مجید صدیقی
جرائم کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سزاؤں کا اطلاق معمولی نوعیت کا ہے ۔ گجرات (احمد آباد) کی خصوصی عدالت نے 17 جون کو اپنے ایک فیصلے میں گلبرگ سوسائٹی قتل عام مقدمہ میں 11 خاطیوں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ اسی فیصلے میں عدالت نے 13 خاطیوں میں سے ایک کو 10 سال اور دیگر 12 کو فی کس 7 سال کی سزا سنائی ۔ استغاثہ نے بحث کی تھی کہ تمام 24 خاطیوں کو سزائے موت ملنی چاہئے ۔
اس قتل عام کوشہری سماج کی تاریخ کا بدترین دن قرار دیتے ہوئے خصوصی عدالت کے جج پی بی دیسائی نے انہیں سزائے موت دینے سے انکار کردیا۔ گلبرگ سوسائٹی قتل عام ، احمد آباد میں آج سے 14 سال قبل 28 فروری 2002 ء کو اس وقت ہوا تھا جب نر یندر مودی گجرات کے چیف منسٹر تھے ۔ اس روز 400 افراد کے ایک ہجوم نے قلب شہر میں واقع گلبرگ سوسائٹی (ہاؤزنگ سوسائٹی ) جہاں پر مسلمان مکینوں کی اکثریت ہے ، پر حملہ کر کے 69 افرادکو زندہ جلا دیا جس میں کانگریس کے سابق رکن راجیہ سبھا احسان جعفری بھی شامل تھے ۔ یہ حملہ مابعد گودھرا تشدد 2002 ء میں ہوا تھا جس میں 50 سے زائد کارسیوکوں کو ٹرین میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔
خصوصی عدالت کے جج پی بی دیسائی نے تمام خاطیوں کو سزائے موت دینے کے مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ 11 افراد کو عمر قید کی سزا ان کی موت تک جاری رہے گی ۔ اگر حکو مت سزا گھٹانے کا اختیار استعمال نہ کرے ۔ اس کیس میں اتنی کثیر تعداد میں قتل عام نے سارے ملک کو ہلاکے رکھ دیا تھا ۔ جج نے سزا میں عمر قید ان کی موت تک کے الفاظ بھی شامل کرنے سے انکار کردیا ہے۔ گلبرگ کیس 2002 ء کے گجرات فسادات کے 9 کیس میں سے ایک تھا جن کی تحقیقات سپریم کورٹ کی مقرر ایس آئی ٹی نے کی۔
عدالت نے کہاکہ تمام سزاؤں پر عمل ایک ساتھ ہوگا ۔ جمعہ کے دن کھچا کھچ بھرے کمرہ عدالت میں سزا سناتے ہوئے خصوصی جج ایس آئی ٹی عدالت پی بی دیسائی نے قتل عام کے دن کو شہری سماج کی تاریخ کا تاریک ترین دن قرار دیتے ہوئے استغاثہ اور متاثرین کے وکلاء کی سزائے موت دینے کی گزارش قبول کرنے سے انکار کردیا کہ یہ ’’شاذ و نادر ‘‘ کیس ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے ۔
خصوصی عدالت جج نے سزائے موت سنانے سے انکار کردیا اور کہا کہ اگر تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات (خاطیوں کو) واضح ہوجاتی ہے کہ ان خاطیوںکے خلاف کوئی سابقہ ریکارڈس پیش نہیں کئے گئے ہیں۔ عدالت نے کہاکہ 90 فیصد ملزمین کو ضمانت پررہا کردیا گیا تھا ۔ تاہم ان کے خلاف متاثرین نے کوئی مزید شکایت درج نہیں کروائی اور ایسا کوئی ریکارڈ نہیں ہے جس سے پتہ چل سکے کہ خاطیوں نے ضمانت کے دوران کسی جرم کا ارتکاب کیا ہو ۔ عدالت نے کہا کہ اس نے 11 ملزمین کو سزائے عمر قید سنائی ہے اور اس کیلئے کسی میعاد کا تعین نہیں کیا گیا ہے ، ان پر قتل کا الزام ہے ۔ عدالت نے ریاستی حکومت سے کہا کہ وہ قید کے 14 سال مکمل ہوجانے کے بعد بھی ملزمین کی سزا میں تخفیف کیلئے اپنے اختیارات استعمال نہ کرے۔ دوسرے جن 13 مجرمین کو کم سزائیں دی گئیں ان میں ایک خاطی مانگی لال جین کو 10 سال کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ دوسرے 12 ملزمین کو 7 سال قید سنائی گئی ہے ۔عدالت کے اس فیصلے پر ذ کیہ جعفری بیوہ احسان جعفری جواس کیس کی پیروی کررہی تھیں اور جن کے ساتھ سماجی جہد کار تیستا سیتلواد بھی شامل تھیں، نے عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزاؤں پر اپنی مایوسی اور عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ عدالت نے ان سے ناانصافی کی ہے ۔ ذکیہ جعفری نے کہاکہ وہ خصوصی ایس آئی ٹی عدالت کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع ہوں گی ۔ ان سزاؤں کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کرنا انصاف کا تقاضہ ہے ۔ عدالت نے آج اس کیس میں گیارہ ملزمین کو سزائے عمر قید سنائی ہے ۔ ذکیہ جعفری خاص طور پر 12 خاطیوں کو صرف سات سال اورایک خاطی کو صرف 10 سال کی قید سنائے جانے سے بطور خاص ناراض تھیں۔ انہوں نے اس کیس میں دیگر 36 ملزمین کو بری کردیئے جانے پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔
ذکیہ جعفری نے کہا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیوں صرف 11 افراد کو عمر قید دی گئی ہے اور کچھ کو صرف سات سال کی سزا سنائی گئی ہے ۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ منتخبہ انداز کیوں اختیار کیا گیا ہے جکبہ یہ تمام ہی اس ہجوم کا حصہ تھے جس نے گلبرگ سوسائٹی کے اندر لوگوں کا قتل کیا ہے۔یہ غلط انصاف ہے ، عدالت نے ان سے ناانصافی کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان فسادیوں نے جس وحشتناک مجرم کا ارتکاب کیا تھا اس کے پیش نظر یہ سزائیں کافی نہیں ہیں اور کم از کم ان تمام خاطیوںکو عمر قید کی سزا سنانی چاہئے تھی ۔ خصوصی عدالت نے اس کیس میں کسی سازشی پہلو کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ گلبرگ سوسائٹی میں سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی فائرنگ میں ایک شخص کی ہلاکت نے ہجوم کو مشتعل اور برہم کردیا تھا جس کے باعث ہجوم ’’دیوانہ وار ہلاکتوں‘‘ پر آمادہ ہوا اور کہا کہ فائرنگ سے ہجوم کی کارروائیاں روکی نہیں جاسکتی تھیں۔
جج پی بی دیسائی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ احسان جعفری کی خانگی فائرنگ تھی جس نے ہجوم کو اس درجہ مشتعل کردیا کہ وہ قابو سے باہر ہوگیا ۔ وہاں موجود محدود پولیس فورس کو اس طرح کے ہجوم پر قابو پانے یا منتشر کرنے کا کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا۔ یہ ہجوم خانگی فائرنگ کے بعد بڑی تعداد میں وہاں جمع ہوگیا تھا ۔ فیصلہ میں بتایا گیا کہ جعفری کی بندوق سے 8 راؤنڈ کی فائرنگ کی گئی جس میں ایک شخص ہلاک اور دیگر 15 زخمی ہوئے تھے۔
عدالت نے کہا کہ احسان جعفری نے اپنے ہتھیار سے مختلف مقامات سے ہجوم پر فائرنگ کی جس میں ایک شخص ہلاک اور دیگر کئی زخمی ہوگئے ۔ ہجوم کے دیوانہ وار حملوں کے نتیجہ میں بڑی تعداد میں بے قصور افراد اپنی جانوں سے محروم ہوئے۔ جج نے مزید کہا کہ جعفری کی فائرنگ نے ہجوم کو ہلاکتوں کیلئے مشتعل کیا اور انہوں نے سازشی پہلو کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سنگین اور وحشیانہ سانحہ اچانک پیش آیا۔ معلوم ہوا ہے کہ احمد آباد کے ایک بی جے پی کارپوریٹر کو جو اس واقعہ میں راست ملوث تھا اور تشدد پرہجوم کو اکسا رہا تھا اسے الزامات سے بری کردیا گیا ہے ۔
گلبرگ سوسائٹی احمد آباد قتل عام کیس میں خصوصی عدالتی فیصلہ کے بعد بی جے پی اور کانگریس نے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں شروع کردی ہیں۔ خصوصی تفتیشی ٹیم کی عدالت نے 11 مجرمین کو عمر قید کی سزا سنائی ۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے گجرات کانگریس کے ترجمان منیش دوشی نے بتایا کہ جو لوگ بی جے پی قائدین کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن گئے تھے ، وہ اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے ہیں لیکن اصل ملزمین اقتدار کا مزہ لوٹ رہے ہیں ۔
انہوںنے کہا کہ جولوگ بعض سیاسی لیڈروںکے ہاتھ میں کھلونا بن گئے تھے اب انہیں جیل کی ہوا کھانی پڑے گی اور جن لوگوں نے انہیں سیاسی مقاصد کیلئے اکسایا تھا وہ اب اقتدار پر قابض ہیں۔ کانگریس ترجمان نے کہا کہ گلبرگ سوسائٹی کے واقعات انتہائی بربریت ناک اور غیر انسانی تھے اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے حکومت نے پر تشدد ہجوم کو کھلی چھوٹ دے دی تھی اور اس وقت حکومت دستوری فرائض انجام دینے میں ناکام ہوگئی تھی اور جبکہ بی جے پی لیڈروں نے بعض لوگوں کو تشدد پر اکسایا تھا، ان لیڈروں نے تشدد کو حصول اقتدار کا ہتھیار بنایا تھا ۔
دوسری جانب گجرات بی جے پی کے ترجمان بھرت پانڈیہ نے کانگریس کے ان الزامات کو مضحکمہ خیز قرار دیا ہے اور کہا کہ گلبرگ قتل عام واقعہ کے پس پردہ کوئی سازش نہیں تھی ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ کانگریس پارٹی اور سماجی جہد کار تیستا سیتلواد نے سیاسی اور ذاتی مفاد کیلئے سازش کا نظریہ پیش کیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ آج عدلیہ کے فیصلہ کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
ہندوستانی عوام کے ذہنوں میں خصوصاً مسلمانوں کے ذہنوں میں آج تک بھی گجرات 2002 ء فروری کے مسلم کش فسادات کی یاد تازہ ہے جس میں قریب 3,000 تین ہزار مسلمان مارے گئے تھے جو کہ نتیجہ تھا ایک افواہ کا کہ گودھرا ٹرین کو جس میں بابری مسجد سے واپس ہونے والے کارسیوک سوار تھے جلایا گیا ہے ۔ بعد کی تحقیقات کے بعد معلوم ہوا تھا کہ ٹرین کو آگ باہر سے نہیں بلکہ اندر سے ہی لگی تھی جس میں قریب 50 کارسیوک زندہ جل کر ہلاک ہوگئے تھے ۔ اس وقت گجرات کی بی جے پی حکومت کے چیف منسٹر نریندر مودی تھے جو اب ہندوستان کے وزیراعظم ہیں۔
گجرات کے کئی اضلاع خصوصاً احمد آباد (صدر مقام) میں بلوائیوں کا بربریت اور ظلم کا ننگا ناچ دیکھنے میں آیا تھا جہاں کی گلیاں در و دیوار معصوم بچوں، خواتین اور ضعیف حضرات کے خون سے رنگی گئیں تھیں اور ہر طرف احمد آباد میں مسلمانوں کی لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی ہوئی تھیں جن میں اس روز کوئی دفنانے والا تک نہ مل سکا، جنہیں گدھ اور چیل نوچ نوچ کر کھا رہے تھے ، جنہیں انسانی بھیڑیوں نے ہلاک کر ڈالا تھا ۔ یہ سب بربادی اور قتل خون کی ہولی اس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی کی ناک کے نیچے ان ہی کے دور حکومت میں ہوئی ۔ مودی اپنے دستوری فرائض میں اس وقت ناکام رہے بلکہ معلوم ہوا کہ انہوں نے ان واقعات پر اپنی مجرمانہ خاموشی بھی اختیار کی تھی اور بلوائیوں اور غنڈہ عناصر کو انہوں نے سب کچھ کرلینے کی کھلی چھوٹ بھی دیدی تھی ۔ گلبرگ سوسائٹی پر ہجوم کے حملہ کے وقت سابق ایم پی احسان جعفری نے کئی بار مودی سے سونیا گاندھی سے ربط پیدا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کوئی ان کی زندگی بھر ان کے ساتھ بہت سے افراد کی زندگیاں بچانے اور ان کی مدد کو تیار نہ تھا ۔ مودی نے ان کے کسی فون کال کا جواب بھی نہیں دیا ۔
بتایا گیا ہے کہ خود چیف منسٹر مودی نے کہا تھا کہ ’’ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے ‘‘ بہرحال گجرات 2002 فسادات کا بھوت مودی کا زندگی بھر پیچھا کرے گا ۔ امریکہ اور برطانیہ میں مودی کے داخلہ پر پابندی اسی وجہ سے لگائی گئی تھی ۔ پولیس اور دوسری لاء اینڈ آرڈر برقرار رکھنے والی تنظیموں اور انتظامیہ کو بھی درپردہ معلوم ہوا کہ بلوائیوں کو فری ہینڈ دینے کے احکامات دیئے گئے تھے ۔ اس طرح تین دن تک شہر میں قتل و خون اور لوٹ مار کا بازار گرم رہا اور ایسا لگ رہا تھا کہ گجرات میں کوئی حکومت ہے ہی نہیں۔
گلبرگ سوسائٹی میں جہاں مسلمانوں کی کثیر آبادی رہتی تھی وہاں جو ہجوم پہنچا اسے معلوم تھا کہ وہاں مسلمانوں کی کثیر آبادی بستی ہے اور وہ پوری تیاری کے ساتھ ہتھیاروں تلواروں اور چاقوؤں سے لیس ہوکر وہاں جمع ہوئے تھے اور ان مکینوں پر حملہ کرنے کی غرض سے وہاں جمع ہوئے تھے جو کہ ایک منصوبہ بند سازش تھی ۔ہجوم وہاں کے مکینوں کوپھول دینے نہیں گیا تھا بلکہ انہیں ختم کردینے گیا تھا ۔ اگر ایسے میں کوئی اپنی حفاظت خود اختیاری کیلئے اپنی آخری کوشش بندوق سے فائرنگ کر کے ہجوم کو کو بھگانا چاہتا ہے تو اسے قصوروار قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ حفاظت خود اختیاری نہ صرف انسان بلکہ جانوروں کابھی بنیادی حق ہے ۔ اگر بلی کو بھی بند کمرے میں پیٹنا شروع کردیں تو وہ بھی ایک موقع پر آپ کے گلے پر حملہ کردیتی ہے ۔ ہجوم جو مہلک ہتھیاروں سے لیس تھا اور انہیں مسلمان اکثریتی بستیوںکا پتہ معلوم تھا ، وہاں پہنچا تھا ۔ کیا یہ اچانک حملہ ہوسکتا ہے ؟ یہ ایک مجرمانہ سازش نظر آتی ہے ۔
احسان جعفری کی اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان بچانے ، اپنی حفاظت سیلف ڈیفنس کی خاطر فائرنگ ایک فطری امر ہے جسے کوئی بھی شخص اس صورتحال ، اس نازک لمحہ میں کرگزرتا ہے۔ عدلیہ کو جعفری کی فائرنگ کو ایک وجہ ہجوم کے مشتعل ہونے کی بتانا نہیں چاہئے تھا ۔ ہجوم تو ان کے بی جے پی قائدین کی اشتعال انگیز تقاریر اور اکسانے سے پہلے ہی مشتعل ہوکر گلبرگ سوسائٹی پہنچا تھا تاکہ ’’مسلمانوں سے بدلہ ‘‘ لیا جائے جیسا کہ انہیں سپہ سالار اعلیٰ کی ہدایات تھیں ۔ اس موقع پر ایک مکالمہ بھی منظر عام پر آیا تھا کہ مجرمین آپس میں بات چیت کر رہے تھے کہ ’’پولیس اور غیر سماجی عناصر کو کھلی چھوٹ کے احکام پہلے ’’سفید داڑھی والے کی طرف سے کالی داڑھی والے کو ملے اور اس نے یہ سارے ہنگامے اپنی سر پرستی میں کروائے ۔ یہی مکالمہ گجرات فسادات کی تحقیق کرنے والے کمیشن کے صدرنشین جسٹس شاہ اور ان کے ساتھی نے بھی سنا تھا ۔
یہ بات مسلمہ ہے کہ گجرات 2002 ء فسادات کی ڈور اس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی اور ان کے نائب وزیر داخلہ امیت شاہ تک جاتی ہے جن کا گٹھ بندھن ابھی تک قائم ہے ۔ کسی طرح نریندرمودی اور امیت شاہ قانونی پیچیدگیوں اور قانونی ہتھکنڈوں کے سہارے ان فسادات کی ذمہ داری سے بچ رہے ہیںاور ہر جگہ سے ’’کلین چٹ‘‘ حاصل کر رہے ہیں مگر وہ دنیا کی عدالتوں سے تو کلین چٹ حاصل کر رہے ہیں مگر وہ ایک اور سب سے بڑی اور آخری عدالت میدان حشر) میں کس طرح کلین چٹ حاصل کرسکیں گے جبکہ وہاں خود ہمارے اپنے اعضاء و جوارع خود بے گناہی اور گناہ کے ثبوت فراہم کریں گے اور وہ خود بول پڑیں گے۔ اسی لئے ہر انسان کو اس آخری عدالت سے ڈرنا چاہئے اور نیک عمل کرتے ہوئے کسی پر بھی ظلم و زیادتی اور درندگی سے گریز کرنا چاہئے۔