رشیدالدین
راہول گاندھی وزارت عظمی کے امیدوار کیوں نہیں؟
مودی کے حق میں سلمان خان کی تعریف شرمناک
کانگریس پارٹی نے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے مسئلہ پر لمحہ آخر اچانک اپنا موقف تبدیل کرلیا ہے۔ پارٹی نے راہول گاندھی کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کرنے سے گریز کرتے ہوئے انہیں عام انتخابات کی مہم کی ذمہ داری دی ہے ۔ کانگریس کے اس فیصلہ نے یقینی طور پر سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑدی۔ کانگریس پارٹی کے قائدین اور کارکن ہائی کمان کے اس فیصلہ پر الجھن کا شکار ہیں تو دوسری طرف بی جے پی کے حلقوں میں جشن کا ماحول ہے۔
چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی شکست کے بعد سونیا گاندھی نے اعلان کیا تھا کہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار کا مناسب وقت پر اعلان کیا جائے گا۔ اس کے بعد وزیراعظم منموہن سنگھ نے اپنے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے راہول گاندھی کی امیدواری کی تائید کی تھی۔ توقع کی جارہی تھی کہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے سیشن میں راہول گاندھی کے نام کا اعلان کردیا جائے گا لیکن کانگریس ورکنگ کمیٹی نے انہیں انتخابی مہم کی ذمہ داری دی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ راہول گاندھی کیا اس موقف میں نہیں کہ بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کا مقابلہ کرسکیں؟ کیا کانگریس پارٹی کو آئندہ عام انتخابات میں اپنی شکست کا یقین ہوچکا ہے کہ اس نے راہول گاندھی کو امیدوار بنانے سے گریز کیا؟ ایسے وقت جبکہ ملک میں فرقہ پرست طاقتیں شدت کے ساتھ ابھرنے کی کوشش کر رہی ہے،
کانگریس کو چاہئے تھا کہ وہ سیکولر طاقتوں کی قیادت کرنے کیلئے آگے آتی اور راہول گاندھی کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار طور پر پیش کیا جاتا لیکن اس فیصلہ کے ذریعہ کانگریس اپنی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سونیا گاندھی کا یہ استدلال درست ہے کہ پارٹی میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے اعلان کی روایت نہیں رہی۔ ظاہر ہے کہ نہرو گاندھی خاندان میں وزارت عظمیٰ بحیثیت وراثت چل رہی تھی لہذا امیدوار کے اعلان کی ضرورت نہیں تھی ۔ 2009 ء میں سونیا گاندھی کی مجبوری تھی کہ انہوں نے منموہن سنگھ کا نام دوسری میعاد کیلئے بحیثیت وزیراعظم پیش کیا۔ اب جبکہ بی جے پی ایک مضبوط امیدوار کے ساتھ میدان میں ہے لہذا کانگریس کو بھی چاہئے تھا کہ راہول گاندھی کو سیکولر طاقتوں کے نمائندے کی حیثیت سے عوام میں پیش کرتی۔ ویسے کانگریس پارٹی میں راہول گاندھی کے علاوہ کوئی بھی ایسی شخصیت نہیں جو عوامی طور پر مقبولیت رکھتی ہو۔ چار ریاستوں میں کانگریس کی شکست کے بعد میڈیا کے بعض گوشوں نے وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کو ملک کے عوام کی پہلی پسند کے طور پر پیش کیا۔ دوسرے نمبر پر اروند کجریوال جبکہ تیسرے مقام پر راہول گاندھی کو رکھا گیا۔ کیا کانگریس پارٹی اس بناوٹی سروے سے خوفزدہ ہے؟
آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے سیشن میں بھی اس مسئلہ پر پارٹی قائدین اور کیڈر میں مایوسی صاف طور پر جھلک رہی تھی۔ پارٹی نے دراصل انتہائی احتیاط کے ساتھ قدم اٹھایا ہے ۔ عام انتخابات میں پارٹی کی کامیابی کی صورت میں راہول گاندھی ہی وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز ہوں گے۔ بصورت دیگر ناکامی کا سہرا ان کے سر نہیں جائے گا بلکہ قائدین اور کارکنوں کو بھی شکست کی ذمہ داری قبول کرنی پڑے گی۔ اس طرح راہول گاندھی کے امیج کو متاثر ہونے سے بچانے کیلئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے ۔ تاکہ ان کا سیاسی مستقبل تاریک نہ ہوں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پرینکا گاندھی کو انتخابی مہم کی ذمہ داری دی جاتی اور راہول وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہوتے۔ پارٹی کے اس فیصلہ نے حلیف سیکولر جماعتوں کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ملک میں فرقہ پرست طاقتوں کا کس طرح مقابلہ کیا جائے۔ اسی دوران نئی دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت اپنے قیام کے ایک ماہ کے اندر ہی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پارٹی کے ایک رکن اسمبلی نے بغاوت کردی اور دہلی کے عوام بھی وعدوں کی تکمیل کے سلسلہ میں حکومت سے مطمئن نہیں ہیں۔ کانگریس کی تائید سے حکومت قائم ہے لیکن عام آدمی پارٹی کے قائد کمار وشواس نے امیٹھی میں راہول گاندھی کے خلاف محاذ کھول دیا ہے ۔ ان کی سرگرمیوں سے کانگریس کافی پریشان ہے کیونکہ وہ نریندر مودی کے لہجہ میں سونیا اور راہول پر حملہ کر رہے ہیں ایسے میں کانگریس پارٹی کب تک نئی دہلی حکومت کی تائید جاری رکھے گی ، کہا نہیں جاسکتا۔ عام آدمی پارٹی میں داخلی انتشار اور کانگریس کی ناراضگی کے سبب حکومت کے استحکام کو ہر وقت خطرہ لاحق رہے گا۔
گجرات فسادات کے متاثرین کی آہیں نریندر مودی کا تعاقب کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے وزیراعظم کا خواب دیکھنے والے مودی کو اقلیتوں کی ناراضگی وزارت عظمیٰ کی راہ میں اہم رکاوٹ دکھائی دے رہی ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی سرپرستی کرنے والے مودی نے فسادات کو گودھرا ٹرین واقعہ کا ردعمل قرار دیا تھا ۔ کیا ملک کے عوام کانگریس قائد احسان جعفری کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے مودی کی جانب سے دی گئی گالیوں کو بھلا پائیں گے؟ فسادات پر کنٹرول میں ناکامی کیلئے سپریم کورٹ نے مودی کو جو پھٹکار لگائی ، شاید ہی کسی چیف منسٹر کے بارے میں عدالت نے اس طرح کے سنگین ریمارکس کئے ہوں۔ عوام کے ذہنوں میں گجرات کے ان پولیس افسران کے بیان ابھی تازہ ہیں کہ مودی نے پولیس کو فسادیوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اچانک کیا بات ہوگئی کہ نریندر مودی کو مسلمانوں کی یاد شدت سے ستا رہی ہے اور بعض نام نہاد مسلم چہروں کو سامنے رکھ کر وہ مسلمانوں کی تائید حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وزارت عظمیٰ کے خواب نے انہیں ان چالبازیوں کیلئے مجبور کردیا ہے۔ 8 برس کی عمر سے آر ایس ایس میں نفرت کی ٹریننگ حاصل کرنے والے نریندر مودی نے 2002 ء میں اپنی تربیت کا عملی مظاہرہ کیا۔ مسلمانوں سے قربت اور ان کی تائید حاصل کرنے کیلئے کبھی مذہبی تو کبھی فلمی شخصیتوں کا سہارا لیا جارہا ہے ۔ مودی نے اپنی تائید کیلئے جس کسی کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کی، اس سے انہیں تو فائدہ نہیں پہنچا لیکن جس نے بھی مودی کے دامن پر لگے بے گناہوں کے خون کو دھونے کی کوشش کی وہ قوم میں رسواء ہوگئے۔
چاہے وہ مذہبی ہو یا فلمی شخصیات۔ ایک عظیم دینی درسگاہ کے سربراہ کو مودی کی تائید پر نہ صرف عہدہ چھوڑنا پڑا بلکہ قوم کی ناراضگی نے انہیں گوشہ تنہائی تک محدود کردیا ۔ اس کے باوجود بھی مودی کی جانب سے بکاؤ ، نام نہاد ، دانشور اور مذہبی و سماجی قائدین کو وقفہ وقفہ سے میدان میں اتارنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ آخر ان افراد کی غیرت اور حمیت کو کیا ہوگیا جو نریندر مودی کی مہمان نوازی کو قبول کرتے ہیں جبکہ ان کی ضیافت میں بے گناہوں کے خون کی بو ضرور آتی ہوگی۔ گزشتہ دنوں بالی ووڈ اسٹار سلمان خان نے سنکرانتی کے موقع پر نہ صرف مودی کی ضیافت کو قبول کیا بلکہ سنکرانتی فیسٹول میں مودی کے ساتھ پتنگ بازی کی۔ اتنا ہی نہیں نریندر مودی کی خوب تعریف کی ۔ فلم کے پروموشن کے بہانے گجرات کا دورہ اور پھر مودی سے ملاقات ، یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا جس ریاست کو بھی فلم کے پروموشن کیلئے سلماں خان جاتے ہیں ، وہاں کے چیف منسٹر سے ملاقات کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں وہ حیدرآباد میں تھے لیکن کرن کمار ریڈی سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی پھر نریندر مودی سے کیوں ؟ آخر نریندر مودی کو اپنا امیج بہتر بنانے کیلئے سلمان خان کی ضرورت کیوں پڑگئی ۔ بی جے پی اور مودی نواز میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک بھر میں عوام مودی کو وزیراعظم کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ چار ریاستوں میں بی جے پی کے بہتر مظاہرہ کا سہرا بھی مودی کے سر باندھنے کی کوشش کی گئی ۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود نریندر مودی آخر کس بات کو لیکر پریشان ہیں؟
سنکرانتی فیسٹول کے نام پر دو بیچلرس نے ایک دوسرے کی تعریف کی اور پتنگ بازی کے ذریعہ خود کو میڈیا کی سرخیوں میں رکھا ۔ مودی نے گزشتہ دنوں ایک مذہبی رہنما کی دل کھول کر مہمان نوازی کی جو کہ اپنی سیاسی قلاء بازیوں کیلئے شہرت رکھتے ہیں۔ اس شخصیت کو زیڈ پلس سیکوریٹی اور بلٹ پروف گاڑی فراہم کی گئی جو کہ ہر الیکشن میں ایک نئی پارٹی کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والے علماء کے وارثین دو دھڑوں میں بٹ چکے ہیں اور الگ الگ سیاسی جماعتوں سے اپنے مفادات کی تکمیل کر رہے ہیں۔ مسلمانوں میں امیج سدھارنے کیلئے نریندر مودی کے ہتھکنڈوں سے صاف طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ مجرم ضمیری کا شکار ہیں۔ گجرات فسادات کا مسئلہ انہیں بے چین کئے ہوئے ہیں۔ اور اسے وزارت عظمی کی راہ میں اہم رکاوٹ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ مسلم ووٹ کے بغیر وزیراعظم کی کرسی تک پہنچنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹوئیٹر پر بھی انہوں نے گجرات فسادات اور ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا۔ اگر مودی سمجھتے ہیں کہ کسی مذہبی شخصیت یا فلم اسٹار کے ذریعہ وہ مسلمانوں کی تائید حاصل کرلیں گے تو یہ محض خام خیالی ہے۔ سلمان خان ہو یا کوئی اور صرف نام مسلم ہوجانے سے وہ اسلام اور مسلمانوں کا نمائندہ نہیں بن سکتا۔
ملک کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے فلم ایکٹرس اور ناچنے گانے والوں کو دیکھ کر کسی پارٹی کی تائید نہیں کی ۔ اس طرح کے کھیل تماشوں کی مسلمانوں کے پاس کوئی اہمیت نہیں۔ فلم ، کھیل ، ڈرامے مسلمانوں کے سیاسی فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ مودی کی تعریف کرنا انتہائی شرمناک ہے اور وہ بھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ مودی گجرات میں معصوموں کے قتل عام کے ملزم ہے۔ سلمان خان کیا نہیں جانتے کہ فسادات کے پس منظر میں ہی امریکہ نے مودی کو ویزا جاری کرنے سے انکار کردیا اور یہ پابندی ابھی تک برقرار ہے۔ ایسے وقت جبکہ فرقہ پرستی اور سیکولرازم کے نام پر قوم میں صف بندی ہونے جارہی ہے ، سلمان خان کی جانب سے مودی کی تعریف نے 2002 ء کے فسادات کے مہلوکین پسماندگان اور ہزاروں متاثرین کے زخموں کو ہرا کردیا ہے۔ مودی سے ملاقات سے قبل سلمان خان نے اترپردیش میں اکھلیش یادو اور ملائم سنگھ یادو کیلئے تفریح طبع کا اہتمام کیا تھا۔ وہاں سلمان خان مظفر نگر کے متاثرین کو بھول گئے جو ابھی تک حکومت کی امداد سے محروم ہیں۔ انسانیت کا تقاضہ تھا کہ شو میں حصہ لینے کیلئے حاصل کردہ 3.5 کروڑ روپئے سلمان خان متاثرین میں تقسیم کرتے ۔ ظاہر ہے کہ اداکاری اور رقص کے ذریعہ کمانے والوں کو مسلمانوں کے دکھ درد کا احساس کیسے ہوگا۔ ان کا مذہب سے کیا واسطہ جن کا مذہب تو صرف دولت کمانا ہو۔
مودی کی جانب سے گجرات فسادات پر امیج سدھارنے کی کوشش پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
گجرات کے حالات پہ افسوس جتا کر
معلوم نہیں کس سے یہ کیا مانگ رہا ہے
مغلوں کا جسے نام گوارا نہیں نشترؔ
بھاشن کے لئے لال قلعہ مانگ رہا ہے