ممبئی ۔ 23 ۔ اپریل (سیاست ڈاٹ کام) ممبئی کے مشہور سنیٹ زیویرس کالج کے پرنسپل نے عین رائے دہی سے قبل اپنے طلباء کو بھیجی گئی نصیحت آمیز نوٹس کے ذریعہ ایک تنازعہ پیدا کردیا ہے جہاں انہوں نے نریندر مودی کے گجرات ماڈل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ میلایا سے بات کرتے ہوئے پرنسپل فادر فریزر مسکرنیہاس نے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے طلباء کو جو نوٹس بھیجی ہے اس میں کسی بھی مخصوص پارٹی یا فرد کو نشانہ نہیں بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی نوٹس میں انہوں نے کسی بھی فرد واحد کا تذکرہ تک نہیں کیا ہے ۔ نوٹس روانہ کرنے کا مقصد رائے دہی سے قبل طلباء کی رہنمائی کرتا تھا، اس کے علاوہ نوٹس میں اور کچھ نہیں ہے۔ پرنسپل نے نوٹس ای میل کے ذریعہ طلباء کو روانہ کی جسے کالج کی ویب سائٹ پر بھی پیش کیا گیا ہے جس میں پرنسپل صاحب کچھ اس طرح رقمطراز ہیں۔’’ ترقیات کے جتنے بھی انسانی پیمانے مقرر کئے گئے ہیں اور ثقافتی صف بندی جس طرح کی گئی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ گجرات گزشتہ دس سال کے دوران بدترین تجربہ سے گزرا‘‘۔
البتہ ای میل نوٹس میں کانگریس کی فوڈ سیکوریٹی اور روزگار یوجنا اسکیم کی ستائش کی گئی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ انتخابی مدعے بھی ہوسکتے ہیں لیکن قابل ستائش اس لئے ہیں کہ اسے ہمارے دانشوروں جیسے امریتا سین اور جین ڈریز کی تائید حاصل ہے جن کا کہنا ہے کہ ملک کی معاشی حالت کے سدھار اور عالمی کساد بازاری کے پیش نظر روزگار یوجنا اسکیم اور فوڈ سیکوریٹی اچھی اسکیمات کہی جاسکتی ہیں۔ پرنسپل صاحب نے اپنی ای میل نوٹس میں طلباء کو نصیحت کی ہے کہ وہ ایسے کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دیں جو ملک کی سیکولر کردار کیلئے خطرہ ہو۔ اگر کارپوریٹس اور فرقہ پرستوں نے ہاتھ ملالیا تو ان کے اتحاد سے ایک ایسی حکومت تشکیل ہوگی جو ہمارے ملک کی سیکولر جمہوریت کیلئے خطرہ بن جائے گی۔ گجرات ماڈل کا ہر کہیں تذکرہ ہورہا ہے لیکن میں نے اپنی شخصی رائے کے ذریعہ اس ماڈل پر حقیقت کی روشنی ڈالی ہے ۔ جب میڈیا گجرات ماڈل ، گجرات ماڈل کی رٹ لگائے ہوئے ہے تو اسے میری رائے پر بھی توجہ دینی چاہئے ۔