گوڈسے پر سیاست بنگال میں الیکشن کمیشن کا رویہ

رویش کمار
اس بات کو یونہی نظرانداز نہیں کردینا چاہئے۔ اس پر غور کرتے ہوئے دریافت کرنا چاہئے کہ وہ کونسی طاقتیں ہیں، کون لوگ ہیں، اور کون سے سیاسی گروپ سے وہ رابطے میں رہتے ہیں کہ وہ بار بار گاندھی جی کے قاتل کو اوتار قرار دیتے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ گوڈسے کو محب وطن قرار دیا گیا۔ بھوپال لوک سبھا حلقہ کی امیدوار (جو منتخب ہوچکی ہے) پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا کہنا ہے کہ ناتھورام گوڈسے محب وطن ہے۔ وہ دہشت گرد نہیں تھا۔ 2014ء میں بی جے پی ایم پی ساکشی مہاراج نے مہاراشٹرا میں ایک پروگرام کے دوران گوڈسے کو قوم پرست قرار دیا تھا۔ گوڈسے کا یوم پیدائش مہاراشٹرا میں ’شوریہ دیوس‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پھر بی جے پی نے ساکشی مہاراج کے بیان کو مسترد کردیا۔ مہاراج کو دوبارہ اِس الیکشن میں یو پی سے امیدوار بنایا گیا۔ اس کے باوجود گوڈسے کے حامی بی جے پی میں سے ہی برآمد ہوئے۔

گاندھی جی کے قتل کے 71 سال بعد بھی گوڈسے کی مورتی بنائی جارہی ہے۔ اسے محب وطن قرار دیتے ہوئے اُس کی جینتی تقاریب منائی جارہی ہیں۔ گاندھی جی کے قاتل کو محب وطن بتانے میں اتنی جلدی کیوں ہے؟ کانگریس پارٹی کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے پرگیہ ٹھاکر کے گوڈسے کے بارے میں محب وطن کے بیان پر سخت تنقید کی اور مطالبہ کیا کہ امیت شاہ اور وزیراعظم نریندر مودی کوردعمل ظاہر کرنا چاہئے۔ گزشتہ سال ’ابھینو بھارت‘ کا پنکج فڈنیس سپریم کورٹ سے رجوع ہوا کہ گوڈسے کی سزا پر دوبارہ شنوائی کی جائے۔ عدالت نے یہ کیس کی سماعت سے انکار کردیا۔ لیکن اس کے بعد بھی گوڈسے کے حامیوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو گوڈسے کا یوم پیدائش مناتے ہیں۔ گوڈسے کی مورتی کی رونمائی 2 اکٹوبر 2016ء کو گاندھی جینتی پر میرٹھ میں کی گئی۔ آل انڈیا ہندو مہاسبھا کے لوگوں نے گاندھی جینتی کو ’دھنکر دیوس‘ کے طور پر منایا۔ 2017ء میں ہندو مہاسبھا کے لوگوں نے چاہا کہ گوالیار میں گوڈسے کی مندر تعمیر کی جائے؛ حکومت نے اجازت نہیں دی۔ ہمارے درمیان ایسے عناصر ہیں جو گاندھی جی کے قتل کو تازہ کرتے رہنا چاہتے ہیں۔ قتل کے غضب کو حب الوطنی میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟

پوجا شکون پانڈے آل انڈیا ہندو مہاسبھا کی نیشنل سکریٹری ہے۔ 30 جنوری 2019ء کو ایک ویڈیو وائرل ہوا۔ اس میں پوجا کو گاندھی جی کی تصویر سے بنائے گئے پتلے پر فائر کرتے دکھایا گیا اور خون بہہ رہا ہے۔ ایک بات یقینی ہے کہ بعض لوگ گاندھی جی کے قتل کے واقعہ میں ہی جینا چاہتے ہیں۔ یہ حرکت گاندھی جی کا بناؤٹی قتل نہیں بلکہ سماج میں قاتلوں کو تیار کرنے کی مشق ہے جو سمجھیں گے کہ گاندھی جی کو قتل کرنا اور کسی بھی دیگر کو قتل کردینا حق بجانب ہے۔ پوجا کی فائرنگ کے بعد مٹھائی تقسیم کی گئی۔ اس ویڈیو میں پوجا اکیلی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ کئی لوگ ہیں۔ وہ سب گاندھی جی کے قتل کو منصفانہ بتانے کوشاں ہیں۔ پوجا کو گرفتار کیا گیا مگر موجودہ طور پر وہ جیل سے باہر ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ گوڈسے کے حامیوں کا راست یا بالواسطہ بی جے پی سے تعلق رہتا ہے۔

مشہور ایکٹر کمل ہاسن نے کہا تھا کہ آزاد ہندوستان میں پہلا دہشت گرد گوڈسے رہا۔ پرگیہ نے شدید ردعمل میں گوڈسے کو محب وطن قرار دیتے ہوئے جوابی حملہ کیا کہ جو لوگ ایسا کہہ رہے ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں۔ بی جے پی قیادت کے دباؤ پر بادل ناخواستہ پرگیہ نے معذرت خواہی تو کرلی لیکن بی جے پی کمل ہاسن کے خلاف الیکشن کمیشن سے رجوع ہوئی۔ حالانکہ پرگیہ کو شہید ہیمنت کرکرے کی بے عزتی کرنے پر بھی بی جے پی نے اسے نظرانداز کردیا۔
بنگال کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں ودیاساگر کا مجسمہ توڑنے کے واقعہ نے ترنمول کانگریس اور بی جے پی دونوں پارٹیوں کو متحارب کردیا۔ ہمیں موصولہ بعض ویڈیو کلپس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بی جے پی ورکرز ودیاساگر گیٹ پر ہلہ بول رہے ہیں۔ یہ ویڈیو الیکشن کمیشن کو پیش کی گئی۔ ترنمول لیڈر ڈیرک اوبرین نے کئی ویڈیوز ٹوئٹ کئے اور الیکشن کمیشن کو بھی پیش کئے۔ ہم نے بنگال بی جے پی کے انچارج کیلاش وجئے ورگیا کے ٹوئٹر ہینڈل پر نظر دوڑائی کہ ودیاساگر مجسمہ کے تشدد سے متعلق کوئی ویڈیو مل جائے۔ لیکن کیلاش نے اپنی پارٹی کی تشہیر والی ویڈیو اَپ لوڈ کی۔ یہ ویڈیو بنگالی زبان میں بنائی گئی جو خلاصہ میں کہیں تو فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے اور تفرقہ پیدا کرنے والے مواد پر مبنی ہے۔ اس میں مذہبی علامتوں کا استعمال کیا گیا۔ رام اور لکشمن کے امیج ہیں۔ صدر بی جے پی امیت شاہ کے کولکاتا میں منعقدہ روڈشو میں رام کا بڑا مجسمہ رکھا گیا۔ ’جئے شری رام‘ کے بلند نعرے لگائے گئے۔ ممتا بنرجی (چیف منسٹر مغربی بنگال) کو مخصوصی مذہبی برادری کی حامی کے طور پر دکھایا گیا۔ ایسا باور کرایا گیا کہ وہ ہندوؤں کو ہلاک کردیں گی۔ اگر واقعی الیکشن کمیشن چوکس اور غیرجانبدار ہوتا تو وہ ضرور کارروائی کیا ہوتا۔ حالانکہ ممتا بنرجی بار بار کہتی رہیں کہ بی جے پی قائدین تشدد بھڑکانے کی تیاری کررہے ہیں۔ بہرحال 15 مئی کو ممتا بنرجی نے ودیاساگر کے احترام میں جلوس نکالا۔ممتا بنرجی کا کہنا ہے کہ ایک سیاہ مجسمہ وزیراعظم کا ہونا چاہئے جو جن سے مجھے ایمرجنسی کی یاد آتی ہے۔

کولکاتا میں امیت شاہ کے روڈ شو کے دوران تشدد پر الیکشن کمیشن نے 9 سیٹوں کیلئے انتخابی مہم کو 20 گھنٹے پیشتر روک دیا۔ جھگڑا بی جے پی اور ترنمول کے درمیان ہوا، لیکن سزا کانگریس کو بھی ملی، سی پی ایم اور دیگر کو بھی۔ آخر کیوں الیکشن کمیشن نے مہم کو 20 گھنٹے پہلے روک دیا، اس کا جواز ہنوز سمجھ نہیں آیا ہے۔ دلچسپ امر دیکھئے کہ بی جے پی خود الیکشن کمیشن سے شکایت کررہی ہے کہ بنگال کے معاملے میں ای سی کا عمل منصفانہ نہیں ہے۔ حالانکہ الیکشن کمیشن نے امیت شاہ کے روڈشو پر یہ سوال اٹھانے کی جرأت نہیں کی کہ آیا یہ مذہبی روڈ شو تھا یا سیاسی؟ کیا الیکشن کے وقت مذہبی تصاویر کے ساتھ روڈ شوز منعقد کئے جاسکتے ہیں۔ آیا چیف الیکشن کمشنر نے بنگال کے نگران کار سے دریافت کیا کہ کس کی اجازت سے مذہبی سفر نکالا گیا؟ امیت شاہ کے روڈ شو کے کیا کوئی دیگر مقاصد نہیں تھے؟ کیا اس طرح کے روڈ شو کا پرمیشن کوئی دیگر پارٹی کو بھی دیا جاسکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے پہلے کہہ دیا ہے کہ مذہبی جذبات اور علامتوں کا استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ جب عدالت نے کمیشن سے دریافت کیا تھا، اعظم خان اور یوگی ادتیہ ناتھ نیز منیکا گاندھی کو بھی مختلف وجوہات کی بناء انتخابی مہم جاری رکھنے سے مختلف مدت کیلئے روک دیا گیا تھا۔ آیا کمیشن ہندوستان کے عوام کو بتاسکتا ہے کہ اس قسم کی مذہبی ریلی کس کی اجازت سے منعقد کی گئی ہے؟ کیا سپریم کورٹ اس کا نوٹ لے سکتا ہے؟ یہ اہم معاملہ ہے، کیوں اس پر مباحثہ نہیں ہورہا ہے۔ ہم الیکشن کے میدان میں ہیں یا رام لیلا میدان میں گھوم رہے ہیں؟
ravish@ndtv.com