گم ہورہی ہے ٹرین میں بحث و مباحثہ کی روایت ، عوام انتخابات کے موسم میں بھی خاموشی سے سفر کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ بقلم: اسفر فریدی 

پٹنہ: بہار میں پہلے چوک و چوراہوں سے لے کر بس اور ٹرین میں سیاسی حالات پر بحث و مباحثہ ہواکرتا تھا ۔ لیکن انتخابات کے رواں موسم ٹرین میں یہ روایت دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ اس کی ایک نظر سہرسہ سے پٹنہ تک چلنے والی راج رانی ایکسپریس میں دیکھنے کو ملی ۔ ٹرین کی ایک بوگی میں دو گھنٹے کاسفر کرنے کے باوجود بھی لوگ خاموش رہے ہیں ۔ تو میں نے بیٹھے بیٹھے یہ بحث چھیڑ دی کہ الیکشن کے موسم میں بھی بہار کی ٹرین میں خاموشی کتنی عجیب بات ہے ۔ اس پرایک نوجوان اٹھ کھڑاہوا او رکہنے لگا کہ بلا وجہ بحث میں کوئی پڑنا نہیں چاہتے۔ سب کومعلوم ہیکہ ووٹ کس کو دینا ہے۔ یہ نوجوان اپنے چھوٹے بھائی کو جے ای ای مینس کا امتحان دلانے کیلے پٹنہ آرہا تھا ۔

اس نے کہا کہ وقت بدل چکا ہے پہلے لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کیا کرتے تھے ۔ اب وقت بد ل چکا ہے۔ ٹرین میں کیا لوگ اب گھروں میں بھی کم بات کررہے ہیں ۔ اور نوجوان نے کہا کہ اب لوگوں کا رابطہ انسانی چہروں سے نہیں بلکہ فون اسکرینس سے ہوچکا ہے۔ بحث آگے بڑھی تو نریندر مودی اور سونیا گاندھی تک چلے گئی ۔ انہیں مودی کی شخصیت میں کچھ کرنے کا جذبہ نظر آیا جبکہ سونیا گاندھی کو وہ غیرملکی مانتے ہیں ۔ مقامی امور میں نوجوانو ں کو دلچسپی نہیں تھی ۔ انہیں کانگریس کے ذریعہ سالانہ ۷۲؍ ہزار روپے کی آمدنی کو یقینی بنانے کاوعدہ انہیں لالی پاپ لگا لیکن بی جے پی او رمودی کے ۱۵؍ لاکھ روپے کے وعدے پر وہ خاموش رہے ۔ دریں اثناء ایک نوجوان نے کہا کہ غیر ملکو ں میں پہلے کوئی ہندوستان کا نام لیوا نہ تھا اب وہاں عزت سے نام لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہزاروں سال پرانی تہذیب کے حامل بھارت کیلئے یہ کسی توہین سے کم نہیں ہے کہ دنیا میں لوگ 2014ء کے بعد ہی اس کا احترام کررہے ہیں ۔ اس سوال پر کمزور پڑتے نوجوان نے فوراً دوسرا موضوع چھیڑ دیا۔

اس نے کہا کہ پچھلے پانچ سال میں کرپشن کا کوئی بڑا معاملہ سامنے آیا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں ایک شخص نے کہا کہ کرپشن کو اجاگر کون کرے گا توپھر وہ نوجوان خاموش ہوگیا۔اس بارے میں کسی تیسرے شخص نے کہا کہ نیچے سے اوپر تک جو بدعنوانی کا بول بالا ہے اس کو روکناکسی وزیر اعظم کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس پر ایک نوجوان نے کہا کہ پانچ سال میں یہ کام کرنا مشکل ہے لیکن شروعات تو ہوئی ہے ۔پھر جب اس سے پوچھا گیا کہ کرپشن کم کرنے کیلئے ۱۵؍ سال کی مدت کافی نہیں ہے تو اس نوجوان نے چہک کر کہا کہ ابھی تومودی جی کو پانچ سال ہی ہوئے ہیں ۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ بہار او رگجرات سے بدعنوانی کا خاتمہ ہوگیا ؟ تو وہ خاموش بیٹھ گیا ۔