گوشت کھانے پر پابندی

مہاراشٹرا میں گوشت کی فروخت پر پابندی اور چار روزہ گاؤکشی پر امتناع کے بعد گجرات کی حکومت نے اشتہارات کے ذریعہ قرآن مجید کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی مہم شروع کی ہے کہ گوشت کے کھانے سے کئی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ گوشت کے موضوع کو لے کر مغل بادشاہ اکبر سے لے کر موجودہ فرقہ پرست قائدین کی رائے و اقدامات میں مختلف مرحلوں میں طرح طرح کے اندیشے اور نتائج اخذ کئے جاکر سماجی تانے بانے کو تار تار کرنے کی سیاسی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ گوشت کھانے یا اس کو فروخت کرنے کی بحث ان دنوں کچھ فرقہ وارانہ نہج اختیار کرلی ہے۔ اس سلسلہ میں انسانوں میں کھانے کی عادت اور ان کی پسند و ناپسند کے بارے میں اب تک کئی ماہرین کی مختلف رائے ریکارڈ میں درج ہیں۔ عظیم فرانسیسی جنرل نپولین بوناپارٹ کا یہ جملہ ان کے لئے تیر کی مانند چبھتا ہے جو کھانے کے شوقین ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ دنیا میں جو آدمی کم سے کم کھاتا ہے وہ بھی دراصل اپنی ضرورت سے زیادہ ہی کھاتا ہے۔ جہاں تک گوشت کھانے اور اس پر پابندیاں عائد کرنے کے معاملوں میں جب سیاسی عنصر آجاتا ہے اس کی کیفیت اور حیثیت بدل جاتی ہے۔ ممبئی میں چار دن گوشت کی فروخت پر پابندی اور حکومت گجرات کی گوشت کھانے کے خلاف قرآن مجید کے حوالے سے تشہیری مہم کے پیچھے ایک ایسی ذہنیت کارفرما ہے جو ملک میں ایک نیا تنازعہ اور بحران پیدا کرنے کی مہم کو تقویت دینا چاہتی ہے۔ ہندوستان میں گوشت خوری کے خلاف نئی جنگ چھیڑنے کی کوشش کے خطرناک منصوبے رونما ہوں گے۔ گوشت کی فروخت یا جانوروں کو ذبح کرنے پر پابندی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ خاص موقع پر مقامی بلدیہ کی جانب سے سلاٹر ہاؤز بند کردیئے جاتے ہیں

اور ہندوستانی روایت کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ جین طبقہ کے برت کے ایام کے دوروں چار دن کے لئے گوشت پر پابندی ہر سال عائد ہوتی ہے لیکن اس مسئلہ کو سیاست دانوں نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اس مسئلہ کا ہوا کھڑا کردیا گیا۔ ماضی میں بلدی حکام کے احکامات پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ بعض ایام میں گوشت کھانے سے اجتناب کرنا ہندوستانی سیکولر تہذیب کا حصہ مانی جاتی تھی مگر جب سے فرقہ پرستوں نے گوشت کو اپنے مفادات کا موضوع بنایا ہے ملک بھر میں طرح طرح کی تنظیمیں اس میں حصہ لے کر ماحول کو مکدر کررہی ہیں۔ آزاد ہند کی تاریخ میں دراصل گوشت پر پابندی کا سلسلہ 1964 ء سے شروع ہوا جب بی جے پی اور شیوسینا کے وجود میں آنے سے قبل کے دنوں میں ممبئی کے دو کارپوریٹرس نے ایک دن کے لئے مسالخ بند کرنے کی تجویز رکھی تھی۔ 1994 ء میں ایک اور دن پابندی عائد کردی گئی۔ اس مرتبہ بی جے پی کے دو کارپوریٹرس پیش پیش تھے۔ 2004 ء میں حکومت کے شہری محکمہ نے سرکیولر جاری کرکے جین برادری کے برت کے ایام میں گاؤکشی یا سلاٹر ہاؤز دو دن بند رکھنے کا حکم دیا۔ مذہبی رواداری پر عمل کرنے کا مظاہرہ بادشاہ اکبر کے دور سے ہی چلا آرہا ہے تو فی زمانہ اس مذہبی رواداری کو فرقہ پرستی کا رنگ دینے کی کوشش ایک خطرناک کھیل ہے۔ اس طرح کی کوششوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ گوشت کے مسئلہ کو ان دنوں زیادہ شور شرابے سے اٹھایا جارہا ہے تاکہ عیدالاضحی کے موقع پر مسلمانوں کو ذہنی طور پر دباؤ کا شکار بناکر پریشان کیا جائے۔ جس سیکولر ملک میں ہم رہتے ہیں وہاں رمضان کے دوران مسلمانوں نے ہر ایک سے یہ نہیں کہا کہ وہ ان کی طرح ہر ایک کو روزہ رکھنا چاہئے۔ اس طرح جین طبقہ نے بھی ایسا ہرگز مطالبہ نہیں کیا ہوتا کہ ان کے برت کے ایام میں گوشت کھانا روک دیں۔ مگر یہ فرقہ پرست طاقتیں ہیں جو مذاہب کی آڑ میں سماج میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ حکومت گجرات نے تشہیری مہم کے ذریعہ قرآن مجید کے حوالے یہ پیام دینے کی کوشش کی ہے کہ گائے کا احترام کیا جائے۔ اس کا دودھ، گھی اور مسکہ صحت انسانی کے لئے مفید ہوتا ہے اور اس کا گوشت کئی امراض کا موجب بنتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس میں گوشت کھانے کے خلاف انتباہ دیا گیا ہو۔ حکومت کی سطح پر جب ایسی گمراہ کن مہم چلائی جاتی ہے تو یہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر طبقات کے درمیان تفرقہ اور نفرت پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ حکومت گجرات یا مرکزی سطح پر حکمرانی کرنے والی طاقتوں کی فرقہ پرستانہ دوڑ کو روکنے کی ضرورت ہے ورنہ آگے چل کر ایسے مسائل پیدا ہوں گے جو سماج کو نوچ نوچ کر لہو لہان کردیں گے۔