غضنفر علی خان
یوں تو ہندوستانی مسلمان آزادی کے بعد سے آج تک بے شمار فرقہ وارانہ فسادات کے شکار بنائے گئے لیکن 2002 ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات سارے ہندوستان اور بالخصوص مسلمانوں کے کبھی نہ فراموش کئے جانے والا سانحہ بن گئے ہیں۔ 1992 ء میں بابری مسجد کے صدمہ سے ابھی مسلمان سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ ان پر گجرات کی اُس وقت کی مودی حکومت نے ان کے لئے قیامت صغریٰ بپا کردی۔ بہت سے واقعات قتل، غارتگری، آتش زنی ان فسادات میں ہوئے لیکن ان تمام میں احمدآباد شہر کی گلبرگ رہائشی سوسائٹی میں بیک وقت 69 زندہ انسانوں کے قتل کا واقعہ انسانی ضمیر پر ایک داغ بن کر رہ گیا۔ اس جگہ کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ بھی رہائش پذیر تھے۔ ان کی بیوہ ذکیہ جعفری آج بھی اپنے شوہر کے قتل اور ساری بستی کے قتل عام کے کیس میں اہم ترین فریق ہے۔ گزشتہ دنوں ان فسادات کے مقدمہ کی سماعت کے دوران قتل عام کے کسی مجرم کو اس خصوصی عدالت نے موت کی سزا نہیں دی البتہ 11 ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی۔ خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی عدالت نے حالانکہ اس قتل عام کو ’’متمدن سماج کی تاریخ کا سیاہ ترین دن‘‘ قرار دیا اور فیصلہ کو نہایت نرم قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم فیصلہ میں مرحوم کانگریسی رکن پارلیمان احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کی اپیل سنی ان سنی کردی گئی جس کی وجہ سے ذکیہ جعفری جیسی مظلوم خاتون اور دیگر اُن لوگوں کو جو مقدمہ کے فریق تھے، سخت مایوسی ہوئی۔ تسکین اور جھوٹے دلاسہ کے لئے فیصلہ میں کہا گیا کہ جن ملزمین کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے اس کی مدت ان لوگوں کی موت تک رہے گی لیکن یہ سزائے موت کا متبادل نہیں ہے کیوں کہ فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ موت تک سزائے عمر قید کی بات ریاستی حکومت کی جانب سے اس نوعیت کی سزا میں تبدیلی یا تغیر کی صورت میں شاید بدلی بھی جاسکتی ہے۔ خصوصی عدالت کے جج بی پی ڈیسائی نے کہا ہے کہ ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اسی جج موصوف نے فیصلہ میں ’’عمر قید موت تک‘‘ کی بات کہنے سے انکار کیا۔ عدالت نے ان فسادات میں اہم رول ادا کرنے والے مجرم منگی لال جین کو صرف 10 سال قید کی سزا سنائی۔ جملہ 13 ملزمین تھے جن پر برسوں جرح ہوتی رہی، کئی شہادتیں بدل بھی گئیں کچھ ملزمین کو صرف 7 سال کی سزا سنائی گئی۔
محترمہ ذکیہ جعفری نے اپنے شدید جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ عدالت نے مجرمین کو صرف عمر قید کی سزا دے کر ان کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ یہ خاتون نہایت پُرعزم ہیں۔
ان کی قانونی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ظاہر ہے کہ وہ اس ادھورے انصاف کے خلاف ہائی کورٹ بلکہ ضرورت پڑنے پر سپریم کورٹ بھی جائیں گی۔ انھیں بڑی سے بڑی عدالت کے دروازے کھٹکھٹانے ہوں گے۔ جہاں تک گجرات ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا تعلق ہے اس سے محترمہ ذکیہ جعفری کو یہ توقع کم ہی کرنی چاہئے کہ ہائی کورٹ ان سے انصاف کرے گا۔ کیوں کہ ہائی کورٹ میں گجرات حکومت اثرانداز ہوسکتی ہے۔ اب یہ بات سبھی کو معلوم ہوچکی ہے کہ مرکزی حکومت جس کی باگ ڈور بی جے پی کے ہاتھ ہے، اپنے سے تعلق رکھنے والے ہر مجرم کو بچانے یا کم از کم ماخوذ ہونے کی صورت میں نرم دفعات لگانے، کم سے کم سزا دینے کے لئے مالیگاؤں بم دھماکوں کے ملزمین کی مدد کرچکی ہے۔ اس لئے محترمہ ذکیہ جعفری کو ہمت نہ ہارتے ہوئے گلبرگ سوسائٹی کے قتل عام کیس کی پیش رفت کسی دوسرے ہائیکورٹ میں کرنے کی پہل کرنی چاہئے۔ جیسا کہ مشہور قانون داں تیستا ستلواد نے اس سے پہلے کہا تھا۔ گجرات ہائی کورٹ میں اگر کارروائی ازسرنو بھی شروع کی جاتی ہے تو مودی اور بی جے پی حکومت سے یہ توقع رکھنا کہ انھیں انصاف ملے گا پوری نہیں ہوگی۔ ذکیہ جعفری نے اپنے شوہر احسان جعفری کو بے کسی و بے بسی کی موت مرتے ہوئے دیکھا ہے۔
شوہر کے علاوہ سوسائٹی کے اور بھی جو لوگ قتل کئے گئے ان تمام کی وہ عینی شاہد ہیں۔ عدالت کا یہ تاثر کہ مرحوم احسان جعفری نے اپنی مدافعت میں گولی چلائی تھی جو آگ پر تیل کا کام کر گئی اور گلبرگ سوسائٹی میں فسادیوں کا مجمع اور بھی بے قابو ہوگیا۔ یہ فسادی سوسائٹی میں کسی تقریب میں شرکت کے لئے نہیں آئے تھے، ان کے ذہن میں صرف قتل و غارتگری کا منصوبہ تھا۔ وہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل عام کررہے تھے۔ رہا سوال احسان جعفری کا اپنی حفاظت کے لئے فائر کرنے کا تو قانون میں اس بات کی گنجائش ہے کہ اگر کوئی شخص یا گروہ قتل کے درپے ہوجائے تو مظلوم کو اپنے دفاع کا حق ہوتا ہے۔ احسان جعفری نے اگر فائر کیا بھی تھا تو گویا انھوں نے اپنے قانونی حق کا استعمال کیا تھا لیکن فسادیوں کے مذموم عزائم تو شروع ہی سے صاف تھے یہ کہنا کہ احسان جعفری کی فائرنگ کی وجہ سے مجمع بھڑک اُٹھا ، معقولیت کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترتا، کسی قانونی حق کو استعمال کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ ویسے بھی اس مسئلہ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ احسان جعفری کے بیٹے تنویر اور کچھ اور عینی شواہد کا کہنا ہے کہ مرحوم جعفری نے کوئی فائر نہیں کیا تھا۔ ایس آئی ٹی کی عدالت نے یہ کہہ کر سچائی چھپانے کی کوشش کی ہے کہ فسادیوں کی کارروائی ایک ردعمل تھا۔ اب آئندہ عدالت میں جب بھی مقدمہ پیش ہوگا اس میں یہ پہلو اہم ہوگا کہ آیا مرحوم جعفری نے فائر کیا تھا اور اگر کیا تھا تو کن حالات میں کیا تھا، کیا ان کو اپنی مدافعت کے حق سے بھی محروم کردینا انصاف کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ یہ اور ایسے کئی پہلو ہیں جن پر آئندہ قانونی کارروائی میں غور کیا جائے گا۔ ذکیہ جعفری کو اپنی بلند حوصلگی کو یونہی برقرار رکھنا چاہئے کیوں کہ ملک کے تمام انصاف پسند اِن کے ساتھ ہیں اور ہمارے عدلیہ کے کئی دروازے ہیں ایک در سے انھیں پورا انصاف نہ مل سکا تو کیا ہوا اپنی قانونی جدوجہد کو ایسے ہی جاری رکھتے ہوئے ذکیہ جعفری کو اُمید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ قانون کی اصل روح یہ ہے کہ کسی مجرم کو اس کے جرم سے کم یا اس سے زیادہ سزا نہ دی جائے۔ قانون کی اسپرٹ یہ ہے کہ جرم ثابت ہونے تک کوئی شخص مجرم نہیں ہوتا۔ قانون نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ مجرم یا ملزم کو کسی ایک جرم کے لئے دوبارہ سزا نہیں دی جاسکتی۔ ان بنیادی باتوں میں کسی ایک کو بھی گلبرگ سوسائٹی کے کیس کے ملزمین کے ضمن میں ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ یہ ادھورہ اور نامکمل فیصلہ ہے۔ ملزمین کو ان کے جرم سے کم تر سزا دینا بھی ناانصافی ہے اور گلبرگ سوسائٹی کیس میں ایسے ہی ہوا ہے۔ ان فسادات نے ملک کو ساری دنیا میں بدنام کردیا تھا اب جبکہ اس گھناؤنے جرائم کے مرتکبین کو بھرپور سزا نہ دی جائے تو اس سے ہمارے عدلیہ کی نیک نامی پر اثر پڑے گا۔ گجرات کے فسادات اور خاص طور پر گلبرگ سوسائٹی کے قتل عام کا بھوت مودی حکومت کا مسلسل پیچھا کررہا ہے اور آخر و قطعی انصاف کے حصول تک یہ تعاقب جاری رہے گا۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلے گا جب تک کہ مجرموں کو ان کے جرائم کی معقول سزا نہ دی جائے گی۔ تب تک محترمہ ذکیہ جعفری کی قانونی لڑائی جاری رہے گی اور انھیں ملک کے انصاف پسندوں کی تائید حاصل رہے گی۔