمائش میں اسٹال لگاتے ہیں ‘ اسی اسٹال سے ہونے والی آمدنی کے ذریعہ انہوں نے اپنے چار بیٹوں کی شادی کی ‘ حیدرآباد کی لوگ دل کھول کر خریدی کرتے ہیں‘مگر پچھلے دوسالوں سے کاروبار پر اثر پڑا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کی وجہہ کیا ہے تو ہرپریت سنگھ نے کہاکہ اس کی وجہہ جی ایس ٹی ہے۔ انہو ں نے کہاکہ نہ صرف نمائش میں ان کا کاروبار متاثر ہوا ہے بلکہ ہریانہ میں بھی ان کے کاروبار پر جی ایس ٹی اثر انداز ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے ہریانہ میں ہینڈلوم کلاتھ میں پھیرے والوں کا بڑا کاروبار تھا جو جی ایس ٹی کی وجہہ سے مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے۔

ہرپریت سنگھ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پچھلے سال نوٹ بندی کے باوجود نمائش میں خریدی پر اثر نہیں پڑا تھا مگر اس بار تیس سے 35فیصد کاروبار متاثر ہوا ہے۔پانی پت سے تعلق رکھنے والے پنجاب ہینڈلوم والوں نے بھی جی ایس ٹی کی وجہہ سے کاروبار متاثر ہونے کی بات کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ جی ایس ٹی میں ترمیم کے اعلانات کو توکئے گئے مگر اس سے گاہکوں کو کسی قسم کا نفع نہیں مل رہا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ نمائش میں اس مرتبہ میں جی ایس ٹی کی وجہہ سے ان کا کاروبار میں تیس فیصد کی کمی ائی ہے ۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیاہے کہ جو منافع ہمیں ملنا تھا وہ بھی بہت کم ہی ہوا ہے۔اس کے علاوہ اترانچل کے مسٹر راجو نے کہاکہ وہ بیس سال سے نمائش میں اسٹال لگاتے ہیں مگر اس بار پچاس فیصد کے قریب کاروبار میں کمی ائی ہے اور اس کی وجہہ جی ایس ٹی ہے۔

انہوں نے کہاکہ اگر مرکز ی حکومت چھوٹی صنعت کو نذر انداز کرتے ہیں اس کا خمیازہ بھی حکومت کو بھگتناپڑا گا۔ مسٹر راجونے کہاکہ گجرات اسمبلی انتخابات کے بعد راجستھان میں ہوئی ضمنی انتخابات کے بعد بھی اگر مرکزی حکومت ہوش کے ناخن نہیں لیتی ہے تو وہ ان کا مسئلہ ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ ہم میڈل کلاس لوگ ہیں او راپنے کاروبار کو بچانے اور اس کو ہماری آنے والوں نسلوں کو منتقل کرنے کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔نمائش میں لگی کلاسک چکن کلکشن کے مالک کا کہناہے کہ حیدرآباد کی عوام لکھنوے کپڑوں کے بڑے شوقین ہوتے ہیں اور ہم ہر سال حیدرآباد کی نمائش کے لئے نیا اسٹاک تیار کرتے ہیں ‘ مگر جی ایس ٹی نے اس سال ہماری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ فیکٹری سے لیکر دوکان اور پھر نمائش کے اسٹال تک جی ایس ٹی کا اثر صاف طور سے دیکھائی دے رہا ہے ۔انہو ں نے بتایا کہ وہ پچھلے بیس سالوں سے نمائش میں اسٹال لگارہے ہیں مگر کبھی بھی ان کے کاروبار میں تیس سے چالیس فیصد کی کمی نہیں ائی ہے ۔ مگر اس بار جی ایس ٹی کی ایسی مار پڑی نے کاروبار امید کے مطابق نہیں رہا۔ان کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی کے بعد علاقائی سطح پر بھی لکھنوے کپڑوں کی فروخت میں بڑے پیمانے پر گرواٹ ائی ہے۔ اتر پردیش سے ہی تعلق رکھنے والے ووڈہینڈی کرافٹ( لکڑی کے کام پر مشتمل چیزیں) کی ایک اسٹال پر جب ہم گئی تو انہو ں نے بتایاکہ وہ پچھلے دس سالوں سے نمائش میں اسٹال لگارہے ہیں مگر اس سال ان کے کاروبار پر زیادہ اثر پڑا ہے۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ جی ایس ٹی کی وجہہ سے چھوٹی اور گھریلو صنعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔انہو ں نے مزیدکہاکہ جی ایس ٹی میں بڑے پیمانے پرتبدیلیوں تک منافع بخش تجارت کی امید بے کار جانے والی ہے۔کشمیر کے ایک کپڑوں کی دوکان کے اسٹال کشمیر جنیون آرٹ والو ں نے بتایا کہ جی ایس ٹی سے انہیں کافی نقصان ہوا ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی کے بعد جو قیمت ڈریس میٹریل پر عائد ہوتی ہے اس قیمت کپڑا خریدنے کے لئے گراہک تیار نہیں ہے اور کم قیمت پر فروخت کرکے ہم اپنا نقصان نہیں کرسکتے ‘ لہذا لاگت کی قیمت پر ہمیں ہمارا سامان فروخت کرنا پڑا رہا ہے۔ان کابھی یہی کہنا ہے کہ علاقائی سطح پر تجارت کو جی ایس ٹی کے سبب کافی نقصان ہوا ہے۔صرف نمائش میں اسٹال کے ذریعہ اپنی چیزیں فروخت کرنے والے جئے پور ممبئی چورن گولی اسٹال پر کھڑے نوجوان نے بتایا کہ اس سال انہیں لاگت کے اتنی کمائی بھی نہیں ہوئی۔

مذکورہ نوجوان کا کہنا ہے کہ شروعات سے ہی کاروبارمتاثر رہ ہے اس کی وجہہ جی ایس ٹی ہے کیونکہ جی ایس ٹی کی ادائی کے بعد چورن اور گولیوں کی جو قیمت مقرر کی گئی ہے وہ گراہک کی سمجھ سے باہر ہے اور ہم بھی نقصان میں اپنا سامان فروخت کرنے سے رہے۔کشمیر سے ائے کنگ ڈرائی فروٹ کے اسٹال مالک نے کہاکہ کشمیر سے یہاں پر سامان کی منتقلی کے دوران ٹرانسپورٹ پر بھی ہمیں جی ایس ٹی ادا کرنا پڑا ہے اور اس کے بعد اسٹال کی قیمت ادا کرتے وقت بھی نمائش سوسائٹی والوں نے ہم سے بارہ فیصد جی ایس ٹی وصول کیا ہے۔ انہو ں نے بتایا کہ جی ایس ٹی سے قبل انجیر اگر ہوسل سیل میں پانچ سو روپئے کیلو تھا تو اس کی قیمت ڈبل ہوگئی ہے اور ریٹل میں اس کوفروخت کرنا ہمارے دشوار کن مرحلہ بن گیا ہے۔ کنگ ڈرائی فروٹ اسٹال کے مالک کا کہنا ہے کہ اس سال ان کی تجارت پر پچاس فیصد کی کمی ائی ہے۔

اسی طرح آرکے دلکش کراکری کے اسٹا ل مالک نے کہاکہ سوائن فلو او رنوٹ بندی جیسے مشکل حالات میں ہماری کاروبار پر اثر نہیں پڑاتھا مگر اس بارجی ایس ٹی کی وجہہ سے بڑھی ہوئی قیمتیں ہمارے کاروبار پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جی ایس ٹی کی وجہہ سے جہاں قیمتیں بڑھی ہوئی ہیں وہیں پر گراہک اس بات کوسمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ ہم جان بوجھ کر بڑھی ہوئی قیمتوں پر سامان بیچ نہیں رہے ہیں۔

گراہک کو کہنا ہ کہ اگلے سال جس قیمت پر فروخت کیاتھا اس میں معمولی اضافہ کے ساتھ فروخت کیاجاسکتا ہے مگر جی ایس ٹی کے سبب قیمتیں دوگنی ہوگئی ہیں جس کے متعلق نہ تو حکومت نے کسی قسم کی کوئی وضاحت عام شہریوں سے کی ہے اور نہ ہی ہم انہیں سمجھا پارہی ہیں۔

بیرونی ریاستوں کی کئی ایک اسٹال والوں سے اس بات کی جانکاری حاصل ہوئی ہے کہ بہت سارے گراہک نقدی کے بغیرلین دین کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پی ٹی ایم ‘ کریڈیٹ یاڈیبٹ کارڈ کا معاملہ بھی خریدی پر اثر انداز ہوا ہے۔ اسٹالس مالکان کا کہنا ہے کہ اقتصادی ترقی کے نام پر لائے جانے والے اصلاحات کی وجہہ سے چھوٹی صنعت او رچھوٹے کاروبار سے وابستہ لوگ بری طرح متاثر ہورہے ہیں اور سارے ملک میں چھوٹی صنعت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے ۔اقتصادی ترقی کے متعلق بلند بانگ دعوؤں کی بجائے زمینی حقائق پر بھی حکومت کے ذمہ داران کو ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔