گرفتار شدہ سماجی کارکنان کا قصور کیا ہے ؟ بقلم :۔ آکار پٹیل 

ہندوستان میں لوگ اکثر کہتے ہیں کہ ہمیں عدلیہ پر بھروسہ ہے او رقانون کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے ۔ میں اس قسم کے جملہ کبھی نہیں استعمال کرتا ۔ ہندوستان میں قانون کے اپنی حد مقرر ہے ۔ حکومت اپنے شہریوں پر غلط الزامات عائد کرتی ہے اور عدلیہ عام طور پر اس پر آواز نہیں اٹھاتا ۔ میں اس بات کی وضاحت ایک کیس کی مدد سے کرنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں ہم کئی دنو ں سے سن رہے ہیں ۔یہ کیس ہے سماجی کارکنان کا جنہیں یہ حکومت او رمیڈیا ’’ اربن نکسل ‘‘ (شہروں میں رہنے والے نکسل ) کہہ رہے ہیں ۔ میں قارئین سے کہنا چاہوں گا کہ وہ ان کے بارے میں فی الحال کوئی رائے قائم نہ کریں ۔ خاص طور پر اخبارات او رمیڈیا پر ان کے تعلق سے پڑھنے اور سننے کے بعد ۔ یہ صحیح نہیں ہے ۔ کسی جمہوری ملک میں شہریوں کو اس طرح حراست میں نہیں لیا جاسکتا ۔ اگر ہندوستان میں عدلیہ کی بالادستی ہوتی تو ان کارکنان کے ساتھ بھی ایسا نہیں ہوتا کیو نکہ ہر ملک کی عدلیہ اپنے شہروں ’’کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے ۔ پولیس نے انہیں حراست میں لینے کا بھی کو بھی ثبوت پیش کیا ہے وہ ہمارے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ تاہم میں اس بات کو قبول کرتا ہوں کہ عدلیہ نے ہی اس کیس کی خامیوں کا انکشاف کیا ہے ۔ میرا اشارہ سپریم کورٹ کو نہیں بلکہ دہلی ہائی کورٹ کی طرف ہے ۔

جسٹس ایس مریدھر نے اس کیس پر جو آرڈر جاری کیا ہے اسے ملک کے تمام شہریو ں کو پڑھنا چاہئے ۔ ۱۰؍ صفحات پر مشتمل یہ آرڈر بہتر او رواضح ہے۔ آرڈر کے مطابق : ۲۸؍ اگست کو گوتم نولکھا کو دہلی سے گرفتار کیاگیا ۔ پولیس کے پا س سرچ وارنٹ نہیں تھا اور نہ ہی پولیس کو ان کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت تھی ۔ پولیس واپس گئی او روارنٹ لے کر آئی ۔ گوتم نولکھا کے خلاف ایف آئی آر ۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۷ء کو ہونے والے ایک واقعہ کی بنیاد پر فائل کی گئی تھی ۔ تاہم ایف آئی آر میں گوتم کا نام درج نہیں تھا ۔ان کا کہناہے کہ وہ اس میٹنگ میں موجود ہی نہیں تھے ۔ اصل ایف آئی آر میں گوتم پر یو اے پی اے کا چارج بھی نہیں لگایا گیا ہے ۔ ایف آئی آر میں درج سیکشن میں امن و امان کو نقصان پہنچانے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ گوتم کو گرفتار کرنے کے بعد پونہ لیجایا گیا ۔ ٹرانزٹ ریمانڈ کا لیٹر ہندی میں تیار کیاگیا تھا ۔ تاہم مجسٹریٹ کے سامنے پیش کی جا نے والی دستاویزات میں سے زیادہ تر مراٹھی زبان میں تھیں ۔

دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ ان دستاویزات سے یہ نتیجہ اخذ ’کرنا ناممکن ہے کہ درخواست گذار نے کس ضمن میں کیس فائل کیا ہے ۔ ‘‘ ہندوستان کے شہری ہو نے کے ناطہ ہمیں یہ سوال کرناچاہئے کہ ٹرانزٹ ریمانڈ کی اجازت مجسٹریٹ نے کیوں دی ؟ ہائی کورٹ نے کہا کہ اس کیس کی سماعت اگلے دن ہوگی او رمجسٹریٹ کے سامنے جو دستاویزات مراٹھی زبان میں پیش کی گئی ہیں ان کا ترجمہ کیا جائے ۔ دریں اثناء گوتم کو اس جگہ لے جایا گیا جہاں سے انہیں گرفتار کیا گیا تھا ۔ اگلے دن صبح ، پولیس کے ایڈوکیٹ نے کہا کہ ترجمہ کرنے کیلئے مزید وقت درکار ہے ۔ عدالت نے ترجمہ کرنے کیلئے مزید وقت درکار ہے ۔ ۲؍ بجکر ۱۵؍ منٹ پر کورٹ میں چند صفحات پیش کئے گئے جس میں ایف آئی آر کا بھی انگریزی میں ترجمہ کیا گیا تھا ۔ تاہم زیادہ تر مواد مراٹھی میں ہی تھا ۔

پولیس کے وکیل نے مزید وقت طلب کیا مگر کورٹ نے اسے مزید وقت دینے سے انکار کردیا ۔ کورٹ نے کہا کہ وہ اس گرفتار ی کی قانونی حیثیت کے تعلق سے او رسی ایم ایم کے تعلق کی جانب سے منظورہ شدہ ٹرانزٹ ریمانڈ کی قانونی حیثیت سے تشویش میں مبتلا ہے ۔ کورٹ نے کہا کہ ایف آئی آر میں گوتم نولکھا کا نام نہیں ہے ۔چنانچہ سی ای ایم کے سامنے پیش کئے جانے شواہد کی نوعیت کیا ہے ؟ اس کے بعد عدالت نے مہارشٹرا پولیس سے سوال کیا کہ اس کیس کی تفتیش کے دوران سی ایم ایم نے کبھی کیس ڈائری کا بھی جائزہ لیا ہے جس میں درخواست گذار کے ملوث ہونے کے تعلق سے مواد موجود ہے ۔اس کے بعد نہیں میں جواب دیا ۔ اس کے بعد انکشاف ہوا کہ کیس ڈائری بھی مراٹھی میں ہے ۔ پولیس کے وکیل نے کہا کہ گوتم ضمانت کی درخواست کر سکتا ہے ۔ او ریہی اصل مسئلہ ہے ۔ ۲۹؍ اگست تک یہ کیس یہاں تک پہنچا تھا ۔ پولیس کے وکیل نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے معاملے میں مداخلت کی ہے ۔ اس کے بعد ہائی کورٹ نے کہا کہ ٹرانز رٹ ریمانڈ کی توثیق کے سماعت کرنا اس کے لئے مناسب نہیں ہے ۔

اس کے بعد ۶؍ ستمبر ۲۰۱۸ء کو سپریم کورٹ نے ان ۵؍سماجی کارکنوں کی گرفتاری پر مہاراشٹرا پولیس کو اس کی حدود یاددلائی او رکارکنو ں کی نظر بندی میں توسیع کردی نیز سماعت ۱۲؍ ستمبر تک ملتوی کردی ۔ جسٹس چندر چڈ نے کہا کہ میں نے پونہ پولیس کی پریس کا نفرنس لائیو دیکھی ہے اور پولیس افسران کے بیان سے ایسا اشارہ مل رہا تھا کہ وہ سپریم کورٹ سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اس معاملہ میں مداخلت نہ کریں ۔جسٹس چندر نے کہا کہ پولیس سپریم کورٹ کو یہ نہیں کہہ سکتی ہے کہ اسے کیا کرنا چاہئے کیا نہیں ۔ ۱۲؍ کو ستمبر کو ہونے والی سماعت کا ہم میں سے کئی لوگوں کو بے صبری سے انتظار ہے ۔