گذشتہ حیدرآباد کے یادوں کے نقوش

پہلی قسط

ایم اے کلیم
جناب ریاض الحسن صاحب کا مضمون حیدرآباد جو کل تھا عنوان سے بڑھا۔ آج کل جیسا کہ طریقہ بن گیا ہے کہ چائے میں چینی کم ، کم ، کم اسی طرح مجھے اس مضمون میں حیدرآباد کم ، کم ، کم دکھا ۔ ہوتا کیوں نہیں کیونکہ محترم کا حیدرآباد شروع میں 1952 سے ہوا ۔ جو نظام کا حیدرآباد نہیں تھا ۔ اس لئے میں نے سوچا کہ ریاض صاحب کے حیدرآباد کے ماضی قریب سے دور قارئین کو حیدرآباد کے ماضی بعید میں لے چلوں ۔
صبح کے 6 بجے ہوں گے کہ ایک کڑک زوردار آواز آتی تھی جو کم از کم ½ کیلو میٹر تک سنی جاسکتی تھی ۔ یہ آواز تھی اے ، اے ، اے لال مٹے ( مٹی ) اے اے اے ۔ اس کے ساتھ لوگ ٹین کے ڈبے لیکر لال مٹی کی بنڈی سے مٹی خرید لاتے تھے ۔ یہ مٹی چولہوں کی لیپا پوتی یا پھر جن کے گھر میں پتھر کا فرش نہیں ہوتا تھا تو فرش کے لیپنے کیلئے استعمال ہوتی تھی ۔ 50 فیصد مکانوں میں پتھر کا فرش جس کو سیلو کا فرش بھی کہا جاتا تھا نہیں ہوتا تھا ۔
یہاں میں اصل موضوع سے گریز کرتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ وہ حیدرآباد ہوکہ کوئی دوسرا مقام ، جانے ان جانے میں ارتقا کی منازل طئے کرتا رہتا ہے ۔ آج کل تو سیاسی جماعتوں کا وطیرہ بن گیا ہے ۔ انگشت نمائی کرنے کا ہر وقت کہا جاتا ہے کہ اتنے سال ہوگئے آزاد ہوکر آپ کی پارٹی نے کیا کیا ، ہم جہاں تھے وہیں ہیں ۔ یہ سراسر غلط الزام ہے کوئی چاہے یا نہ چاہے ارتقای عمل ہوتا رہتا ہے یہ اور بات ہے کہ کبھی تیز ہوتا ہے کہ آپ محسوس کرسکتے ہیں اور کبھی آہستہ کہ نظر نہیں آتا ۔ اس مضمون میں میں آپ 1944 دوسری عالمی جنگ کے آخری زمانے تک لے چلوں گا ۔ آپ خود ہی دیکھ لیں گے کہ حیدرآباد کتنا بدل گیا ۔ یہاں حیدرآباد سے میری مراد تمام ریاست حیدرآباد ہے نہ کہ صرف بلدہ حیدرآباد ہے ۔

بلدہ حیدرآباد میں ایک متوسط گھرانے کا مکان 400 تا 500 مربع گز پر محیط ہوتا تھا ۔ جس کے آدھے حصے پر مکان ہوتا تھا اور دوسرا اوسط حصہ خالی صحن ۔ ایک دالان ہوتا تھا تقریباً 25 فٹ لمبا اور 10 ، 12 فٹ چوڑا ۔ اس کے سامنے پیش دالان ہوتا تھا وہی لاتمائی کا اور چوڑائی کسی قدر کم یعنی 10 فٹ دالان اور پیش دالان کے دونوں طرف ، دو دو کمرے ہوا کرتے تھے ۔ جو شادی شدہ حضرات کے حصے میں آتے تھے ۔ دوسرے تمام حضرات دالان اور پیش دالان میں دن اور رات گذار دیتے تھے ۔ آج کل کی طرح ہر ایک کی قسمت میں بیڈ روم نہیں ہوا کرتا تھا ۔ رات میں پلنگ ہوتو پلنگ بصورت دیگر توشک بچھاکر سوجاتے اور صبح ہوتے ہی بستر کو رول کرکے ایک کمرہ میں رکھ دیتے ۔ دن میں اگر تخت ہوں تو بزرگ براجمان ہوتے ، دوسرے دالان میں فرش پر تکیہ یا گاؤ تکیہ لگاکر بیٹھا کرتے ۔ جوتے ، چپل صرف پیش دالان تک ہی لاتے ۔ اگر سیلو کا فرش ( آج کل کا شاہ باد ، دونوں ایک ہی ہیں ) ہو تو اس پر شطرنجی بچھاکر اس پر چاندنیاں بچھادی جاتیں اور اگر مٹی کا فرش ہوتو اس پر پہلے بوریا بچھاکر شطرنجی بچھایا کرتے تھے ۔ خالی صحن میں دوسری طرف حمام ، باورچی خانہ ، مودی خانہ اور ایک کونے میں بیت الخلاء ہوا کرتا تھا ۔ جس پر چھت ہوتا ہی نہیں تھا یا صرف آدھے حصے تک محدود ہوا کرتا تھا تاکہ ہوا کا گذر اچھا ہو ۔ بدقسمتی سے اس زمانہ میں انسان فضلہ کی نکاسی کیا کرتے تھے ۔ اب آئے دیواروں کی طرف دیواریں ردہ کی مٹی کی ہوا کرتی تھیں ۔ ابھی اینٹ کا استعمال شروع ہوا تھا ۔ اس کے بعد اس کی سفید چونے سے آہک پاشی ہوتی تھی ۔ اسی لئے یاد کیجئے لوگ کیا کہتے تھے ۔ ’’ حیدرآباد نگینہ ، اندر مٹی اوپر چونا ‘‘ یاد آیا ؟

چھت کیلئے لکڑی کے Truss بنائے جاتے اس پر Rafters اور Reapers بنائے جاتے اس کے بعد دیسی کویلو کو تیز پتھر سے کاٹ کر دو مساوی ٹکڑے بنادیتے تھے اور پھر ان کویلیوں کی ایک Layer سیدھی اور دوسری الٹی رکھ کر پورا چھت چھادیتے ۔ جب پانی پڑتا تو کویلو کی نالیوں سے گذرتا ہوا یا اولٹی سے ہوتا ہوا نیچے گرجاتا ۔ اس طرح ابھی تک پکے چھتوں کا زمانہ نہیں آیا تھا ۔ پھر رفتہ رفتہ Tack Arch اور Madorss Terrace کے چھت بننے لگے اور اس کے ساتھ ہی دو منزلوں کا رواج بھی شروع ہوا۔ پھر بھی دو منزلہ عمارت ، پتہ سمجھانے کیلئے Land Mark کے طور پر استعمال ہوتی تھی ۔ کویلو ( سفالی ) مکان ٹھنڈے ہوتے تھے ۔ اس میں ہوا Insulation کا کام کرتی تھی ۔ Tack Arch اور Madross Terrace ، RCC کی بنسبت ٹھنڈے ہی ہوتے ہیں ۔ اس کی وجہ ان کی موٹائی ہے تقریباً 10 انچ کے قریب ہوتی ہے ۔ اونچے چھتوں کا رواج تھا جو تقریباً 12 فٹ سے زیادہ اونچائی کی ہوتیں تھیں ۔

چلئے اب ذرا حیدرآباد بلدہ کے بازاروں کا ذکر ہوجائے ۔ ان میں لاڈ بازار ، پتھر گٹی ، سلطان بازار اور عابڈس کا ذکر ضروری ہے ۔ لاڑ بازار کے تعلق سے یہی کہوں گا کہ بغیر لاڈ بازار کی خریدی کے حیدرآباد کی کوئی مسلم شادی ہوہی نہیں سکتی تھی ۔ رسموں کی ہر چیز یہاں دستیاب ہوتی ہے ۔ چکسہ ، ہلدی ، مہندی ، ابیر ، صندل کے علاوہ گردہ بیلن بھی مل جاتے ہیں جو مسلم شادیوں میں پانچویں جمعگی کا حصہ ہوتے تھے ۔ پتھر گٹی پر کپڑوں کی دوکانوں کی بہتات تھی ۔ وہیں ٹوپیوں کی دوکانات تھیں ۔ اس زمانے میں ننگے سر ، بزرگوں کے سامنے جانا گستاخی سمجھی جاتی  تھی ۔ زیادہ تر لوگ رومی ٹوپی پہنتے تھے ۔ جس میں معری 6 رنگی اور 4 رنگی ہوا کرتے تھے یا نہیں تو پھر شیر گولا جو ذرا مہنگی ہوتی ۔ ان سب ٹوپیوں کے اندر پٹی ہوا کرتی تھی پھر اس پر استر لگاکر استری کے سانچے پر رکھ کر استری کردی جاتی ۔ اس کے بعد اس پر ایک کالا پھنا ٹانکا جاتا جو ٹوپی کی رونق ہوتا تھا ۔ پھر نوجوان ان کو پہن کر کہتے کہ اپنی کلدہ کج ہے ۔ اسی بانکپن کے ساتھ 1948 کے بعد رومی ٹوپی کا رواج کم ہونے لگا اور اس کی جگہ رام پوری ٹوپی نے لے ہی اور بعد میں سرے سے غائب ہوگئی ۔ اب بالوں کے اسٹائل پر زیادہ توجہ ہونے لگی تھی ۔ ان ٹوپیوں کی دوکانات کا ایک حصہ اب بھی موجود ہے ۔ محمد کیاپ مارٹ کی شکل میں جہاں مصری ٹوپیاں کم اور دوسری ٹوپیاں زیادہ بکتی ہیں ۔ جب کہ کشمیری ٹوپی جناح کیاپ یا نماز کی کروشیا کی ہوئی ٹوپیاں جو اب چین سے آتی ہیں ۔ پتھر گٹی جو Ashlar Masoury کی دو منزلہ عمارت پر محمول ہے میں کپڑے ، مٹھیاں ، عطر ، جوتے چپل غرض کے ضرورت کی ہرچیز مل جایا کرتی تھی ۔ ایک بات جو آج کل کے حضرات شاید نہ جانے کے علاج کیلئے گولیاں اور کیاپسول نہیں ہوتے تھے ۔ صرف عرق کا استعمال ہوتا تھا جوکہ ڈاکٹر صاحب کے نسخہ کے لحاظ سے ہر ایک کیلئے علحدہ بنایا جاتا تھا جو کام Dispensing Chemist کیا کرتے تھے اور پتھر گٹی پر حیدرآباد کی بڑی میڈیکل شاپ ، عبدالرزاق کی شاپ کے نام سے جانے جاتی تھی ۔ اس کی ایک برانچ عابڈس پر بھی تھی ۔ ایک خاص بات یہ تھی کہ دوا کی شینی کو حوالے کرتے وقت لاکھ کی سیل لگادی جاتی تاکہ دوا مریض تک صحیح حال میں پہونچے ۔

اس زمانے میں پتھر کا کام کرنے والے اوڑھ اپنے کام میں مہارت رکھتے تھے اور محنت بھی بہت کرتے تھے جس کی وجہ سے آرٹس کالج اور ہائی کورٹ کی جیسی ایشلر پتھر کی عمارتیں سمنٹ استعمال نہیں ہوتی تھی ۔ اس کی جگہ چونے کا سارٹر استعمال ہوتا تھا ۔ جس کو دنگ میں بیلوں کی مدد سے پیسا جاتا تھا ۔ بعد میں Mechanical Mixers بھی استعمال ہونے لگے ۔
مدینہ بلڈنگ 1940 کے دہے کے آخری حصہ میں سعودی عربیہ کے وقف کیلئے جناب صدرالدین صاحب نے بنوائی تھی ۔ جو شہر کی پہلی 4 منزلہ عمارت تھی جو Land Bearing دیواروں پر تعمیر ہوئی ۔ اسی وقت سے اس میں مدینہ ہوٹل قائم ہوئی ۔ جس کو جناب حسین باسط صاحب جوکہ ایرانی تھے چلایا کرتے تھے یہاں کی بریانی انتہائی لذیذ اور سستی ہوا کرتی تھی ۔ 8 میں آدھی پلیٹ پیٹ بھر دیتی تھی ۔ یہاں کا پائے کا سالن بھی کافی مزہ دار ہوتا تھا ۔ ہریس صرف رمضان میں بنتی تھی اور افطار کے بعد ایک گھنٹہ میں ختم ہوجاتی تھی ۔ نہاری جو اس وقت صبح میں ہی تیار ہوتی تھی تقریباً ہر ہوٹل میں بنتی تھی مگر غفور ہوٹل جوکہ مکہ مسجد کے روبرو دوسری منزل پر واقع تھی کی بات ہی کچھ اور تھی ۔ پہلے تو پائے اور زبان کی سائز ایسی کہ کسی اور جگہ نہ ملے اور پھر مزہ ایسا کہ صرف رال نکل جائے ۔ یہ تو تھی لڑکپن کی بات ۔ اب حال میں تقریباً ساٹھ سال کی عمر میں ، میں گوشت خرید رہا تھا کہ ایک صاحب آئے اور 3 کیلو خالص گوشت کی چربی لے کر چلے گئے ۔ میں نے گوشت کی دوکان والے سے پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ یہ چربی نہاری میں ڈالنے کیلئے استعمال ہوتی ہے ۔ وہ دن اور آج کا دن میں نہاری کے نام سے بھاگتا ہوں ۔ اس عمر میں اتنی چربی جسم میں صحیح جائے تو دوران خون کا اللہ ہی حافظ ۔ دل کی رگوں میں آپ بھی کبھی فریج میں نہاری رکھ کر صبح دیکھ لیں کہ کتنی چربی جمع ہوجاتی ہے ۔ حق کی بات یہ ہے کہ اس وقت کے اصحاب محنت کرتے تھے اور چربی ہضم ہوجاتی تھی لوگ پیدل بہت چلا کرتے تھے ۔ میں ایک صاحب سے واقف ہوں جو برسوں پیر و مرشد جناب عبدالعزیز صاحب کی خدمت کیلئے مچھلی کمان سے ملک پیٹ رات میں پیدل جاتے اور صبح فجر کے بعد واپس آکر دفتر جایا کرتے تھے ۔ نئے شہر کی دو ہوٹلیں مشہور تھیں عزیز ہوٹل جس کے کری پف بہت لذیذ ہوتے تھے ۔ یہی ہوٹل بعد میں اورینٹ ہوٹل بن گئی جہاں اردو کے ادیب حضرات صرف ایک چائے پی کر گھنٹوں تبادلہ خیال کرتے ۔ ان میں جناب مجتبی حسین اور جناب مخدوم صاحب کے علاوہ بہت سے ادیب شامل ہیں ۔ ماحول نہایت ہی صاف ستھرا اور شور شرابے سے دور ۔ ویسے اورینٹ کی بریانی بھی لذیذ ہوتی تھی جس میں تیل کم ہوا کرتا تھا ۔ صرف چائے بیچ کر ہوٹل تو چلائی نہیں جاسکتی تھی ۔ آخر کار بند ہوگئی ۔

حیدرآباد کے 3 بڑے دواخانے تھے ، عثمانیہ دواخانہ King George Hospital جو اب گاندھی ہاسپٹل کہلاتا ہے اور زچگی خانہ ، پرنسیس نیلوفر کی عنایت سے نیلوفر دواخانہ موجود ہے آیا جو کہ اب بھی بچوں اور عورتوں کے علاج کیلئے جانا جاتا تھا ۔ اس وقت ڈاکٹر دن میں دواخانہ چلانے کے بعد رات میں اپنی Practice کیا کرتے تھے ۔ اس وقت کے ڈاکٹروں میں ڈاکٹر بنکٹ چندر ، ڈاکٹر شاہ نواز ، ڈاکٹر لطیف سعید جن کا دواخانہ بعد میں ڈاکٹر محمد علی صاحب کو ملا ۔ ڈاکٹر کرلوسکر اور انکے لڑکے دونوں بہت مشہور Practitioner تھے جن کا دواخانہ ساگر ٹاکیز کے مقابل تھا ۔ ان کی لڑکی اور بہو ڈاکٹر شانتا بائی اور ڈاکٹر جئے سری کرلوسکر کے دواخانے عابڈس اور بشیر باغ میں تھے ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر Fernandes اور ڈاکٹر Mascrinis بھی زمانہ امراض کی ماہر تھیں ۔ خاص طور سے Fernandes Hospital کو ان کی لڑکی Avita Fernandes نے خوب ترقی دی اور آج کل یہ دواخانہ Gaencology Obsteries کیلئے حیدرآباد کا Tertairy Center بن گیا ہے۔ بوگل کنٹہ کے اصل دواخانے کو برقرار رکھتے ہوئے حمایت نگر میں اتنا ہی نہیں دواخانہ بنایا ہے جہاں ہر وقت نہایت ہی قابل ڈاکٹر دستیاب رہتے ہیں اور ایک ڈاکٹر ابوالحسن ، عثمانیہ دواخانے میں کام کرتے تھے ۔ جن کو ضلع نلگنڈہ کے فلورین سے آلودہ پانی کے مقابلہ پر FRCS کی ڈگری لندن سے ملی تھی ۔ جب برہمانندا ریڈی چیف منسٹر تھے ۔ اس وقت خانگی پریکٹس کے معاملہ پر اختلاف کرتے ہوئے مستعفی ہوگئے ۔ پھر سعودی عربیہ اور اس کے بعد امریکہ چلے گئے ۔ ایک زمانہ تک ان کے مضامین سیاست میں شائع ہوا کرتے تھے اب تو بے چارے رحلت فرما گئے ۔ اس زمانے کے ڈاکٹروں میں ڈاکٹر سدھیر نائیک ، ڈاکٹر اورنگ آبادکر ماہر امراض جلد ، ڈاکٹر بہادر خان سرجن ، ڈاکٹر ولی الدین سرجن قابل ذکر ہیں اور یہ لوگ اپنے اپنے فن میں یکتائے زمانہ تھے اور ایک ڈاکٹر صاحب تھے ڈاکٹر سکسینہ جو دن میں تو اپنا دواخانہ چلاتے تھے مگر رات میں مریضوں کے گھروں کو جاکر علاج کرتے تھے ۔ رات کے دو بجے تک بھی میں نے ان کو مریضوںکے معائنوں پر Visit دیتے ہوئے دیکھا ہے ۔ ان کی Vax Hall اور Hilman گاڑی دیکھ کر ہی پتہ چل جاتا تھا کہ محلہ میں کوئی سخت بیمار ہے ۔ سنا ہے کہ وہ کار میں ہی ایک مریض سے دوسرے مریض کے مکان جانے کے دوران تھوڑا سوجایا کرتے ۔  (جاری)