دستگیر نواز
شہر حیدرآباد دکن نظام اسٹیٹ کا دارالحکومت رہا ہی ہے ، گر اسے شعراء ادیبوں کا صدر مقام کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ نہ جانے کتنے ایسے شعراء ہیں جو ملک اور نظام اسٹیٹ کے دیگر مقامات سے آکر ’’حیدرآباد‘‘ کو اپنا مسکن بنابیٹھے ۔ اس بات کا اندازہ ایسے شعراء کے تخلص سے لگایا جاسکتا ہے ۔ مثال کے طور پر ہریانوی ، لکھنوی ، بنارسی ، ناگپوری ، محبوب نگری ، بدایونی ، کانپوری وغیرہ ۔ ایسے شعراء کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے جو آج ملک کے نامی گرامی شعراء میں شمار کئے جاتے ہیں ، ان میں کئی ایسے شعر مل جائیں گے ، جنہوں نے اپنا سفر شاعری کا آغاز اسی شہر حیدرآباد کے شنکر جی مشاعرہ سے کیا تھا۔ شعراء ادیبوں کی ہمت افزائی اور مشاعروں کا انعقاد نہ صرف اردو اکیڈیمی کے توسط سے کیا جاتا ہے بلکہ انگنت ایسی سوسائٹیز بھی ہیں جو اپنا رول ادا کررہی ہیں ۔ خاص طور پر عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جو بحیثیت سامعین ان پروگراموں کو کامیاب بناتے ہیں ۔ اردو اکیڈیمی ، اردو ادیبوں ، شاعروں کی تصانیف کو کتابی شکل دینے میں بھی اہم رول ادا کرتی ہیں جس کی وجہ سے قارئین کو بہت ساری تخلیقات مطالعہ کے لئے آسانی سے مل جاتی ہیں ۔
ایک جدید تخلیق ’’گل گشت‘‘ شعری مجموعہ منظر عام پر آیا ہے جس کے شاعر ادبی حلقوں میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ منکسر المزاجی کی وجہ سے ہر انجمن میں نہ صرف جانے پہچانے جاتے ہیں بلکہ مدعو بھی کئے جاتے ہیں ۔ خاص طور پر ادارہ ادب اسلامی ہند کے اساسی رکن و مدیر فنکار نو ماہنامہ کے لئے اپنی بے لوث خدمت سے ہر عام و خاص میں کافی مقبول ہے ۔ ہر کوئی آپ کو مسعود جاوید ہاشمی کے نام سے جانتا ہے ۔ اردو زبان و ادب کو پروان چڑھانے کے لئے کمربستہ اور ساتھ ہی ساتھ نونہالوں کی زندگی کو اسلامی طرز پر ڈھالنے کے لئے شخصی و قلمی جد وجہد میں لگے ہوئے ہے ۔ بچوں کے ماہنامہ فنکار نو پابندی سے نکال رہے ہیں۔
مسعود جاوید ہاشمی کئی ادبی مشاعروں و نعتیہ محفلوں میں اپنے انداز کلام سے سامعین کو بڑی کامیابی سے اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں سامعین میں بزرگ شاعر کا درجہ حاصل کرچکے ہیں ۔ بہت ہی پابندی سے ادب اسلامی کے ماہانہ طرحی مشاعروں میں شریک رہتے ہیں ۔ اس سے قبل آپ کے یہ مجموعہ ہائے کلام ’’دسترس‘‘ ’’حرف عطر بیز‘‘ ’’نقش آرزو‘‘ ’’صدف صدف گہر‘‘ ’’پیام دوست‘‘ ’’روشنی کے پھول‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں جس کو قارئین نے پسندیدگی کی سند بھی دی ۔ اسی بنیاد کو مدنظر رکھتے ہوئے موصوف نے حالات اور عمر کے تجربات کو اپنے مشاہدہ دل ودماغ کی سوچ و فکر ، احساسات و جذبات کو بہت ہی خوبصورت انداز سے اشعار کے لباس فاخرہ میں سجایا ہے ۔
غور کیجئے یوں کہتے ہیں
سر میں سودا ہے مدام اللہ کا
ہے لبوں پر صرف نام اللہ کا
کوئی لاسکتا نہیں اس کی مثال
منفرد سب سے کلام اللہ کا
جاری ہے لنگر سبھی کے واسطے
کھارہے ہیں صبح و شام اللہ کا
حمد و ثنا تو بنی آدم کو فریضہ ہے ساتھ ہی ساتھ مدحت محمدؐ بھی ۔ یہی فرض جب شاعر ادا کرتا ہے تو یوں بیان کرتاہے ۔
اقامت میں شہادت محمدؐ ہی محمدؐ ہیں
زمانے بھر پہ رحمت میں ، محمدؐ ہی محمدؐ ہیں
ہوا ہے اور نہ ہوگا تاقیامت آپ کا سانی
صداقت میں امانت میں ، محمدؐ ہی محمدؐ ہیں
محمدؐ مصطفی پر سلسلہ یہ ختم ہوتا ہے
نبوت میں رسالت میں محمدؐ ہی محمدؐ ہیں
یہ تو اظہار بندگی ، اظہار وابستگی یعنی امتی ہونے کا دل سے اعتراف ہے ۔ مجموعہ میں ہمیں اس سے ہٹ کر بھی اور اشعار ملتے ہیں جو سبق آموز و نصیحت آموز ہیں۔ ایسے اشعار ’’گل گشت‘‘ میں گشت نظر کے دوران نظر نواز ہوتے ہیں ۔ جسے ہماری چشم بینا نے چنا جو کچھ اس طرح ہیں :
جتنی قیمت بھی بڑھائی ہے بڑھاتے جاؤ
ٹھیکرے دھات کے ہیں ، اور یہ سونا کیا ہے
سب لٹا کر جو لگے ہاتھ ،سکوں پالینا
چند سکوں کے عوض ، نیند کا کھونا کیا ہے
لطف دیتی رہی جملوں کی بناوٹ برسوں
ہوئی تحریر میں محسوس تراوٹ برسوں
غیر مردوں سے ہے آواز کا پردہ لازم
یاد رہ جاتی ہے لہجے کی گھلاوٹ برسوں
ایک اور جگہ کچھ یوں کہتے ہیں
کام میں لا کے ناخن تدبیر
سب مسائل کے پیچ و خم سے بچ
رکھ قدم پھونک پھونک کر اپنا
جتنا ممکن ہو پیچ و خم سے بچ
ہاتھ پھیلانا ہے برا جاویدؔ
کسی کم ظرف کے کرم سے بچ
حالات کا تذکرہ اپنے انداز شاعرانہ میں کیا خوب بیان کیا ہے دیکھئے
سارے قاتل تو عدالت سے ہوئے صاف بری
جھوٹے الزام جو تھے سارے ، سر آئے میرے
وہ پرکھتے بھی ہیں جاویدؔ کھرا کھوٹا سب
عیب دشمن نے بہت سارے گنائے میرے
جگہ ہے دل میں سبھی کی ، یہ گھر ہی ایسا ہے
جہاں کا درد ہے اس میں ، جگر ہی ایسا ہے
یہ حادثات کے جنگل ، یہ قید ، یہ مقتل
ہمیں قبول ہے سب کچھ ، سفر ہی ایسا ہے
اپنی عمر اپنا رکھ رکھاؤ اور معمور زندگی کی روداد اپنے اشعار کے ذریعہ روز روشن کی طرح قارئین پر یوں عیاں کرتے ہیں ۔
قرب حبیب کے لئے سجدہ دیا گیا
مجھ کو حریم ناز میں پہنچادیا گیا
مجھ کو ضمیر بھی دیا اور نفس بھی دیا
یوں اپنے آپ سے ٹکرادیا گیا
اپنی ہر بات کا برملا اظہارکرنے کے باوجود یوں بھی عرض گزار ہوتے ہیں کہ
کتاب غم کبھی تحریر میں نہیں کرتا
جراحتوں کی بھی تشہیر میں نہیں کرتا
ہے سلسلہ سا مرے دل میں آرزوؤں کا
انھیں تو پاؤں کی زنجیر میں نہیں کرتا
کئی دہائیوں سے اپنے آپ کو ادب و مذہب کے لئے وقف کئے ہوئے اس شاعر کے مجموعہ ’’گل گشت‘‘ کو مرکزی مکتبہ اسلامی سب ڈپو ، چھتہ بازار حیدرآباد سے یا خود شاعر سے 919700613667 پر ربط کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ سرورق کے گل آپ کو خوش آمدید کہتے ہوئے ملیں گے ۔ بہترین طباعت سے آراستہ 189 صفحات پر مشتمل 160 سے بھی زیادہ شعری تخلیقات اس گلدستہ میں موجود ہیں جو کہ حمد ، نعت ، غزل ، سلام ، نظم وغیرہ پر مشتمل ہے ۔ اسکے مطالعہ کے لئے اس کی قیمت زیادہ نہیں صرف 150روپئے رکھی گئی ہے ۔