ڈاکٹر مجید خان
گنگاوتی کرناٹک میں رائچور کے قریب ایک قدیم تجارتی مقام ہے ۔ نظام کی حکومت میں یہ حیدرآباد کاحصہ تھا ۔ کرناٹک میں آج بھی تقریباً یہ علاقہ جیسا تھا ویسا ہی رہا ہے ۔ لوگ بھی اپنے تجارتی کاروبار میں مصروف ہیں مگر بنگلور سے زیادہ اس کے روابط حیدرآباد سے ہیں اور علاج معالجے کیلئے بھی یہ لوگ حیدرآباد آنے ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس مقام سے ایک خاندان مشورے کیلئے آتا ہے ۔ صدر خاندان وہاں کے کامیاب اور بہت قدیم کرانہ مرچنٹ ہیں اور اُن کے اطراف میں اچھے کاروبار ہیں ۔ اُن کے تین لڑکے اچھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکہ میں بس گئے ہیں۔ اُن کی بیویاں بھی اُسی معیار کے تعلیم یافتہ ہیں۔ موجودہ گنگاوتی کے رہن سہن اور ٹکساس میں زمین آسمان کافرق ہے ۔ اُن کے والد کو مشورے کیلئے لایا گیا ۔نفسیاتی ڈاکٹر کے مشورے کی ضرورت پر بھی کافی بحث بیٹوں اور بہوؤں میں کئی دنوں تک امریکہ اور گنگاوتی میں انگریزی میں ہوتی رہی اور خاموش بیچارہ باپ جانتا تھاکہ بحث و تکرار اس کے تعلق سے ہے مگر کبھی مداخلت نہیں کیا۔ 25 سال پہلے مجال کہ کوئی ایسی بحث اُس کے سامنے کرے ۔ بڑا بھائی یہ محسوس کیا کہ والد کی خاموشی غالباً ڈپریشن کی وجہ سے ہے ۔ گوکہ بظاہر کوئی وجہ اس کی نظر نہیں آرہی تھی مگر والد زیادہ خاموش رہنے لگے تھے اور کاروبار میں جیسی دلچسپی لیا کرتے تھے ویسی دلچسپی اب باقی نہیں تھی اور نہ تو بیوی سے زیادہ بات کرتے تھے نا پوتروں اور پوتیوں سے۔ ویسے بھی پرانے ضعیف لوگوں میں بیویوں سے کوئی خاص گفتگو کرنے کا کوئی رواج ہی نہیں ہے مگر بچوں کو محسوس ہوا کہ ان کا علاج کروایا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگ یہ بھی دیکھے کہ اُن کی یادداشت میں بھی فرق آگیا ہے ۔
گوکہ بیٹوں میں علاج کے تعلق سے اختلاف رائے رہا مگر مقامی ڈاکٹروں کو دکھانے کے بعد اپنے ضمیر کی آواز پر اتنی تکلیف گوارہ کرنے پر راضی ہوگئے کہ ایک بار ماہر نفسیات کو ضرور دکھانا چاہئے ۔ اس فرض کو پورا کرنے کیلئے عدیم الفرصت ہونے کے باوجود وہ لوگ وقت نکال کر صبح آ ہی گئے ۔
ایک مسئلہ اور تھا باپ گنگاوتی چھوڑکر کہیں نہیں جانا چاہتے تھے اور لڑکے ان کو امریکہ لیجانا چاہتے تھے ۔ ان سب کی خواہش تھی کہ وہ جن محلات میں رہتے ہیں اُن کو وہ اور ان کی ماں دیکھیں ، مگر باپ کو گنگاوتی سے باہر جانے کی کوئی خواہش نہیں تھی ۔ گھر کے باہر خاص بیٹھک پر شام میں بیٹھنا امریکہ میں ہو نہیں سکتا ۔
یہ کیفیت سننے کے بعد میں نے چاہا کہ مریض اقبال کرے کہ اُس کے بچے اور بہوؤیں جو کیفیت بیان کئے ہیں کیا وہ صحیح ہے یا نہیں تو خاموشی ہی جواب میں ملی ۔ دنیا و مافیہا سے بھی بے خبر ، یادداشت کا جب امتحان لیا گیا تو کوئی بڑی خامی نہیں نکلی ۔ پھر میں نے لڑکوں سے مریض کی موجودگی میں کہا کہ میں دو چار دنوں کیلئے ان کو شریک دواخانہ کرنا چاہوں گا تاکہ مجھے تفصیلی امتحان کا وقت اور موقع ملے ۔ ایسا محسوس ہوا کہ سب کے سروں کے اوپر برف کا پانی اُنڈیل دیا گیا پھر سب پر خاموشی ہی خاموشی طاری رہی ۔ مریض شروع ہی سے خاموش تھا ۔ بڑے لڑکے نے مجھ سے پوچھا کہ دواخانے میں شریک کرنے کے بعد میں کیا کرنے والا ہوں ۔ کہیں شاک تو نہ دیدو ں۔
میں نے کہا : گفتگو اور دوستی ۔ میں اُن سے اپنے انداز میں بات کرتے ہوئے یہ جاننا چاہونگا کہ ایک چاق و چوبند گاؤں کا بیوپاری اتنا خاموش کیوں ہوگیا ۔ وہ کہنے لگے کہ بات وغیرہ کرتے ہیں اور جو بھی پوچھے اُس کا جواب دیتے ہیں مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زبردستی بات کررہے ہیں ۔ اپنے سے پہل نہیں کرتے ۔ میں نے کہاکہ آپ لوگ باہر جاکر مشورہ کیجئے اور طئے کیجئے ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ لوگ واپس آکر یہ کہے کہ اس وقت تو ہم دوسری مصروفیات کی وجہ سے ان کو شریک نہیں کرواسکتے ، آپ نسخہ دیدیجئے ، ہم لوگ انتظامات کرنے کے بعد بعد میں سہولت سے آئیں گے۔ مریض کا علاج اور رشتے داروں کی سہولت۔ میں نے لفظ سہولت کو دُہرایا اور مریض کی طرف دیکھا گوکہ مریض کو نہ تو میرے مشورے میں کوئی دلچسپی تھی نہ اور کسی معاملے میں مگر میں جب طنزیہ سہولت کے لفظ کو دُہرایا اور مریض کی طرف دیکھا تو مجھے میرے طنزیہ جملے کا ایک حمایتی نظر ایا۔ اُس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ نظر آئی جو فریب خیال بھی ہوسکتا یا مغالطہ ، میرا طنز مریض کو پسند آیا ۔
میں نے کہا کہ دوسرے ڈاکٹر دوا ئیں لکھ چکے ہیں وہ جاری رکھئے میں تو صرف بات کرنا چاہتا ہوں ۔ رشتے دار صرف دوائیں لکھواکر اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔ بحرحال یہ لوگ کافی تذبذب کا شکار ہوگئے ۔ بھائیوں میں ہلکی سی تکرار شروع ہوگئی ۔ بحرحال وہ لوگ شریک دواخانے کرنے کے خلاف تھے اور جانے لگے ۔ میرے سے مشورہ تو کیا ایک مصیبت بن گئی ۔ میں نے صرف ایک سوال مریض سے کیا ۔کیا آپ کو دو چار دنوں کیلئے میرے پاس رہنے میں کوئی اعتراض ہے تو جواب سنکر میں حیران ہوگیا۔ مریض نے کہا کہ نہیں ۔ میں بھی رشتہ داروں کی مشکلات کو سمجھ رہا تھا ۔ وہ لوگ سب اپنے اپنے طئے شدہ پروگرامس کو خیرباد نہیں کرسکتے تھے اور مریض کے ساتھ ان کا رہنا ضروری تھا ۔ ذہنی طورپر وہ لوگ اس کیلئے تیار نہیں تھے ۔ عملاً بھی اُن کے طئے شدہ پروگرام بدلنا مشکل تھا ۔ مجھ سے معذرت چاہتے ہوئے باہر چلے گئے اور مریض جانے سے پہلے بہت ہی معنی خیز وداعی نمستے کیا جس میں نہ صرف احترام کی جھلک تھی بلکہ شکریئے کی بھی ۔
اُس کے بعد میں دوسرے مریضوں کو دیکھنے میں مصروف ہوگیا ۔ دو گھنٹوں کے بعد جب میں دواخانے میں شریک شدہ مریضوں کو دیکھنے گیا تو تعجب ہوا یہ دیکھ کر کے گنگاوتی کے مریض صاحب سکون سے دواخانے کے بستر پر لیٹے ہوئے ہیں ۔ جب میں لڑکوں سے تبدیلی خیال کے تعلق سے پوچھا تو کہنے لگے کہ ہم سب آپ کی تجویز پر عمل کرنا چاہتے ہیں ۔
اس وقت مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ میں کس طرح سے اس مریض کا نفسیاتی علاج کروں ۔ صرف اتنا اندازہ ہوگیا تھا کہ اس شخص کو علاج کی ضرورت ہے ۔ مجھے اس بات کا بھی یقین تھا کہ وہ لوگ شریک نہیں کروائیں گے مگر اُس کے لئے بھی سب راضی ہوگئے اس لئے میری ذمہ داری اور بھی بڑھ گئی اور اُن کی مجھ سے وابستہ امیدیں اور بڑھ گئیں۔ پہلے لڑکے کی شادی تک تو گنگاوتی کا ساہوکار عزت ، وقار اور خوشحالی کے معاملے میں نقطۂ عروج پر تھا ، بڑے مصروف کاروبار تھے ۔ دور دور سے لوگ کاروباری معاملات میں آیا کرتے تھے ، پیسے کا لین دین بھی ہوتا تھا ۔ لاریاں بھر بھر کر مال آیا کرتا تھا اور جاتا بھی تھا ۔ کسی کے سامنے اُس کو جھکنے کی نوبت نہیں آئی تھی ۔ بڑے لڑکے کی بیوی شہر والی تھی اور ممکن ہو اُن کا رویہ اپنے سسرے کے ساتھ اُتنا پراحترام نہیں تھا جتنا کہ ساہوکار چاہ رہا تھا ۔ اس گاؤں کے انتہائی حساس شخص کو یہ بڑی ٹھیس پہنچی ۔ اس کے علاوہ گاؤں میں گھر کی بہو جو فیشن ایبل لباس پہن کر گھوما کرتی تھی وہ بھی اس کو پسند نہیں تھا۔
بحرحال کئی ایسی باتیں اور حرکات اس کو ناگوار گذرے مگر وہ خاموش ہی رہا ۔ دبی آواز میں اپنی ناراضگی کا جب لڑکے سے اظہار کیا تو وہ ہنس کر کہنے لگا کہ ڈیڈی آپ پرانے زمانے کے آدمی ہیں ، آپ کو بدلنا پڑیگا ۔ آپ کے لڑکے گاوں کے ساہوکار نہیں ہیں بلکہ امریکہ میں ملٹی نیشنل کمپنی میں بہت اونچے مقام پر ہیں۔ اب آپ یہ پرانا دھندہ بند کیجئے اور ہمارے ساتھ امریکہ منتقل ہوجائیے۔ ساہوکار اپنی بہو کی بے تکلفی اور بدلباسی سے ڈرنے لگا تھا ۔ ایک مرتبہ وہ اطراف کے عزت دار پٹیلوں سے ایک پنچایت کررہا تھا اچانک بہو آدھمکی اور سسرے کے چہرے کو چومنے لگی اور کہنے لگی کہ وہ واپس امریکہ جارہی ہے ۔ سارے لوگ دنگ تھے ۔ ساہوکار پسینہ پسینہ ہوگیا تھا اور اپنے ساتھیوں سے آنکھ میں آنکھ نہیں ملا سکا اور معذرت چاہ کر گھرمیں چلا گیا ۔ چُلو بھر پانی میں مرنے کی حالت ہوگئی ۔
بہو معصوم تھی ، وہ امریکہ ہی میں پیدا اور بڑی ہوئی تھی اور وہیں کے اقدار سے واقف تھی۔ ہر ملاقات پر بزرگوں کو پیار سے بوسے لیتی تھی ۔ بحرحال ان واقعات کے بعد ساہوکار خاموش ہونے لگا اور آہستہ آہستہ کاروبار میں دلچسپی کم لینے لگا اور جب یہ تفصیلات لڑکوں کو معلوم ہوئے تو وہ سب کے سب دوڑتے ہوئے آئے اور یہ سمجھے کہ باپ کو ALZHEIMER یا Depression ہوگیا ہے اور اپنے ساتھ اس کو امریکہ لے جانا چاہتے تھے ۔ اُن کو کیا معلوم کہ بہو کے محبت بھرے بوسے مہنگے پڑے۔ میں نے جب مریض کی ایک روزمرہ کی مصروفیات کی ڈائری تیار کروائی جس میں لڑکوں کی شادیوں کے پہلے اور بعد میں جو تبدیلیاں دیکھی گئیں اُن کی تفصیلات درج تھیں تو پھر مجھے اقدار کے ٹکراؤ کے بے شمار چھوٹے چھوٹے حرکات جیسا کہ میں اوپر بیان کیا ہوں ملے اور میں نے کھود کھود کر مزید انتہائی مفید معلومات حاصل کئے ۔
ان تمام واقعات سے ایک ہی بات اُبھرکر آرہی تھی ۔ ایک گاؤں کے عزت دار بیوپاری کی زندگی جو قدامت پسنداقدار پر مبنی تھی ماڈرن اور مغربی تہذیب سے ٹکرائی تو اس کو برداشت نہ کرسکی اور بعد از صدمہ جو نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے اور جس کو Post Traumatic Disorder کہا جاتا ہے اُس کا شکار ہوگیا ۔ میں صرف اتنا کرتا رہا کہ ان واقعات کو پورے خاندان والوں کے ساتھ بار بار دہراتا رہا تو مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ مریض ایک مُرجھایا ہوا پھول تھا جس میں آہستہ آہستہ تر و تازگی اور شگفتگی آتی گئی ۔
میں گاؤں کے سیٹھ مریض کو اس بات پر راضی کروالیا کہ وہ چند ماہ کیلئے بچوں کے ساتھ امریکہ جائے گا ۔ یہ ہیں نئی زندگی کے نئے نفسیاتی مسائل ، آپ ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پرانی وضع کے ایک بزرگ کو کتنی خفت ہوتی ہوگی جب ایک نیم برہنہ لڑکی ، ناچتے گاتے ہوئے ایک سنجیدہ عزت دار محفل میں اپنے خسر پر بوسے برساتی ہے ۔ یہ اُس شخص کی نفسیاتی موت کے مماثل تھی اور وجہ صر ف ایک معصومانہ حرکت اور اخلاق کی غلط فہمی تھی ۔