گجرات میں کوٹہ پالیسی

آستینوں میں چھپائے ہوئے خنجر سب ہیں
کس کے گھر جاؤں یہ سر اپنا بچاؤں کیسے ؟
گجرات میں کوٹہ پالیسی
لوہے سے سونا بنانے والے لوگوں کی داستانوں کے درمیان گجرات کی حکومت نے اعلیٰ ذاتوں میں معاشی پسماندگی کا شکار خاندانوں کیلئے 10 فیصد تحفظات دینے کا اعلان کیا ہے تو یہ سیاسی نوعیت سے بہت ہی اسمارٹ فیصلہ ہے مگر قانونی اعتبار سے کوٹا کی حد تنقیح کے متقاضی بن گئی ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ کی حد 50 سے متجاوز نہیں ہونی چاہئے۔ سپریم کورٹ نے کوٹا کیلئے 50 فیصد کی حد مقرر کی ہے لیکن گجرات کی آنندی بین پٹیل حکومت نے فراخدلانہ سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے خاص کر پٹہ دار طبقہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہاردک پٹیل کی زیرقیادت پٹہ دار طبقہ کوٹا کیلئے پرتشدد احتجاج کررہا ہے۔ گذشتہ سال سے ریاست کے تمام مفید وسائل میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے والے اس طبقہ کے بشمول گجرات کے اعلیٰ ذات کے معاشی طور پر پسماندہ خاندانوں کو فائدہ ہوگا۔ اس سے سرکاری خزانے پر سالانہ کروڑہا روپئے کا بوجھ پڑے گا۔ حکومت نے 6 لاکھ سالانہ آمدنی سے کم آمدنی رکھنے والوں کو 10 فیصد تحفظات میں شامل کیا ہے۔ اس فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کیا جائے تو اس کیلئے قانونی رکاوٹیں کھڑی ہوں گی۔ یہ نیا کوٹا دیگر پسماندہ طبقات، درج فہرست ذاتوں اور قبائیلوں کیلئے دیئے گئے 49 فیصد کوٹہ سے ہٹ کر ہے۔ سپریم کورٹ نے وی پی سنگھ حکومت کے فیصلہ کو برقرار رکھتے ہوئے سرکاری ملازمتوں میں او بی سیز کیلئے تحفظات دینے کی اجازت دی تھی۔ 1992ء کے اس منڈل کیس میں تحفظات کی حد 50 فیصد سے آگے بڑھ گئی تھی۔ اس پر زبردست احتجاج بھی ہوا تھا جبکہ ملک کی دیگر ریاستوں جیسے ٹاملناڈو میں سرکاری ملازمتوں میں 69 فیصد تحفظات دیئے جارہے ہیں۔ درحقیقت یہ دستور کے 9 ویں شیڈول سے استفادہ کرتے ہوئے کوٹہ رائج کیا گیا جس میں عدالتی تنقیح سے بچایا گیا ہے۔ اس کوٹا کے خلاف اگرچیکہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے مگر یہ زیرالتواء ہے۔ نئی ریاست تلنگانہ میں ٹی آر ایس حکومت نے بھی مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کا اعلان کیا تھا مگر اس تعلق سے قطعی فیصلہ کرنے میں حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔ اس کے برعکس گجرات کے پٹہ دار طبقہ نے حکومت کے خلاف احتجاج میں شدت پیدا کرکے اپنے حصہ میں کوٹا حاصل کرنے میں کامیاب کوشش کی۔ تلنگانہ میں اس طرح کی کوششوں کیلئے عوامی تائید اور جوش و جذبہ کی ضرورت ہے۔ تلنگانہ کے مسلمان اگر پرامن طریقہ سے حکومت کے وعدہ کو پورا کرانے کی کوشش کرنا شروع کریں تو یقینا انہیں سرکاری ملازمتوں، سرکاری تعلیمی اداروں میں 12 فیصد تحفظات حاصل ہوں گے۔ اس سے ہزاروں مسلم نوجوانوں کو فائدہ ہوگا۔ گجرات کی حکومت نے کوٹا کا اعلان آگے کے سیاسی حالات کو مدنظر رکھ کر کیا ہے کیونکہ آئندہ سال گجرات اسمبلی انتخابات کیلئے بی جے پی حکومت کو مکمل تیاری کرنی ہے۔ کوٹا احتجاج نے گجرات حکومت کی ساکھ پر ضرب لگائی تھی۔ اپوزیشن کانگریس نے آنندی بین حکومت کے کوٹہ 10 فیصد کے اعلان کو ناکافی قرار دے کر اس میں 20 فیصد اضافہ کا مطالبہ کیا اور اس نے اسمبلی و پارلیمنٹ دونوں جگہ قانون بتانے کے اقدام کی حمایت کرنے کا بھی اعلان کیا۔ اپوزیشن کے طور پر کانگریس کو گجرات میں اپنی کھوئی سیاسی طاقت بحال کرنے کی فکر ہے اس لئے وہ کوٹا کی حمایت میں بی جے پی سے دو قدم آگے بڑھنا چاہتی ہے لیکن جب قانون کی نظر میں 9 ویں شیڈول کے بارے میں غیر دستوری ہونے کا اعلان کردیا جائے تو کوٹہ کی اہمیت اور اس پر عمل آوری کا معاملہ کھٹائی میں پڑجائے گا۔ گجرات میں پٹیل یا پٹہ داری برادری کے دباؤ کے زیراثر بی جے پی حکومت نے یہ فیصلہ کیا مگر پٹہ دار طبقہ نے اس فیصلہ کو ’’للی پپ‘‘ قرار دے کر مسترد کردیا۔ پٹہ دار طبقہ کے 22 سالہ لیڈر ہاردک پٹیل جو اس وقت اکٹوبر میں گرفتاری کے بعد سے محروس ہیں۔ گجرات حکومت کے اس فیصلہ کو قبول کرنے تیار نہیں۔ حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کی کسی نہ کسی طریقہ سے کوشش جاری رکھی جاتی ہے تو یہ فیصلہ حکمراں بی جے پی کیلئے مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ کا باعث ہوگا۔ بی جے پی کی حکمراں والی ریاست راجستھان میں بھی گذشتہ سال معاشی طور پر پسماندہ لوگوں کیلئے اسی طرح کے کوٹہ کا اعلان کیا گیا تھا۔ ہریانہ کی حکومت نے بھی جاٹ طبقہ کیلئے کوٹہ کا اعلان کیا ہے۔ گجرات میں پٹیل برادری کی آبادی ریاست کی جملہ آبادی کا تقریباً 12 تا 15 فیصد ہے اور اس طبقہ کو ریاست کی سیاست پر غلبہ بھی حاصل ہے۔ اس طبقہ سے وابستہ افراد مالی طور پر مستحکم ہونے کے علاوہ اسمال اردو میڈیم انٹرپرائزس میں بھی آگے ہیں۔ تعلیمی شعبہ ہو یا ہیرے کی تجارت، کوآپریٹیو ادارے ہوں یا ریئیل اسٹیٹ کا شعبہ ہر ایک میں ان کو غلبہ و برتری حاصل ہے پھر بھی حکومت ، برادری کے لیڈروں کے احتجاج کے آگے گھٹنے ٹیک رہی ہے۔
آدرش ہاؤزنگ سوسائٹی ممبئی
ممبئی کے اصل ریئیل اسٹیٹ علاقہ کولابا میں آدرش ہاؤزنگ سوسائٹی کی عمارت کو مسمار کردینے ہائیکورٹ کے فیصلہ کے بعد کئی سوال اٹھ گئے ہیں کہ آیا اس کیس کی روشنی میں تمام بدعنوان افراد کو سبق حاصل ہوگا اور اس بدعنوانی میں ملوث تمام افراد کو جن میں فوج سے وابستہ اعلیٰ ترین جنرلس، بیوریوکریٹس اور سیاستداں شامل ہیں کے خلاف  جرمانے و سزاء سنائی جائیں گی۔ اگرچیکہ عدالت نے آدرش عمارت کو مسمار کرنے سے قبل فریقین کو مہلت بھی دی ہے اور وہ اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہوسکتے ہیں۔ ممبئی ہائیکورٹ نے 31 منزلہ عمارت کو منہدم کرنے کا حکم اس لئے دیا ہے کیونکہ اس کے تعلق سے کئی تنازعات کو جنم دیا گیا تھا۔ سرکاری زمین پر 6 منزلہ عمارت تعمیر کرنے کی اجازت کے ساتھ تعمیری کام شروع تو کیا لیکن منظورہ نقشہ سے ہٹ کر اس کو 31 منزل تک پہنچایا گیا۔ جب تنازعہ پیدا ہوا تو سی بی آئی تحقیقات عدالتی تحقیقات اور دیگر اعلیٰ سطحی تحقیقات کے ذریعہ تمام چہروں کو بے نقاب کرنے میں کامیابی حاصل کی گئی۔ اس تمام دوڑدھوپ کے بعد عدلیہ کا فیصلہ آیا تو اس عمارت کی قانونی اور غیرقانونی کیفیت کا نوٹ لینے کے ساتھ بدعنوانیوں میں ملوث افراد کو سنگین انتباہ بھی دیا گیا۔ یہ اسکام اس وقت رونما ہوا جب اشوک چوہان مہاراشٹرا کے چیف منسٹر تھے جنہیں کانگریس ہائی کمان کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔ ان کے بعد کانگریس کے آخری چیف منسٹر پرتھوی راج چوہان نے اس عدالتی کمیشن کی تحقیقات کو مسترد کردیا جو خود ان کی پارٹی کے پیشرو نے تشکیل دیا تھا۔ عدالتی کمیشن کی تحقیقات میں سابق چیف منسٹروں اشوک چوہان، ولاس راؤ دیشمکھ، سشل کمار شنڈے اور ایس این پاٹل کے ناموںکا انکشاف کیا گیا تھا اور سابق شہری ترقیات کے وزراء کے علاوہ 12 اعلیٰ بیوریو کریٹس اور فوجی جنرلوں نے اپنے رشتہ داروں کے نام پر فلیٹس حاصل کرلئے تھے یہ ایک ایسا اسکام تھا جس کو منظرعام پر لانے کیلئے میڈیا کا سہارا لیا گیا لیکن اس طرح کے کئی ایسے اسکامس بھی ہیں جن تک کوئی ہاتھ اور نگاہ نہیں پہنچ سکی۔ آدرش کا حشر آگے جو کچھ بھی ہو، اس طرح کی بدعنوانیوں کا سلسلہ ختم ہوگا یہ کہنا مشکل ہے۔ البتہ بلڈرس اور بیوریو کریٹس کے گٹھ جوڑ کو دھکہ پہنچ سکتا ہے لیکن آدرش کو بہرحال مسمار کردیا جائے گا یہ وقت ہی بتائے گا۔