گلوکار وٹھل راؤ

سید امتیاز الدین
اردو کے صاحب طرز ادیب پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہندوستان میں جتنی زبانیں بولی جاتی ہیں اردو اُن کی غزل ہے اور اردو کی بیت الغزل ہے غزل ۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر بڑے گلوکار نے اپنے فن کے مظاہرے کے لئے غزل کو اپنایا ہے ۔ استاد برکت علی خاں سے لے کر بیگم اختر تک ، مہدی حسن سے لے کر فریدہ خانم تک ، اقبال بانو ، عابدہ پروین ، ملکہ پکھراج ، لتا منگیشکر ، آشا بھونسلے ، طلعت محمود ، محمد رفیع ، مکیش اور نہ جانے کتنے بڑے بڑے فنکاروں نے اردو شاعری کی اس خوبصورت صنف کی پیش کشی کو اتنا دلکش بنادیا کہ غزل کی دل نشینی کے ایسے لوگ بھی معترف ہوگئے جو نہ اردو زبان سے واقف تھے نہ شاعری کا ذوق رکھتے تھے۔

حیدرآباد بھی غزل گائیکی میں دوسرے مقامات سے پیچھے نہیں رہا ۔ ایم اے رؤف کی غزل سرائی کی سارے ملک میں دھوم تھی ۔ ان کی محفلیں رات بھر چلتی تھیں ۔ سننے والے ہمہ تن گوش رہتے ۔ نہ گلوکار کی آواز میں کوئی فرق آتا نہ سننے والوں کے انہماک میں کمی ہوتی ۔ کچھ یہی کیفیت وٹھل راؤ کی سریلی آواز میں بھی ہے جنھیں لوگ صرف وٹھل کے محبت بھرے نام سے پکارتے ہیں ۔
وٹھل سرتاپا آرٹسٹ ہیں ۔ اس کا اندازہ ہم کو ان سے بات چیت کے دوران بار بار ہوا ۔ بات یوں ہوئی کہ اب تک ہم نے جن بزرگوں سے ملاقات کی تو ان بزرگوں کے دولت خانوں پر ہم اور ہمارے ساتھی لئیق نظام الدین (جو اس پروگرام کی ویڈیوگرافی کرتے ہیں) خود گئے ۔ لیکن وٹھل راؤ سے بات چیت روزنامہ سیاست کے اسٹوڈیو پر ہونا طے پائی تھی ۔ وقت مقررہ پر ہم دونوں اسٹوڈیو پہنچ گئے لیکن وٹھل راؤ صاحب کا پتہ نہیں تھا حالانکہ ان کی رہائش گاہ سیاست کے دفتر سے بمشکل پانچ منٹ کے فاصلے پر ہے ۔ کچھ دیر انتظار کے بعد جب انھیں یاد دہانی کے لئے فون کیا تو انھوںنے شان بے نیازی سے کہا کہ دومنٹ میں پہنچ رہا ہوں ۔ خدا خدا کرکے ان کے دومنٹ آدھے گھنٹے کے بعد مکمل ہوئے ۔ وٹھل راؤ صاحب اپنے بھتیجے دیپک راؤ کے ساتھ تشریف لائے ۔ دیپک راؤ ایک نوجوان طبلہ نواز ہیں ۔ موسیقی کی محفلوں میں یہ وٹھل راؤ کے ساتھ طبلے پر سنگت کرتے ہیں ۔ خانگی گفتگو میں دیپک ، حافظے کے معاملے میں بھی وٹھل راؤ کی سنگت کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدانخواستہ وٹھل راؤ کاحافظہ کمزور ہوگیا ہے ۔ حافظہ ان کا آج بھی قوی ہے ۔ قدیم حیدرآباد کی ساری باتیں ان کے دل پر نقش ہیں لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے آپ سے کہا تھا کہ وٹھل سرتاپا آرٹسٹ ہیں ۔ شعراء کی غزلیں انھیں یاد ہیں ۔ ماضی کے رفیق انھیں یاد ہیں ۔ یادگار محفلیں انھیں یاد ہیں لیکن اگرآپ ان سے پوچھیں کہ آپ کو کن کن اعزازات سے نوازا گیا ، کہاں کہاں آپ کو انعامات سے سرفراز کیا گیا ، کیسے کیسے لوگوں نے آپ کے فن کی تعریف کی تو ایسی باتیں ان کو یاد نہیں رہتیں ۔ ایسے سوالات کے جواب دیپک راؤ دیتے ہیں ۔ وٹھل راؤ کا پورا نام وٹھل راؤ شیوپورکر ہے ۔ ان کی مادری زبان مرہٹی ہے لیکن ان کی پوری تعلیم اردو میں ہوئی ہے اور اب ایک لحاظ سے یہی ان کی مادری زبان ہے ۔ آپ 19 مئی 1930 ء کو پیدا ہوئے اب ماشاء اللہ لگ بھگ چوراسی سال کے ہیں لیکن ان کی آواز ابھی تک جوان ہے ۔ جسمانی طور پر بھی وہ چاق و چوبند ہیں ۔ آپ نے موسیقی کی تعلیم استاد لکشمن راؤ پنچ پوتی اور استاد شفیع الزماں سے حاصل کی ۔ ایم اے رؤف صاحب سے آپ نے غزل گائیکی کی باریکیاں سیکھیں ۔

وٹھل راؤ کے والد آتما رام شیوپورکر پہلوان تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ بیٹا بھی پہلوان بنے ۔ جب وٹھل راؤ کا میلان موسیقی کی طرف ہوا تو ان کے پتاجی نے مخالفت کی کہ میاں گانے بجانے میں کیا رکھا ہے ۔ سیدھے سیدھے پہلوان بنو اور نام کماؤ ۔ لیکن وٹھل راؤ نے ان کی بات نہ مانی اور سات سُروں کی دنیا میں کھوگئے ۔ انصاف سے دیکھا جائے تو وٹھل راؤ کے والد کا مشورہ شفقت پدری سے خالی نہ تھا ۔ اس پر ہمیں ایک بہت پرانی بات یاد آگئی ۔ علاقہ اقبال کے انتقال کے بعد ان کی یاد میں لاہور میں ایک بہت بڑا تعزیتی جلسہ ہوا جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے ۔ جب جلسہ شروع ہوا تو منتظمین نے دیکھا کہ سامعین میں رستمِ زماں گاما پہلوان بھی بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ناظم جلسہ نے اعلان کیا ’حضرات علامہ اقبال کی ہمہ گیر شخصیت کا ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ اس جلسے کے سامعین میں رستم زماں گاما پہلوان بھی موجود ہیں ۔ ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ شہ نشیں پر تشریف لائیں‘ چنانچہ گاما پہلوان سامعین کی صفوں سے اٹھے اور شہ نشیں پر تشریف فرما ہوئے ۔ تھوڑی دیر بعد ناظم جلسہ نے اعلان کیا ’اب میں محترم گاما پہلوان سے التماس کروں گا کہ وہ علامہ اقبال کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار فرمائیں ، یہ سننا ہی تھا کہ گاما پہلوان پر جیسے بجلی گرپڑی ۔ یا تو گاما دنیا بھر کے پہلوانوں کو پچھاڑ چکے تھے اور ساری دنیا میں ان کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا لیکن جب ہزاروں کے مجمع کو مخاطب کرنے کی نوبت آئی تو پسینہ پسینہ ہوگئے ۔ بڑی مشکل سے لڑاکھڑاتے ہوئے اٹھے ، مجمع کے سامنے کھڑے تو ہوگئے لیکن حلق سے آواز کا نکلنا مشکل ہوگیا ۔ بڑی مشکل سے صرف اتنا کہا ’’بھائیو ورزش بہت اچھی چیز ہے‘‘ ۔ بحیثیت پہلوان وٹھل راؤ کتنے کامیاب رہتے یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن بحیثیت گلوکار وٹھل راؤ کی خوش نصیبی اور مقبولیت بے مثال رہی ۔ بالکل بچپن میں ایک بار وٹھل راؤ نے حیدرآباد ریڈیو سے غزل پیش کی ۔ اتفاق دیکھئے کہ نظام حیدرآؑباد نواب میر عثمان علی خان اس وقت ریڈیو سن رہے تھے ۔ ان کو وٹھل کی جادو بھری آواز اتنی پسند آئی کہ انھوں نے وٹھل راؤ کو دربار شاہی میں طلب کیا اور اس طفل خوش گلو کا گانا سنا اور پسند فرمایا ۔ ہم نے پوچھا کہ وہ کونسی غزل تھی جو آپ نے شاہ دکن کو سنائی ۔ وٹھل راؤ نے تھوڑا سا گنگنا کر سراج اورنگ آبادی کا یہ مطلع سنایا ۔

خبرِ تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
ہم کو یہ جان کر حیرت بھی ہوئی اور مسرت بھی کہ شاہ دکن ریڈیو بھی سنتے تھے اور اچھے فن کاروں کی حوصلہ افزائی خود سے بلوا کر بھی کرتے تھے ۔ بہرحال اب ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’چلی سمت غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا‘ ۔ وٹھل راؤ ایک عرصہ دراز تک جونیئر پرنس معظم جاہ کے دربار سے وابستہ رہے ۔ معظم جاہ شجیع تخلص کرتے تھے اور اپنی غزلیں وٹھل سے گوا کر سنتے تھے ۔ معظم جاہ بہادر کی محفلوں کی وٹھل راؤ نے بہت تعریف کی ۔ ڈنر بہت پرتکلف ہوتا تھا ۔ جب محفل جمتی تو پرنس اپنی تازہ غزل دیتے اور سنانے کی فرمائش کرتے ۔ وٹھل راؤ کو فی الفور دھن بنانے میں کمال حاصل تھا ۔ پرنس وٹھل سے اپنی غزل سنتے اور سردھنتے ۔ اہل محفل سے کہتے ’’دیکھو اس بچے نے دیکھتے ہی دیکھتے کتنی اچھی دھن بنالی ہے‘‘ خوش ہوتے تو اشرفیاں دیتے ۔ پرنس نے وٹھل راؤ کو وٹھل جاہ کا خطاب دے رکھا تھا ۔
خانوادہ آصفیہ کی جن اہم ہستیوں کے سامنے وٹھل راؤ کو غزل سرائی کا موقع ملا ان میں پرنس اعظم جاہ بہادر ، شہزادی پاشا ، صاحبزادی حضور نظام ، نواب ہاشم جاہ اور نواب سعادت جاہ ،فرزندان حضور نظام شامل ہیں ۔
وٹھل راؤ کے بعض پروگراموں میں صدر جمہوریہ ، وزیراعظم گورنر اور دیگر سربرآوردہ شخصیتوں نے شرکت کی ہے ۔ بی بی سی لندن سے بھی وٹھل غزلیں پیش کرچکے ہیں ۔ محکمہ سیاحت کی ایک محفل میں وٹھل استاد بسم اللہ خاں کے ساتھ بھی پروگرام پیش کرچکے ہیں ۔ بنگلور میں ، ایک پروگرام کی پیشکشی وٹھل نے مناڈے کے ساتھ مل کر کی تھی ۔ جن مشہور ہستیوں کے ساتھ وٹھل راؤ کو گانے کا موقع ملا ہے ان میں استاد احمد حسین محمد حسین ، انوپ جلوٹا ، جسویندر سنگھ ، خوشبو خانم قابل ذکر ہیں ۔ دو تلگو فلموں اور دو ہندی فلموں کی دھنیں وٹھل نے بنائی ہیں ۔ وٹھل کی بنائی ہوئی دھنوں پر آشا بھونسلے ، محمد رفیع ، مناڈے ، گھٹنا سالہ ، ایس پی بالاسبرامنیم ، پی سوشیلا جیسے فنکار گیت گاچکے ہیں ۔

جنرل جے این چودھری نے ازراہ قدر دانی چار سو گز زمین گوشہ محل میں وٹھل کو دلوائی تھی ۔ دلیپ کمار ، نوشاد ، سنیل دت اور کئی فلمی ہستیوں نے وٹھل کے فن کی جی کھول کر داد دی ہے ۔ وٹھل امریکہ ، برطانیہ ، کینیڈا ، سعودی عرب ، کویت ، بحرین ، نیوزی لینڈ اور دنیا کے کئی ملکوں میں کامیابی کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں ۔ وٹھل راؤ کا فائن آرٹس اکیڈیمی سے گہرا تعلق رہا ہے ۔ انھوں نے اپنے قدیم رفیقوں اقبال قریشی ، حکیم راگی اور ممتاز کو بڑی محبت سے یاد کیا ۔ ایم اے رؤف صاحب کی سادگی کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ کبھی موسیقی کی باریکیاں سمجھانے خود رؤف صاحب وٹھل کے گھر آجاتے تھے ۔ استاد کی ایسی شفقت اب کم دیکھنے میں آتی ہے ۔ موسیقی کی تربیت کے لئے وٹھل نے سنگیت سادھنا کے نام سے ایک ادارہ 1983 میں قائم کیا تھا ۔ ان کے کئی شاگرد ممتاز مقام حاصل کرچکے ہیں ۔ اندرا نایک بھی ان کی شاگرد ہیں ۔ حیدرآباد کے جن شاعروں کا کلام وہ اکثر گاتے ہیں ان میں مخدوم محی الدین، شاذ تمکنت اور خورشید احمد جامی قابل ذکر ہیں ۔ ہماری فرمائش پر وٹھل نے ’اک چنبیلی کے منڈوے تلے‘ اور ’مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لئے‘ سنائیں ۔ اکثر گلوکاروں کی آواز کا حسن ساز کے ساتھ کھل کر سامنے آتا ہے لیکن وٹھل کی آواز اتنی سریلی ہے کہ ساز کے بغیر بھی دل پر اثر کرتی ہے ۔
اس غیرتِ ناہید کی ہر تان دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

نوٹ
غزل کے گلوکار وٹھل راؤ کی افسوسناک موت پر عقل گُم ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اُنھیں کن الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا جائے ۔ حیدرآباد جو کل تھا کے سلسلے میں ادارۂ سیاست کی جانب سے اُن کا انٹرویو لیا گیا تھا جو 16 مارچ 2014 کی اشاعت میں شائع ہوا تھا ۔ یہ وٹھل راؤ کا آخری انٹرویو تھا ۔ آج اُن کی یاد میں ہم یہ انٹرویو بطور خراجِ عقیدت دوبارہ شائع کررہے ہیں
(ادارہ)