گُم سُمی کے پوشیدہ راز اب افشاء

ڈاکٹر مجید خان
حیدرآباد شہر کی آبادی 60 لاکھ ہے تو ایک خاص قسم کی دماغی بیماری جس کو SCHIZOPHRENIA کہا جاتا ہے ، اس کے مریض کسی بھی وقت 70,000 ہوجائیں گے ۔ اس موضوع پر میں نے بے شمار مضامین حقیقی کیس پیش کرتے ہوئے لکھے ہیں ۔ عوام کو اس کے تعلق سے کافی معلومات حاصل ہیں مگر اپنے قریبی رشتہ داروں میں خاص طور پر اپنی ہونہار نوجوان اولادمیں اس بیماری کی تشخیص کو قبول کرنے میں ذہنی طور پر پس و پیش ہوتا ہے ۔ اس بیماری کا ایک پہلو گم سمی ہے ، جس سے کافی لوگ واقف ہوچکے ہیں ۔ ساری دنیا میں لاکھوں مریض اس بیماری میں مبتلا ہیں اور اس کا خاطر خواہ علاج آج بھی دستیاب نہیں ہے ۔ جاپان سے لے کر افریقہ سے ہوتے ہوئے امریکہ چلے جایئے ، ہر جگہ یہ مریض ملیں گے اور ان سب مریضوں کی بیماری کی علامت ایک جیسی ہی ہوگی ۔ ترقی یافتہ ممالک میں خاص طور پر امریکہ اور یوروپ میں اس پر کافی سائنسی تحقیقات ہورہی ہیں ، نئی نئی مہنگی سے مہنگی دوائیں ایجاد ہورہی ہیں ، مگر بیماری کو قابو میں لانے کی کوئی موثر دوا آج بھی دستیاب نہیں ہے ۔ تشدد اور بے خوابی پر تو قابو پایا جاسکتا ہے مگر گم سمی لاعلاج ہے ۔ اتنی عام بیماری ہونے کے باوجود ہندوستان میں آج بھی ڈاکٹری تعلیم میں اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔

ہونا تو یہ چاہئے کہ ماہرین تعلیمات اس کو اسکول کے نصاب ہی میں شامل کرتے اور اس کی اہمیت کو سمجھتے۔
آج کا مضمون لکھنے کی غرض و غایت مختلف ہے ۔ اس مرض کے تعلق سے کچھ اہم عصری معلومات جن کی عملی اہمیت ہے عوام تک پہنچانا ہے ۔ یہ معلومات ابھی ابھی دریافت ہوئی ہیں ۔ پہلے ایک بار پھر اس عام بیماری کے علامات دہرانا چاہوں گا تاکہ پڑھنے والے سمجھ جائیں ۔
بڑھتی ہوئی گم سمی اس کی سب سے اہم علامت ہے ۔ اس کو سمجھنے اور پہچاننے تک بیماری دماغ میں گھر کرلیتی ہے اور بیماری ناقابل علاج ہوچکی ہوتی ہے۔ فرسودہ عقیدوں پر یقین کرنے والے آسیب اور اثرات سمجھ کر صحیح علاج نہیں کرواتے ہیں جو سرپرستوں کی خطرناک بھول ثابت ہوتی ہے ۔ والدین اور خاص طور سے بھائی ، بہن اور زیادہ ملنے والے لوگوں کا یہ فریضہ ہوتا ہیکہ جب وہ کسی دوشیزہ یا نوجوان لڑکے میں یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ گم سمی کے ابتدائی مرحلوں میں ہے تو اس کو زبردستی باہر کھینچ لائیں ورنہ بعد میں یہ کام بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔گم سُم لوگ اپنی پسند اور مرضی سے علحدگی پسندی اختیار کرتے ہیں ۔ وہ نہیں جانتے کہ یہ دماغی بیماری ہے ۔ والدین زبردستی نہیں کرتے ۔ بچے اکثر یہ عذر کرتے ہیں کہ ہم فلاں فلاں لوگوں کو پسند نہیں کرتے اور والدین مجبور ہوجاتے ہیں اور مرض بڑھتا جاتا ہے ۔
افسوس کی بات تو یہ ہیکہ مریض اس کو مرض نہیں سمجھتا ۔ تازہ ترین تحقیقات سے یہ پتہ چلا ہے کہ عقلی معیار اور گم سمی دو علحدہ کیفیات ہیں ۔ گم سم شخص عقلی اعتبار سے کافی اونچے درجے کا ہوسکتا ہے ، مگر جس طرح کہ اچھے عقلی معیار کیلئے دماغ کے اوزار بہترین طریقے سے کارکرد ہوں اسی طرح سماجی میل ملاپ ، دوسروں سے بلا تکلف ملنا اور قریبی لوگوں سے بھی کترانا سے لے کر دماغ کے خاص پرزے کارکرد ہوتے ہیں ۔ گم سمی کی شروعات سے یہ راستے ویران ہونے لگتے ہیں اور دماغ کی جسامت بھی یعنی حجم سکڑنے لگتا ہے ۔ یہ ایک سنگین دماغی کیفیت ہے جو آج تک بھی لاعلاج ہے ۔ میں اہم معلومات سہل انداز میں پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ بیماری کم عمری ہی میں شروع ہوتی ہے ۔ اس میں تشدد اور بکواس اور شک و شبہات نہیں ہوتے یعنی علانیہ پاگل پن کی علامتیں نہیں ہوتیں ۔

ساری دنیا میں اب توجہ اس خاموش بدلے ہوئے برتاؤ پر کی جارہی ہے کیونکہ اس کیفیت کے پیچھے دماغ کی تر وتازگی مرجھانے لگتی ہے اور مریض آہستہ آہستہ اپنے ماحول سے کٹتا جاتا ہے ۔ سماج سے نفرت نہیں ہوتی بلکہ یہ مریض دوسروں کی صحبت پسند نہیں کرتے ۔ اس کیفیت کو اب ایک نیا نام دیا گیا ہے Social Cognition۔یعنی دوسروں سے تعلقات قائم اور برقرار رکھنا کوئی معمولی دماغی عمل نہیں ہے بلکہ اسکے پیچھے ایک پیچیدہ اعصاب کا جال کام کرتا ہے ۔
سب سے پہلے دماغ اپنے جذبات اور دوسروں کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ تعلقات کی پہلی کڑی ہے ۔ یہیں پر غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں ، دوسری کڑی ہے دوسروں کے حرکات و سکنات اور ارادوں کی صحیح یا غلط ترجمانی کرنا ۔ ظاہر ہے مریض کا اندرونی دماغ لوگوں کے تعلق سے غلط ترجمانی کی بنیاد پر ان سے دوری اختیار کرتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرض پھیل گیا ہے اور ناقابل علاج ہوچکا ہے ۔ یعنی ڈاکٹروں کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ اس میں دواؤں سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا ۔ رشتہ دار ہی اس کا تدارک کرسکتے ہیں ۔ جسکے تعلق سے لائحہ عمل زیر تحقیقات ہے ۔ اس مضمون سے آخر کیا سبق سیکھا جاسکتا ہے ۔ بیماری عیاں ہونے کے بعد تو علاج سود مند نہیں ہے ، مگر لوگوں سے تعلقات بھرپور رکھنے کی اہمیت پر زور دینا چاہئے ۔

خیر میرا مرکزی خیال ہر مضمون میں نفسیاتی امراض کے تعلق سے ہوتا ہے مگر آج کا موضوع سب کیلئے خاص طور سے 4 سال سے لیکر 21 سال کے بچے اور بچیوں کے سرپرستوں کیلئے ہے۔ ارباب مدارس نصابی تعلیم کو مکمل کرنے کی فکر میں صحتمند شخصیت اور صحتمند دماغی صلاحیتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ نصاب کے علاوہ طلباء کی سماجی مہارت پر بھی نظر رکھئے ۔ اگر ماں باپ خود علحدگی پسند ہیں تو یہ کمزوری بچوںمیں ایک قدرتی عمل کی طرح پیدا ہوجاتی ہے ۔ ماں باپ کا فریضہ ہے کہ اپنی نفسیاتی کوتاہیوں کا شکار اپنے بچوں کو نہ ہونے دیں ۔ جس طرح سے آپ محسوس کرتے ہیں کہ بچے ریاضی میں کمزور ہیں یا تلگو زبان میں ، توآپ زائد توجہ ان پر دیتے ہیں ۔ اسی لئے دوسروں سے ملنے ملانے کی صلاحیتوں کو بھی مہارت میں تبدیل کیجئے ۔ اکثر میں دیکھتا ہوں کہ شادی کے چند دنوں پہلے ماں باپ بچیوں یا بچوں کو لے کر آتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب یہ لڑکا یا لڑکی ضرورت سے زیادہ کم سخن ہے ۔ شادی مقرر ہوچکی ہے ، آپ دوائیں لکھ دیجئے تاکہ وہ ذرا چاق و چوبند ہوجائے ۔ یہ سمجھئے کہ ہم بھی سنگھار کرنے والوں کی شادی کے کاموں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں ۔ جب ہم مشورہ دیتے ہیں کہ یہ دو نفوس کے مستقبل کا معاملہ ہے ۔ کچھ دنوں تک ہم ان کو نفسیاتی امتحانات کے دور سے گذاریں گے پھر ہمارے معلوماتی کتابچوں سے ان کو آشنا کرائیں گے ۔ لڑکی اور خاندان والے اس کو پڑھیں اور پھر ان معلومات کی بنا پر ہم آپ کو مشورہ دیں گے کہ لڑکا یا لڑکی شادی کے قابل ہے یا نہیں ۔ جسمانی طور پر تو صحتمند نظر آتے ہیں مگر ازدواجی نفسیاتی تعلقات کے معاملے میں اگر وہ صفر ہوں تو پھر شادی بے معنی ہوجائے گی ۔پھر یہ لوگ بحث کرنا شروع کرتے ہیں کہ شادی کی پوری تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں ۔ تاریخ مقرر ہوگئی ہے ۔ شادی خانہ بھی لے لیا گیا ہے ۔ اب ذرا نسخہ دے دیجئے ہم کو یقین ہیکہ آپ کے ہاتھوں میں شفاء ہے اس لئے فائدہ ضرور ہوگا ۔ یہی ہیں ہمارے آج کل کے سماجی مسائل ۔ شادی ایک باہمی تعلقات کا سفر ہے ۔ اسی لئے اس کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ہر مریض کے ساتھ میرا یہ رویہ ہوگیا ہے کہ پہلے مشاورتی مرحلے میں مرض کے تعلق سے رشتہ داروں کو تعلیم دیں اور پھر علاج کی طرف توجہ دی جائے ۔

اب یہ پتہ چلالیا گیا ہیکہ دماغ میں ہر کام کیلئے اعصاب کی شاہراہیں اور مختلف جذبات کیلئے علحدہ مراکز ہیں ۔ باہمی تعلقات کا قائم کرنا دوسروں پر بھروسہ کرنا اور ان کی حرکات و سکنات کی صحیح ترجمانی کرنے کے لئے ان راستوں پر چھلنیاں (Filters) لگی ہوئی رہتی ہیں جو بے بنیاد شکوک و شبہات کو وہیں روک دیتی ہیں ۔ لوگوں سے عمداً دوری شکوک کی بنا پر اور وہ بھی بے بنیاد شکوک کی وجہ سے دماغ کی کارکردگی میں خرابی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ غیر پسندیدہ اور پسندیدہ لوگوں سے ملتے رہنے سے غلط فہمیاں دور کرنے کا نظام مستحکم ہوتا جاتا ہے ۔ جب ان بے بنیاد تصورات کی بنا پر بچے یا بچیاں اپنی علحدگی پسندگی کا رویہ اختیار کرلیتے ہیں اور اس کے ساتھ جب ضد اور غصہ بھی شامل حال ہوجاتا ہے تو پھر اللہ کی پناہ ۔