گلف کا پیسہ ہے …بیگم ہے … کھلا بازار ہے

نفیسہ خان
ہماری نظر سے ڈاکٹر ظفر کمالی صاحب کا ایک شعر گزرا تھا کہ  ؎
گلف کا پیسہ ہے …بیگم ہے … کھلا بازار ہے
روز ہوتی ہے خریداری ضرورت کے بغیر
ہم جب بھی حیدرآباد کی مصروف ترین سڑکوں سے گزرتے ہیں اور وہاں خواتین کی کثیر تعداد کو مٹرگشتی کرتے دیکھتے ہیں تو مندرجہ بالا شعر بار بار ہمارے ذہن میں گونجتا رہتا ہے ۔ خصوصاً جب ہمارا گزران محلوں سے ہوتا ہے جہاں ہر چیز ہر وقت بہ آسانی مل جاتی ہے یا پھر مسلمان آبادی کا غلبہ ہے جیسے نامپلی ، ملے پلی ، ٹولی چوکی ، مہدی پٹنم ، پتھر گٹی ، لاڈ بازار وغیرہ اس کے علاوہ سلطان بازار ، بڑی چاؤڑی تو وہاں بھی برقعہ پوش خواتین کا اژدھام سڑکوں پر گھومتا نظر آتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے لفظ شاپنگ ان کی زندگی کا ایک جز بن گیا ہے جس محنت و مشقت سے خلیجی ممالک میں مقیم اصحاب روپیہ کما رہے ہیں اس سے کئی گنا بیدردی سے یہاں ان کے اہل خاندان روپیہ اڑا رہے ہیں ۔ انہوں نے  اپنا معیار زندگی اپنا روز مرہ اخراجات کا طریقہ سرے سے ہی بدل دیا ہے ۔ یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ ہر روز کیا شاپنگ ہوتی رہتی ہے کہ گھر میں قدم ٹکتے ہی نہیں ۔ برقعہ پوش لڑ کیاں  و خواتین نہ صرف شاپنگ سنٹرس، بڑے بڑے مالس میں محو خریداری رہتی ہیں بلکہ تنگ گلی کوچوں میں ٹھہریں ٹھیلہ گاڑیوں پر اڈلی ، دوسہ ، وڈے ، رگڑا پانی پوری ، بھیل پوری نوش فرماتی رہتی ہیں۔ ترکاری میوے و گوشت کی دوکانوں پر تول مول پر بحث تکرار کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارے بچپن سے لیکر کالج بلکہ یونیورسٹی تک بے پردگی و عریانی نہ تھی کالج میں مخلوط تعلیم نہ تھی نہ ہی کوئی اسکول میں مخلوط تعلیم کا طریقہ رائج تھا ۔ لڑکیوں کا بے حجاب یا برقعوں میں نکلنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ آج کل کی طرح سڑکوں پر گھومنے پھرنے کی قطعی اجازت نہ تھی ۔ گھریلو ضروریات کی تکمیل گھر کے مرد حضرات کیا کرتے تھے یا پھر نوکر چاکر مامائیں سودا سلف لایا کرتی تھیں ۔ آج کل کی طرح دم کو دمڑی کو سڑکوں پر نہ اترتی تھیں۔ ان دنوں عورتوں کا بے نکیل ہوجانے کے پیچھے دو باتیں ہیں۔ کئی گھروں کے مرد بیرون ملک میں ہیں ۔ گھر کے لڑکوں کے کالج اتنی دور ہیں کہ صبح کے گئے مغرب کو گھر لوٹتے ہیں  اور عورت بیچاری کو بچوں کی تعلیم تربیت پرورش ، گھریلو ضروریات کی خاطر باہر نکلنا ہی پڑتا ہے ، خواہ پیدل نکلیں آٹو رکشا میں نکلیں ۔ Activa پر جائیں یا خود اپنی کارا چلاتی ہوئیں نکلیں۔ اور جو باہر نکلنے کا چسکہ لگ گیا ہے تو اب گھر میں بیٹھا نہیں جاتا۔ دوسری وجہ عورتیں خود سر ہوگئی ہیں، پہلے کی طرح مرد کی دبیل چبیل نہیں رہیں۔ ان کی اپنی پسند ناپسند کی نزاکتوں اور نکتہ چینیوں سے مرد عاجز آکر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگئے ہیں کہ عورتوں نے خود ہی خرید و خروخت کا شوق پال رکھا ہے تو وہ کیوں نہ آرام کریں اور ان تمام باتوں سے بری الذمہ ہوجائیں، ادھر عورتوں کا یہ استدلال کہ وہ کونسا بے پردہ سر جھاڑ منہ پھاڑ پھر رہی ہیں۔ شرعی حدود میں رہ کر گھر کی ضروریات کی تکمیل ہی تو کر رہی ہیں لیکن وہ اس بات سے لاعلم ہے کہ ہر قسم پر قماش کے مردوں سے تول مول کی معاملت کرتے اپنے سے ان کی نسوانیت ۔ شرم و حیا متاثر ہورہی ہے، نہ زبان کو لگام ہے نہ نگاہوںکو پابند کر پارہی ہے۔ بازارمیں ، دوکان پر، ٹھیلہ بنڈیوں پربیوپار کرنے والا، ہر آٹو چلانے والا مرد شریف ، مہذب ، باادب و بااخلاق نہیں ہوتا اوران سے اسی زبان و انداز میں گفتگو کرتے ہوئے خواتین بھی چرب زبان ہوگئی ہیں اور بقول فاروق چغتائی کے  ؎

مقصد جو تھا حجاب کا وہ فوت ہوگیا
برقعے محض نمونے بنے اشتہار کے
حیدرآباد میں جتنے مہنگے ریسٹورینٹ ، Parks ، amusement ، Malls ، آئسکریم پارلر ، کافی ہاؤس ، حقہ سنٹرس ہیں ان کی تفصیل خلیجی ممالک میں کام کرنے والوںکی حیدرآباد میں مقیم نوجوان نسل کو معلوم ہے ، انہیں تو مہنگی سی مہنگی بائیک یا کار چاہئے ۔ پکنک پارٹیاں و ہلڑ بازی ان کا شیوہ ہے۔ زندگی کو اپنی مرضی اپنے ڈھنگ سے جینے کو اپنا شعار بنالیا ہے ۔ خوش قسمت ہیں وہ ماں باپ جن کی اولاد نیک و صالح ہے ۔ باب کے پیسے کا درد رکھتی ہیںاور اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنا مستقبل بنانے کوشاں ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ گھر کے باہر کے ماحول میں ہی چند ایسے عوامل ہیں جو خیالات و جذبات کو غلط راہ پرڈال دیتے ہیں جو آخر کو لغزش پا کا باعث  بن جاتے ہیں اور کھوئی ہوئی عزت و ناموس کا واپس حاصل کرنا ممکن کہاں ہوتا ہے۔ کئی بار جی چاہتا ہے کہ اس بے راہ روی اور طرز زندگی و طرز پوشاک پر محبت و پیار کے ساگر میں ڈوبے الفاظ ہی سے اپنی رائے کا اظہار کریں لیکن سامنے والے کا طرز گفتگو اتنا تکلیف دہ، اتنا دل آزار ہوتا ہے کہ ہماری برداشت کی قوت جواب دے جاتی ہے اس لئے ہماری بساط ہی کیا کہ زباں کھول سکیں ۔ چند خود سر لڑکیاں پابند رسم و رواج سے بیگانہ سماج کے بندھنوں سے آزاد ، مذہب کے اصولوں سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والی اپنی نسوانیت کو دعوت نگاہ کے جملہ سامان سے لیس گھر کی چار دیواری سے باہر ملفوف بھی نکلتی ہیں تو چند ایک مرد و لڑکے ان کے ہمقدم ہونے میں تامل نہیں کرتے۔ کئی ایک کم ظرف لوگوں کے ہاتھوں میں خلیج کا پیسہ آگیا ہے ، ا پنے ماضی کی غربت ، محرومیوں کا ازالہ کرنے کیلئے ان تقاضوں کی تکمیل ان پر غالب آگئی ہے ۔ روداد حالات اب بیان سے باہر ہوگئے ہیں۔ ان سرپٹ دوڑتی جوانیوں کو لگام دیکر یکدم بیس پچیس سال پیچھے ہم کھینچ نہیں سکتے ۔ ہم کو تو ان کی پیدائش سے ہی تعلیم کے ساتھ معقول تربیت دینے کی ضرورت ہے ۔ آخر کو وہ ہماری اولاد ہیں، ایک ہی خاندان کے افراد کا متمع نظر الگ ہوسکتا ہے لیکن خیالات میں اس قدر ٹکراؤ، رہن سہن ، تہذیب اخلاق میں اس قدر گراوٹ خود ہماری پرورش کا تمسخر اڑا رہے ہیں ۔ اپنی پرانی حیثیت سے بہت اونچی اڑان بھرنے کا شوق ان کوبہترین قیمتی لباس و کھانے کا عادی بناچکا ہے۔

حیات دو روز کی مسرتوں سے لطف اندوز ہونے سے کون گریز کرسکتا ہے۔ زندگی کی خوشیوں کو حاصل کرنے کیلئے دولت افراط میں ہو، یہ ضروری تو نہیں رات دن کی محنت کے بعد جو ریال شوہر کما رہے ہیں اس کا استعمال ہمارے مسلمان گھرانوں میں یوں ہورہا ہے کہ ہرماہ وصول ہونے والی خطیر رقم کو مستقبل کے تحفظ کیلئے استعمال کرنے کی بجائے بے دریغ فضول خرچ کی جارہی ہے، خواہ وہ شادی بیاہ ہو، سالگرہ ، چھلہ ، چھٹی ، جمعگیوں جیسی تقاریب ہوں یا عید وغیرہ ہوں۔ مردو خواتین کی صبح سویرے جاگنے کی عادت جاتی رہی ہے ۔ اسکول کالج جانے والے بچے ہر محلے میں نکڑ پر فروخت ہونے والی اڈلی دوسہ وڈے کی ٹھیلہ بنڈیوں پرنہ صرف ناشتہ کرتے نظر آتے ہیں بلکہ گھر میں موجود بزرگوں و خواتین تک پارسل پہونچاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسکول کالج جاتے ہوئے کم سے کم پچاس اور زیادہ سے زیادہ دو سو روپئے پیزہ ، برگر ، سینڈوچ سے دوپہر کی بھوک مٹانے کیلئے مانگ کرلئے جاتے ہیں اور ایک ہم تھے کہ دو روٹیوں کے درمیان کوئی سالن لپیٹ کر اپنے پرس میں ڈال کر صبح گئے شام لوٹتے تھے ۔ امی جان علی الصبح لکڑی کے چولہے پر فرش پر بیٹھ کر ناشتہ تیار کرتیں۔ ہم ممکنہ ہاتھ بٹایا کرتے تھے اور آج کل اکثر گھروں میں دھوپ چڑھنے کے بعد یہ خانماں برباد خواتین انگڑائیاں لیتی ہوئیں پلنگ چھوڑتی ہیں اور تیاری شروع ہوجاتی ہے ۔ باہر نکلنے کی یعنی شاپنگ کرنے کی ساتھ ہی مختلف ہوٹلوں میں مغلائی ، چائینیز اور اب سعودی ڈشس بھی کھانے کی عادی ہوگئی ہیں۔ شاعر صاحب نے تو صرف بیگم صاحبہ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے لیکن باہر کے پیسے پر گھر کے تمام افراد کی رال ٹپکتی ہے ۔ ضرورت سے زیادہ کپڑے ، ضرورت سے زیادہ زیور ، ضرورت سے زیادہ میک اپ نسوانیت کے نام پردھبہ بن گئے ہیں۔ ماں بیٹی بہو کے رشتوں کا تقدس و احترام بھی ختم ہوگیا ہے کیونکہ سبھی نے میک اپ کو حد سے زیادہ تجاوز کر رکھا ہے ۔ بیٹی کے ساتھ ماں بھی زلف بردوش سنگ کٹاکر بچھڑوں میں شامل نظر آئیں گی۔ عارض سرخی و غازہ سے گلال ہوکر دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ نظریں اتنی بیباک کہ جھکنے کا نام نہیں لیتی جبکہ ہر کوئی جانتاہے کہ آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں۔ انہیں آنکھوں سے اقرار ، انکار، شرم و حیا ، غصہ ، قہر ، حقارت ، نفرت ، شفقت و پیار کا اظہار بھی ہوتا ہے ۔

نظروں کے تصادم میں کبھی یوں بھی ہوا ہے
آنکھوں کی کہی بات کو آنکھوں نے سنا ہے
اس لئے ذہن و دہن کی پاکیزگی رہن سہن کا انداز ، داخلی ، اندرونی ، بیرونی معاملات کو سلجھانا یا الجھانا ، لباس کا رنگ ، تراش خراش ، چال ڈھال ، بول چال ہر چیز آئینہ دار ہوتی ہے اس ماحول کی جس میں انسان پرورش پاتا ہے ، وہ زمانے گئے جب لڑکیاں و مہذب خواتین گھروں ، اسکول و کالج کی چار دیواریوں  سے باہر نکلنے میں جھجک محسوس کرتی تھیں۔ دروازوں پر دبیز پردے یا چلمنیں لٹکاتی جاتی تھیں۔ بازاروں یا سڑکوں پر شرفاء کی صاحبزادیاں نظر نہ آتی تھیں۔ اب یہ حال ہے کہ آپ اور ہم یہ نہیں جانتے کہ کس برقعے میں کون دوشیزہ ملفوف ہے لیکن سیل فون ہر ایک کے پاس موجود ہے جو گھر سے باہر نکل کرلوٹنے کی تفصیل منظور نظر تک پہونچاتا رہتا ہے ۔ گھر والے اپنی شاپنگ اپنی مصروفیات میں اتنے گم ہوتے ہیں کہ انہیں اس وقت پتہ چلتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے ۔ ہم معمر لوگ آج کل کی نوجوان خواتین و لڑکیوں کو کیسے سمجھائیں کہ اچھائیوں اور نیکیوں کو اپنانے میں زمانے گزر جاتے ہیں جبکہ غیر اسلامی مغربی تہذیب کو جدت کے نام پر اپنا لینا بہت آسان ہوتا ہے۔ ہم معاشرہ کی گراوٹ پر مخلصانہ تنقید کرسکتے ہیں لیکن سدھار کی ہر کوشش رائیگاں جارہی ہے ۔ اخلاقی و سماجی شعور خواب غفلت میں ہے اس کو بیدار کرنا ممکن نہیں نظر آرہاہے۔ بیرون ملک میں برسر روزگار ہر فرد کے گھر کا ایسا ماحول نہیں ہے لیکن بیشمار نو دولتیوں کے خاندانوں نے اپنے وطیرے بدل دیئے ہیں۔ مرد کی کمائی میں بیوی یا بیگم ہی نہیں بلکہ ماں باپ نوجوان بہن بھائی بیٹے بھی حصے دار بن جاتے ہیں۔ پرانے شہر کی تنگ و تاریک گلیوں میں کویلو کے اپنے آبائی مکانات کو یہ لوگ بھول گئے ہیں بلکہ بھول جانا چاہتے ہیں۔ ان گلیوں سے اپنا رشتہ بھی بتانا نہیں چاہتے کیونکہ اب وہ ٹولی چوکی مہدی پٹنم کو این آر آئی کالونی کے نام سے جانتے ہیں جہاں شاندار سجے سجائے گھر ، قیمتی موٹر گا ڑی ، بائیک ان کی نئی پہچان ہے۔ ان کے نئے مشغلے ہوٹلوں و حقہ پارلر سے شروع ہوکر وہیں ختم ہوجاتے ہیں۔ شوہر کی ذمہ داریاں نہ صرف بیوی بلکہ بچوں کی بہتر پرورش و تربیت اور ان کی تعلیم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوتا ہے ۔ بیوی کیلئے زندگی کی خوشیوں کا انحصار قیمتی جھلملاتے لباس سیر و تفریح ، ہوٹلوں و مالس میں وقت گزاری ، ٹی وی ، اسمارٹ فون ، لیاپ ٹاپ ، چیٹنگ نہیں ہوا کرتے ۔ کیا محبت کی ترسیل ایسے ہی کی جاتی ہے ۔ بقول علیم خان فلکی کے   ؎
قاصد رہا نہ خط نہ کبوتر ہی وہ رہا
ای میل ایس ایم ایس ہے محبت کی شارٹ کٹ
ماں باپ بوڑھے تنہا وطن میں پڑے رہیں
بس رقم بھیجتے رہو خدمت کی شارٹ کٹ
بوڑھے ماں باپ کے رعشہ زدہ بدن اور کپکپاتے کانپتے ہاتھوںکو محبت بھرے لمس کی ضرورت ہوتی ہے ۔ نگاہوں کے التفات اور شیریں زبانی و شہد میں ڈوبے الفاظ کے خواہاں ہوتے ہیں لیکن آج کل ماں باپ بھی اپنے جگر کے ٹکڑوں کو باہر بھیج کر اپنے لئے بہتر زندگی ، بہتر علاج اور بہترین طریقہ زندگی گزارنے کے خواہاں ہوگئے ہیں۔ وہ دن بھول گئے جب سیکل رکشا کا کرایہ ادا کرنابھی ان کی استطاعت سے باہر ہوا کرتا تھا ۔ میلوں چرخ چوں کرتی سیکل پر کام کو جایا کرتے تھے ۔ جب خاندان کا ایک فرد اپنا گھر ، گھر کی سہولتیں ، آرام بیوی بچوں کو چھوڑ کر وطن سے بے وطن ہوجاتا ہے ۔ اس پر سب اپنا بار ڈالنا شروع کردیتے ہیں اور اس کی کمائی پر اپنا حق جتایا جاتا ہے، اس کی تنہائی اس کی تکالیف کا پاس و خیال کم ہی کیا جاتاہے ۔ نوجوانی میں بیوی سے دور ہوکر ، فطری تقاضوں پر قابو پاتے ہوئے اپنی مردانگی کا بھرم رکھنے کیلئے وہ کیسے کیسے مسائل سے دوچار ہورہے ہیں، اسی اخبار کے صفحات کے مختلف اشتہاروں سے اس کا بھی علم ہوتا ہے میاں بیوی دونوں ہی زیادہ پیسے کی خاطر سب کچھ برداشت کر رہے ہیں۔ اگر دو سال میں ایک بار شوہر چھوٹیوں میں اپنے بیوی بچوں کو بلانا چاہے تو ماں باپ کو بھی پھر عمرہ کرنے کا نیک خیال آجاتا ہے ، کتنے عمرہ کریں گے ۔ آخر بقول علم خان فلکی  ؎

ہر سال ایک عمرہ کا فیشن ہے آجکل
سیٹھوں نے ڈھونڈھ لی ہے عبادت کی شارٹ کٹ
گھر میں جنہیں پانچ وقت نماز کے سجدے بھی گراں گزرتے ہیں، وہ لاکھوں کا بوجھ بیٹوں پر ڈال دیتے ہیں۔ اگر پیسہ اتنا ہی وافر ہو تو ان عبادت گزار مستحقین کو حج وعمرہ کو کیوں نہیں بھیجتے جو مقدس مقامات کی زیارت کیلئے ترس رہے ہیں لیکن تنگدستی نے مجبور کر رکھا ہے۔ ہماری ملت تباہی کے دہانے پر پہونچ گئی ہے اور پھر بھی سنبھلنے کا نام نہیں لیتی۔ آج کل عورت کو خطرات و مصائب کا مقابلہ کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ سعی تدبیر بھی کرنا ہے ۔ صبر و تحمل و برداشت کا دامن تھامے رکھنا ہے ۔ اپنی عزت عصمت عفت کا ہر حال خیال رکھنا ہے ۔ اسلام ہمیں اس بات سے ہرگز منع نہیں کرتا کہ ہم دنیا و اس کی ضرورتوں کو نظرانداز کر کے پس پشت  ڈالدیں اور صرف عبادت میں مشغول ہوجائیں۔ عورتیں شریعت کے حدود میں رہ کر گھر سے باہر نکلیں اجتماعات، ۔ سمینار و لکچرس میں شریک ہوکر دوسروں کے بہترین خیالات سے مستفید ہوں۔ دنیا کے ساتھ دین کی تعلیم حاصل کریں تاکہ صغیف الاعتفادی کے دلدل سے باہر نکل سکیں۔ فاسد خیالات و نظریات کی تردید و وضاحت ہوسکے اور مضبوط محکم دلائل وقت ضرورت پیش کئے جاسکیں تاکہ حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوسکے ۔ عورتیں ملازمت کر رہی ہیں تو ایسا کام ڈھونڈیں جونہ صرف پنی پسند مزاج و مرضی کے مطابق ہو بلکہ صاف ستھرا پاکیزہ ماحول و زندگی بسر کرنے کی ضمانت دے ۔ اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل ہو، گھریلو معاشی مسائل بھی حل ہوں اور دنیا و آخرت میں باعث سعادت ہو۔