اترپردیش…شیلا ڈکشٹ اور راج ببر کانگریس کی امید
کشمیر … زائد فوج نہیں امداد کی ضرورت
رشیدالدین
اترپردیش میں انتخابی لڑائی کا منظر واضح ہونے لگا ہے۔ کانگریس اور بی جے پی کے فیصلوں نے سیاسی صورتحال کو دلچسپ موڑ تک پہنچادیا۔ یوں تو ملک کی اس بڑی ریاست میں 4 رخی مقابلہ کا امکان ہے لیکن اس سیاسی گیم کے اصل ہیرو دلت اور مسلمان ہیں۔ بادشاہ گر کا موقف رکھنے والے یہ دونوں ووٹ بینک پر ہر کسی کی نظر ہے۔ اترپردیش میں اقتدار کیلئے بی جے پی اور بہوجن سماج پارٹی ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں تو دوسری طرف برسر اقتدار سماج وادی پارٹی جیہ للیتا اور ممتا کے تجربہ کو دہرانے کی تیاری میں ہیں۔ 2014 ء عام انتخابات میں ریاست کی 71 لوک سبھا نشستوں پر کامیابی کے سبب بی جے پی رائے دہندوں سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کرچکی ہے۔ ایک سال پہلے سے انتخابی تیاریوں کے آغاز میں یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ دہلی کے اقتدار کا راستہ اترپردیش سے ہوکر گزرتا ہے ۔ کانگریس پارٹی جو کبھی اترپردیش میں ناقابل تسخیر قوت تھی، آج وہ ریاست میں اپنے احیاء کی جدوجہد کر رہی ہے۔ کانگریس نے تجربہ اور گلیمر کے ذریعہ اترپردیش میں واپسی کی حکمت عملی تیار کی ہے۔ 4 اہم پارٹیوں میں ایس پی اور بی ایس پی کے پاس چیف منسٹر کے عہدہ کا امیدوار موجود ہے جبکہ کانگریس نے چیف منسٹر کا اپنا امیدوار امپورٹ کیا ہے اور دہلی کی 15 سال تک چیف منسٹر رہنے والی شیلا ڈکشٹ کو امیدوار کے طور پر پیش کیا گیا۔ کانگریس کو یو پی جیسی بڑی ریاست میں پارٹی میں ایک بھی معتبر اور مقبول چہرہ نہیں ملا جسے رائے دہندوں سے روبرو کیا جاسکے۔ بی جے پی ابھی تک چیف منسٹر کے امیدوار کو تلاش کررہی ہے۔ پارٹی کے ایک گوشہ کو اندیشہ ہے کہ چیف منسٹر امیدوار کے اعلان کی صورت میں بہار میں جتن رام مانجھی کی طرح حال ہوجائے گا۔ کانگریس نے ریاست میں پارٹی کی کمان راج ببر کو سونپی ہے جس سے انتخابی منظر چکاچوند ہوچکا ہے۔ تجربہ اور گلیمر کے ساتھ راہول اور پرینکا کی مہم کے سہارے کانگریس گھر واپسی کا منصوبہ رکھتی ہے۔ شیلا ڈکشٹ کو چیف منسٹر کے امیدوار کے طور پر پیش کرنا اترپردیش کی مذہب اور ذات پات کی سیاست میں چونکا دینے والا فیصلہ ہے۔ شیلا ڈکشٹ برہمن یعنی اعلیٰ طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ کس طرح دلتوں کا دل جیت پائیں گی۔ کیا غیر مقامی قائد کو عوام قبول کرلیں گے؟ ایسے وقت جبکہ ملک میں رائے دہندوں کی اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ کانگریس نے ضعیف خاتون کا انتخاب کیا ہے۔
دراصل کانگریس پارٹی میں پرینکا کو چیف منسٹر کے امیدوار کے طور پر پیش کرنے کا مطالبہ شدت اختیار کر رہا تھا لیکن پارٹی گاندھی خاندان کے وقار کو داؤ پر لگانے تیار نہیں ہے لہذا شیلا ڈکشٹ کو آگے کردیا گیا۔ کانگریس کی اس حکمت عملی سے مبصرین کے مطابق اقتدار بھلے ہی حاصل نہ لیکن اسمبلی میں نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب پرینکا کو انتخابی مہم کی ذمہ داری دی جائے۔ راہول گاندھی کا گلیمر آسام اور کیرالا میں کانگریس حکومتوں کو نہیں بچا سکا۔ کانگریس کی نظریں اقلیتی ووٹ پر ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ شیلا ڈکشٹ نے دہلی میں مسلمانوں کیلئے ایسا کیا کارنامہ انجام دیا کہ مسلمان ان کی تائید کریںگے۔ دہلی اور اترپردیش کے درمیان عوامی رابطہ کی بنیاد پر کانگریس نے شیلا ڈکشٹ کو چیف منسٹر کے امیدوار کے طور پر پیش کیا۔ اس تجربہ کار خاتون نے ایک پابند ڈسپلن سپاہی کی طرح پارٹی ہائی کمان کے فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اچھی مثال قائم کی ہے۔ عمر کے اس حصہ میں پارٹی کے لئے وہ قربانی دینے تیار ہوگئیں جبکہ وہ خود بھی اچھی طرح جانتی ہیں کہ پارٹی کو اترپردیش میں اقتدار حاصل ہونا محض ایک خواب ہے۔ اترپردیش میں بھلے ہی ہمہ رخی مقابلہ کے امکانات ہے لیکن اصل مقابلہ ایس پی اور بی جے پی کے درمیان ہوگا۔ اگرچہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے یو پی کی 71 نشستوں پر کامیابی حاصل کی لیکن اس قدر بڑی تعداد کے باوجود پارٹی کا موقف مستحکم نہیں ہوسکا۔ اس کی ایک اہم وجہ سماج وادی پارٹی کی عوام پر مضبوط گرفت ہے تو دوسری طرف مرکزی حکومت کی مایوس کارکردگی ہے ۔ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر مرکزی کابینہ میں اترپردیش اور بطور خاص دلتوں کی نمائندگی میں اضافہ کیا گیاہے۔ تمام پارٹیوں کیلئے دلت اور مسلم ووٹ کامیابی کی ضمانت ہے لیکن بی جے پی مذہبی اساس پر ووٹ تقسیم کرنے اور مذہبی سیاست کی تیاری کر رہی ہے۔ انتخابی مہم میں رام مندر، بیف ، یکساں سیول کوڈ جیسے حساس مسائل کے علاوہ مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ اس مہم کیلئے پارٹی اور سنگھ پریوار میں نفرت کے کئی سوداگر موجود ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ سے مبینہ روابط کے الزام میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کو اترپردیش کے انتخابی ایجنڈہ میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ دوسری پارٹیوں کے مقابلہ بی جے پی کو ہندوتوا ایجنڈہ کا سہارا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مظفر نگر فسادات کے ایک ملزم سریش رانا کو پارٹی کا نائب صدر مقرر کیا گیا۔ مظفر نگر فسادات کے ایک اور ملزم کو مرکزی کابینہ میں شامل کیا جاچکا ہے۔ جہاں تک دلت اور مسلم ووٹ کا سوال ہے ، وہ یقینی طور پر منقسم ہوں گے اور ایس پی اور بی ایس پی کے بعد کانگریس کے حصہ میں جاسکتے ہیں۔ مسلمانوں کو اکھلیش یادو حکومت سے کوئی خاص شکایت بھی نہیں ہے۔ تاہم مسلم ووٹ کی تقسیم سے سیکولر جماعتوں کو نشستوں کا نقصان ہوگا۔ بی جے پی سیکولر ووٹوں کی تقسیم کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ انتخابی فائدہ کیلئے پارٹیاں کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔ صاف و شفاف کردار کے حامل افراد کو ترجیح دینے کے دعوے الیکشن میں کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں۔ بی جے پی اور کانگریس نے دو متنازعہ قائدین کو پارٹی میں اہم ذمہ داری دی ہے۔ بی جے پی سریش رانا کے ذریعہ ہندو ووٹ اور کانگریس پارٹی عمران مسعود کے ذریعہ مسلم ووٹ پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ ان تمام کوششوں کے باوجود نتائج ممتا اور جیہ للیتا کی طرح آنا کوئی عجب نہیں ہوگا۔
بات جب اترپردیش کی چلی ہے تو پھر مسلمانوں کے بارے میں بی جے پی کے دوہرے معیار کا تذکرہ ضروری ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی کابینہ میں 75 سال کی عمر کی حد مقرر کی ہے۔ اس شرط کے تحت وزیر اقلیتی امور نجمہ ہپت اللہ اور کرناٹک سے تعلق رکھنے والے سدیشورا سے استعفے حاصل کرلئے گئے۔ سدیشورا کے ذریعہ کرناٹک سے ایک نمائندگی دی گئی ۔ اقلیتی امور کے منسٹر آف اسٹیٹ مختار عباس نقوی کو آزادانہ چارج کے ساتھ وزارت کا ’’مختار کل‘‘ بنادیا گیا۔ اترپردیش سے تعلق رکھنے والے کلراج مشرا کو 75 سال سے زائد عمر کے باوجود کابینہ سے علحدہ نہیں کیا گیا۔ برہمن طبقہ سے تعلق رکھنے والے اور یو پی میں بااثر اس شخصیت کو اسمبلی انتخابات کیلئے برقرار رکھا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ معیارات شخصیات کے اعتبار سے مختلف کیوں ہیں؟ جب کلراج مشرا سے یو پی میں فائدہ کی امید ہے تو نجمہ ہپت اللہ بھی مسلمانوں کیلئے ایک معتبر چہرہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد سے ان کی نسبت کا بی جے پی نے کوئی لحاظ اور احترام نہیں کیا۔ صرف اور صرف مسلمان ہونا نجمہ ہپت اللہ کا قصور ہے۔ کانگریس سے بی جے پی میں شمولیت ان کی بڑی غلطی تھی۔ انہوںنے مولانا آزاد کے نظریات کی مخالفت کرنے والی جماعت کو سیاسی پناہ گاہ کے طور پر منتخب کیا تھا ، جس کا نتیجہ آج وزارت سے علحدگی کی شکل میں دیکھنے کو ملا ۔ نجمہ ہپت اللہ کے لئے جب 75 سال کا معیار ہے تو یہ سب پر لاگو ہونا چاہئے ۔ کیا یہی اچھے دن ہیں مسلمانوں کیلئے کہ ایک ایسی وزیر کو علحدہ کردیا جائے جو پارٹی پالیسی سے اٹھ کر مسلمانوںکی بھلائی کیلئے سرگرم تھیں۔ اب تو مودی کے Yes Man کے حوالے اقلیتوںکو کردیا گیا ہے، جن کے نظریات اور اعمال سنگھ پریوار سے عین مطابق ہیں۔ نریندر مودی نے ایم جے اکبر کو جونیئر موسٹ وزیر کی حیثیت سے شامل کیا لیکن وزارت میں مسلم وزراء کی تعداد دو برقرار رہی۔ کیا نریندر مودی کی مسلمانوں سے یہی ہمدردی ہے؟ دوسری طرف ملک کی ایک اہم ریاست جموں و کشمیر میں حالات حکومت کے قابو سے باہر ہوچکے ہیں ۔ گزشتہ ایک ہفتہ سے وادی میں مسلسل کرفیو کے سبب عوام کو سخت مشکلات کا سامنا ہے، سیکوریٹی فورسس اور عوام کے درمیان جھڑپوں کے دوران کئی شہریوں کی ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں۔ کشمیر کی صورتحال پر مرکزی حکومت کو فوری توجہ دینا ہوگا۔ نئی دہلی میں بیٹھ کر صورتحال پر قابو پانے کی منصوبہ بندی کامیاب نہیں ہوسکتی بلکہ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو کشمیر کا دورہ کرتے ہوئے زمینی حقیقت کا پتہ چلانا ہوگا۔ آخر کیا بات ہوگئی کہ عوام کا اعتماد پولیس اور سیکوریٹی فورسس پر متزلزل ہوچکا ہے۔ وادی میں صورتحال کو قابو میں کرنے کیلئے عوامی شکایات کی سماعت کرنی ہوگی۔
جس وقت کشمیر میں صورتحال خراب ہوئی ، اس وقت وزیراعظم نریندر مودی افریقی ممالک کے دورہ پر تھے۔ مودی ہر واقعہ کو شہرت کا ایونٹ بنانے کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں۔ لہذا انہوں نے ایک ملک میں ڈرم بجانے کا حیرت انگیز مظاہرہ کیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ وزیراعظم کشمیر جیسے حساس صوبہ کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنا دورہ مختصر کرتے۔ اطلاعات کے مطابق کشمیر میں زخمیوں کے علاج کیلئے ڈاکٹرس اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ کیرالا میں انتخابات کے وقت ایک واقعہ کے بعد وزیراعظم ڈاکٹروں کی ٹیم کے ساتھ پہنچ گئے تھے۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ صرف نئی دہلی میں بیٹھ کر مزید افواج روانہ کرنے اور طاقت کے استعمال کے ذریعہ صورتحال پر قابو پانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ جبکہ انہیںکشمیری عوام کے درد کو سمجھنا ہوگا۔ کشمیر میں فی الوقت اضافی فورس کی نہیں بلکہ ڈاکٹرس اور ادویات کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کے دفتر میں وزیر جتیندر سنگھ کا تعلق کشمیر سے ہے لیکن انہوں نے بھی دورہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ موجودہ صورتحال پر وزیراعظم کے قریبی دوست اور پاکستان کے ہم منصب نواز شریف نے مخالف ہندوستان بیان جاری کیا اور کشمیر کے معاملے میں مداخلت کی کوشش کی لیکن وزیراعظم خاموش رہے۔ حضرت اوج یعقوبی نے کیا خوب کہا ہے ؎
گلشن کو روشنی کی ضرورت پڑی جہاں
کس کس کا آشیانہ جلا ہم سے پوچھئے