گنگاجمنی تہذیب کی نمائندہ تقریب

ادبی ڈائری پروفیسر مجید بیدار
گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ اُردو زبان میں استعمال ہونے والے متعدد زبانوں کے الفاظ خود ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ اُردو نے زبانوں کے اتحاد کو برقرار رکھا ہے۔ فارسی، عربی، سنسکرت اور بھاشا کے علاوہ دنیا کی دوسری زبانوں کے الفاظ بڑی شان و شوکت کے ساتھ اُردو میں استعمال ہوتے ہیں۔ جس سے گنگا جمنی تہذیب کی بھرپور نمائندگی ہوتی ہے۔ حال ہی میں ایسی ہی ایک گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ تلگو ذریعہ تعلیم سے اپنی ذات کا ارتقاء اور اُردو شاعری کے توسط سے اپنی فکر کی بالیدگی کا حق ادا کرنے والے حیدرآباد کے شاعر انجنی کمار گوئل نے اس سے پہلے تین اُردو شعری مجموعے پیش کرکے شاعری کے چالیس سالہ سفر کی تکمیل کی۔ اُنھوں نے خود کو ساجد رضوی کا شاگرد اور شعری مجموعے میں قصہ قدیم و جدید کو چھیڑ کر عصری حسیت کی نمائندگی کا بھرپور حق ادا کیا اور ’’گلستانِ گوئل‘‘ کی بنیاد رکھی۔ سر شام سے ہی بھارتیہ ودیا بھون کے احاطہ میں کاروں اور اسکوٹروں کے قافلے جمع ہونے لگے۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی کی رسم اجراء میں یقینی شرکت کی اطلاع کے نتیجہ میں پولیس کا معقول بندوبست دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ بہرحال بھارتیہ ودیا بھون کی نشستوں پر ملک کی اکثریت کا قبضہ تھا۔ ہندی کے چاہنے والے اکثریت میں دیکھے گئے جبکہ اُردو کے چاہنے والوں کی اقلیت بھی اپنی جگہ برقرار رہی۔

وقت گزرتا رہا اور مہمانوں کی آمد کا سلسلہ بھی خراماں خراماں جاری رہا۔ ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں کی آمد کے ساتھ ہی محفل میں نئی جان پڑ گئی۔ رسم اجراء تقریب کی صدارت اور گلستان گوئل کی رسم رونمائی کا فریضہ جناب زاہد علی خاں کو انجام دینا تھا۔ انجنی کمار گوئل کی ان کے چاہنے والوں نے بکثرت گلپوشی کی۔ افراد خاندان، دوست احباب اور ادب دوستوں نے گلہائے عقیدت نچھاور کئے۔ جس کے بعد شہ نشین پر تشریف فرما مہمانوں کا شال پوشی اور گلدستوں کے ذریعہ استقبال کیا گیا۔ شیروانیوں سے مزین اور ماتھے پر تلک لگائے خواتین کا ہجوم گنگا جمنی تہذیب کا سماں پیش کررہا تھا۔ خان اطہر نے وندنا اور ودیا گرو نے ساز پر بھگتی کا نغمہ چھیڑا۔ اطیب اعجاز نے نظامت کے آغاز کے ساتھ ہی مہمانوں کو استقبالیہ پیش کیا۔ انجنی کمار گوئل کے شعری مقامات کی نشاندہی بھرپور انداز میں کی اور ’’گلستانِ گوئل‘‘ سے منتخب اشعار پیش کرکے گوئل کی شاعری میں موجود سادگی میں پُرکاری کی جانب توجہ دلائی اور کہاکہ گوئل کی شاعری جہاں روایات کی پاسدار ہے وہیں عصری حسیت کی نمائندہ بھی ہے لیکن وہ علامتوں اور ژولیدہ بیانی سے خیال کو بوجھل نہیں ہونے دیتے بلکہ اظہار کی تابناکی کی رو کو شاعری میں شامل کردیتے ہیں۔ گوئل کی شاعری میں حسیاتی اظہار کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر فاروق شکیل نے ان کی شاعری میں موجود سہل ممتنع کے عنصر کی نشاندہی کی اور بتایا کہ گوئل کی شاعری میں اثر پذیری اور فن کے رچاؤ کا شگفتہ اثر دکھاتا ہے۔

راقم الحروف کی تقریر تالیوں کی گونج میں جاری رہی اور اُنھوں نے انجنی کمار گوئل کو گنگا جمنی تہذیب کا سچا نمائندہ قرار دیتے ہوئے شاعری میں ان کی سلجھی ہوئی زبان کی تعریف کی۔ تالیوں کی گونج اور روشنی کی چکا چوند میں رسم اجراء انجام دیتے ہوئے صدارتی خطاب کے دوران جناب زاہد علی خاںنے صاف طور پر کہاکہ جدوجہد آزادی کے دوران اور اس کے بعد بھی اُردو شاعری نے احتجاجی لب و لہجہ کی بنیاد پر شہرت حاصل کی اور آج کے دور میں انسانی زندگی ہزارہا سماجی، اخلاقی اور معاشی مسائل سے دوچار ہے۔ ایسے وقت قوم کی بیداری کے لئے اُردو شعراء اپنے کلام کے توسط سے مسائل اور ان کے حل پر توجہ دے کر اپنے زمانے کی نمائندگی کریں۔ جناب زاہد علی خاں کے اس مشورہ کو اُردو شاعروں کے لئے عصری لائحہ عمل کی تعبیر کیا جانا چاہئے۔ ایسے دانشورانہ اور وقت کی ضرورت کی نمائندگی کرنے والے مشورے کا شاعروں کی جانب سے استقبال کیا جانا چاہئے۔ صدارتی خطاب کے بعد انجنی کمار گوئل نے اپنی غزل پیش کی اور تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ ضیافت کے وقفہ کے بعد خان اطہر نے اپنی سریلی آواز میں انجنی کمار گوئل کی غزلیں ساز پر پیش کیں۔ ’’گلستانِ گوئل‘‘ کی اشاعت کی خوبی یہی ہے کہ اس کتاب میں شامل کلام اُردو کے ساتھ دیو ناگری رسم خط میں بھی درج ہے۔ دوستوں اور ہم خیال لوگوں سے مبارکباد قبول کرتے ہوئے رسم اجراء تقریب میں اُردو اور ہندی سے محبت رکھنے والے کثیر تعداد کی شرکت پر شکریہ ادا کیا۔