گُل بانو

سید باسط حسین
میڈیکل کالج کی طالبہ گل MBBS کے چوتھے سال میں زیر تعلیم تھی ۔ خوبصورتی کے ساتھ تعلیم میں کافی ذہین لیاقت اور قابلیت کی وجہ سے صفحہ اول کی طالبہ تھی ۔ سال اول سے ہی ہر امتحان میں امتیازی نشانات سے کامیابی حاصل کر کے کالج کی روح رواں بن گئی تھی ۔ اپنی ذہانت محنت کی وجہ سے کالج میں کافی شہرت حاصل کرچکی تھی ۔ کالج کے دل کی دھڑکن بن گئی تھی ۔ اپنی علمی برتری و قابلیت سے کالج کی آبرو و عزت تھی اور تمام پروفیسروں کی آنکھوں کا تارہ بنی ہوئی تھی ۔ کالج کی کوئن کہلاتی تھی ۔ کالج کے تمام طلباء بھی اس کی تعلیمی قابلیت کی وجہ سے عزت کرتے تھے ، وہ اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ اور دھیان دیتی ، فاسد خیالات و نظریات سے کافی دور رہتی ، اس کا ایک ہی مقصد تھا امتیازی نشانات سے کامیابی حاصل کرے ۔ معیاری خاندان ہونے کی وجہ سے پاکیزہ صاف ، ستھرا ماحول اور خوش اخلاق زندگی بسر کر نے کی عادی تھی ، وہ معاملہ فہم ، خوش گفتار اور تعلیم پر خاص دسترس رکھتی تھی ۔ قدرت نے اسے حسن و جمال و زکوٰۃ خوب عطا کی تھی ۔ پیشہ طب کی معیاری تعلیم کی وجہ سے اس کا طرز زندگی و پوشاک بہت معیاری تھا ۔ عملی پا کیزگی علمی برتری اور شائستگی کی وجہ سے اس کے معیاری خاندان کا پتہ چلتا تھا ، کالج کا ہر طالب علم اس کی تعلیمی قابلیت ، صلاحیت کی وجہ سے اس سے دوستی اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا لیکن وہ بہت کم بات کرنے والی حتیٰ کہ اپنے کلاس کی لڑکیوں سے بھی بہت کم بات کرتی، صرف تعلیم پر زیادہ توجہ دیتی ۔ گل بہت ہی دور اندیش محنتی وقت کی قدر کرنے والی حساس اور ذہین لڑکی تھی ۔ گل کا تعلق بھوپال سے تھا ، اس کی خو اہش تھی کہ MBBS مکمل کرنے کے بعد والدین کا سہارا بنے اور مریضوں کی خدمت کرے ۔

گل کی کلاس میں ضحاک بھی تھا ، وہ کشمیر کا رہنے والا نوجوان تھا ، وہ گل پر فریفتہ تھا ، اس کی خوبصورت اداؤں اور اس کی مخمور نگاہوں پر دل و جان سے پیار کرتا لیکن اس کی برتری اور غلبہ کے سامنے اظہار پیار کرنے سے گھبراتا تھا ۔ خدا نے اسے بہت خوبصورتی عطا فرمائی تھی ۔ گل کی غزالہ آنکھ گال گلابی سرخ پنکھڑی ہونٹ ، ابھری ہوئی نوکدار ناک ، سراحی دار گردن پرکشش بدن تھا ۔ کالج کی روح رواں طالبہ ہونے کی وجہ سے لب کشائی کرنے کی ہمت نہیں تھی ۔ حسن اتفاق سے ایک دن دونوں کا آمنا سامنا ہوگیا ۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔ دونوں کے شعلہ افرو نگاہ سے دونوں کے قرمن دل بے قابو ہوگئے۔ نظروں کے تصادم نے دونوں کو ایک کردیا ۔ ابھی کھلنے والی کلی سے ہم آہنگی پیدا ہوئی ۔ بڑی خوش اسلوبی سے دونوں میں چاہت و پیار جاگا ۔ پیار کیا نہیں جاتا پیار ہوجاتا ہے ۔ مرد و زن کے اختلاط کی فضاء نے دونوں کو جگایا ۔ ہم پیالہ ہم سفر ہم نوالہ بن گئے ۔ دونوں بے گانے اجنبی اچانک شیر و شکر بن گئے ۔ کالج کے دلوں کی دھرکن ضحاک کے پیار میں آگئی ۔ سپنوں کی رانی بن گئی ۔ دونوں کا الگ الگ مقام الگ شہر ایک مذہب ، ایک زبان ، ہم جماعت ہونے کی وجہ سے بڑی اسانی سے دونوں میں پیار و دوستی بڑھی ۔ سب قسمت کے کھیل ہیں ، بہت ہی لطیف انداز میں گل کو خوش کرنے پیار کا اظہار کرنے کیلئے بڑے پیارے انداز میں کہا ، میں تمہارا صابن اور ٹوتھ پیسٹ بن کر تمہارے پاکیزہ پرکشش بدن سے چمٹ جاؤں ۔ اس کے شعور میں پیار کی طغیانی آئی حسن جاگتا ہے ، دو جسم ایک ہوجاتے ہیں ۔ دونوں میں قرب پیدا ہوتا ہے ، بڑی خوش اسلوبی سے دونوں میں ہم آہنگی پیدا ہوگئی، سب قدرت کے کھیل ہیں۔ دونوں کی زندگی میں وقفہ آگیا ، سالانہ امتحان قریب تھا، امتحان کی تیاری کرنی تھی ۔ دونوں بھی امتحان کی تیاری میں مصروف ہوگئے ۔ میڈیکل نصاب عجیب ہوتا ہے ، پورے نصاب پر عبور ہونے پر ہی زبانی اور تحریری امتحان میں ہر سوال کا جواب دینے میں آسانی ہوتی ہے ۔ دونوں بھی امتحان میں کامیاب ہوگئے ۔ کامیابی کے بعد ضحاک اچانک ڈرامائی انداز سے غائب ہوگیا ۔ راہ فرار اختیار کیا ۔ ہوسکتا ہے اپنے وطن چلا گیا ہو اور والدین کے اصرار پر شادی بھی ہوچکی ۔ ضحاک نے گل کے پیار کو روند ڈالا ۔ خالی ہی ہاتھ جانا ہو تو پیار کیوں کیا۔ دوستی کیوں کیا پرتشدد موڈ اختیار کیوں کیا ۔ سامان تجارت سمجھ کر اس کے پیار کا مذاق اڑایا کیوں ؟ اعتماد کے دامن میں داغ لگایا کیوں ؟ طرح طرح کے سوالات اس کے دماغ میں آرہے تھے ، اس کی بے وفائی پر غصہ آرہا تھا ۔ ہم جگنو ہیں ، ہم کو چمکنا آتا ہے ، کہہ کر مریضوں کی خدمت شروع کردی ۔ باکرہ رہ کر تنہائی کی زندگی اختیار کرتے ہوئے میڈیکل پراکٹس ہی ضروری سمجھی تاکہ گوشۂ گمنامی کا داغ مٹ جائے اور شب و روز گزرتے چلے گئے ۔ حسن اتفاق سے اس کی پراکٹس بام عروج تک پہنچ گئی جو اس کی خوش قسمتی تھی ۔
دو سال بعد ضحاک کو گل کی یاد آہی گئی ۔ گل کو ڈھونڈتے ہوئے تلاش کرتے ہوئے گل کے کلینک تک پہنچ گیا ۔ مریضوں کی طویل قطار دیکھ کر چپ چاپ بیٹھ گیا ۔ مریض تمام جانے کے بعد گل نے کہا تم بہت دیر سے بیٹھے ہوئے ہو ، آؤ بیٹھو بتاؤ کیا تکلیف ہے۔ اس نے ڈاکٹری انداز میں پوچھا ۔ ضحاک ڈرتے ڈرتے سہم کر پوچھا گل کیا تم نے مجھے پہچانا۔ اپنے غصہ اور جذبات کو قابو میں رکھ کر گل نے بے ساختہ جواب دیا ۔ شکران نعمت کو ٹھکرانے والے حسن کی ملکہ کو دھوکہ دینے اور شاخ نازک پر اپنا آشیانہ بنانے والے کو کیوں نہیں جانتی۔ گوشۂ گمنامی میں رکھ کر بے لنگر جہاز کے مانند لڑ کھڑاتے چھوڑ کر فرار ہونے والے وقفہ وقفہ سے چولا بدلنے والے میرے پاک دامن کو داغ لگانے والے کو کون بھول سکتا ہے ۔ میری زندگی کا چراغ بجھادیا تم نے ۔ تمہیں پرانے یادگار لمحے یاد کیوں نہیں آئے۔ میری شگفتگی و جوانی کا کیا مول دیا تم نے ۔ اتحاد کا نشیمن جلادیا تم نے وفا یاد نہیں وفا کیا ہوتا ہے ۔ عمر بھر کا داغ دیا۔ پیار کی بے وفائی سے بغاوت جاگ جاتی ہے ۔ عورت کا حقیقی زیور شرم و حیا و پیار ہوتا ہے ۔ پیار کو نبھایا نہیں تو نے ، پیار و دوستی کے پاک رشتہ کو تم تماشہ بناکے مذاق اڑایا۔ تم جس خوبصورت طوفانی انداز میں میرے پیار میں داخل ہوئے ، اس ڈرامائی انداز سے وداع ہوگئے ۔ غصہ اس بات پر تھا کہ جانے کے بعد تمہارے جانے کی وجہ اور مجبوری خط کے ذریعہ بتاسکتے تھے۔ جلاد کی آنکھوں میں مروت نہیں ہوتی۔ ہماری فقید المثال دوستی کا مذاق اُڑایا کیوں ۔ موسمی پرندوں جیسا مقام بدلنے والوں سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے ۔ تم نہ ملے ہوتے ہم نہ ملے ہوتے ، دوستی نہ کی ہوتی ۔ ہم راز نہ بنے ہوتے ہم سفر نہ ہوئے ہوتے ، تم نے ہمارے تمام خوابوں ، امنگلوں اور خواہشوں کو شہید کردیئے ۔ جہاں اصولوں پر آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے تم دو قدم نہیں آتے چاندنی آسمان سے آتی ہے۔ میری نگاہیں تمہاری متلاشی تھیں۔ جس طرح تم آج آئے ہو ، کاش اگر دو سال پہلے تلاش کر کے آتے تو معاملہ کچھ اور ہوتا ۔ تم ایک نہیں چار شادیاں کرسکتے تھے ۔ میں تمہارا تعاون کرتی لیکن تم نے مجھے بے وفا سمجھا سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاسکتی ہے۔ ضحاک بھیگی بلی کی طرح چپ چاپ بیٹھا گل کی باتیں سنتا رہا ۔ چپکے چپکے آنسو بہانے سے کچھ ہونے والا نہیں جو ہونا تھا ، ہوچکا تیر کمان سے نکلنے کے بعد کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ دو بدن جب پیوست نشاط ہوئے شاخ حیات سے محبت کا پھول نمودار ہوتا ہے لیکن گل بڑی چالاک و شاطر دور اندیش معاملہ فہم تھی ، ناجائز حرکتوں سے پاک رہی اور اپنے دامن کو داغدار ہونے سے بچالیا ۔ جو اس کی پاک دامنی کا ثبوت تھا ۔میں تم سے اپنا انتقام کیا لوں گی ، تم دغا دیتے رہے ، میں دعا کرتی رہوں گی جو میرے اخلاق ہیں۔ تم سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ۔ جاؤ اپنی بیوی کے ساتھ خوش رہو اور ارام سے رہو ، میں اپنی باکرہ اور تنہائی کی زندگی میں خوش رہوں گی ۔ مثیت الٰہی کا ایسا ہی فیصلہ ہے۔