گجرات میں مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

غضنفر علی خان
بعض فتوحات ایسی ہوتی ہیں ان پر شکست کھانے والا ہی غالب ہوجاتا ہے۔ گزشتہ ہفتہ گجرات میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں یہی ہوا ۔ بی جے پی کو کامیابی ملی (صرف سیٹوں) پر لیکن ہارنے والی پارٹی کانگریس کو 77 سیٹیں ملیں جواس کیلئے بی جے پی کی معمولی اکثریت سے کامیابی سے کئی گنا بڑی فتح ہے ۔ یہ انتخابات بڑی حد تک دو مختلف نظر یات اور مختلف شخصیات نریندر مودی اور راہول گاندھی کے درمیان تھی۔ عملاً کوئی تیسرا شخص میدان میں نہیں تھا ۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ کا وجود بھی برائے نام ہی رہا اور انہیں تو اب شرمندگی سے اپنا منہ نہ کھولنا چاہئے اور نہ کسی کو دکھانا چاہئے کیونکہ اس طرح انہوں نے بار بار دعویٰ کیا تھا کہ بی جے پی کو جملہ 182 میں سے 150 نشستوں پر کامیابی ہوگی۔ ان کا اندازہ یکلخت غلط ثابت ہوا کیونکہ اس اندازہ سے ان کی پارٹی کو 51 سیٹیں مل سکیں۔ خیر چھوڑیئے امیت شاہ کو وہ نہ تو کبھی قومی سیاست میں کوئی قد رکھتے تھے اور نہ آئندہ کبھی قد آور شخصیت بن سکتے ہیں۔ یہاں تو صرف بات وزیراعظم مودی کی ہے جو اپنی پارٹی کے سپہ سالار بن کر ذرائع وسائل کی ایک بھرپور فوج لیکر روپئے پیسے کی رتھ پر سوار ہوکر انتخابی مہم چلا رہے تھے ۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں ان کی اپنی ریاست میں انہیں ہار نہ ہوجائے ۔ وہ تو ملک کے وزیراعظم ہیں، انہیں کسی بات کی فکر نہیں اور نہ کسی بات کی کمی لاحق ہے ۔ ان کے مقابلہ میں 47 سالہ راہول گاندھی تھے ۔ تن تنہا ، بے یار و مددگار ذرائع وسائل میں محدود لیکن ان کی محنت اور مشقت نے گویا کایا پلٹ دی ۔ جب گجرات کی مہم شروع ہوئی تھی تب تو الیکٹرانک میڈیا راہول گاندھی کو کسی گنتی شمار میں بھی نہیں رکھتا تھا ۔ خود راہول گاندھی کی سگی چاچی منیکا گاندھی نے اس مقابلہ کو ’’چڑیا اور شیر کا مقابلہ ‘‘ قرار دیا تھا لیکن کسے پتہ تھا کہ راہول گاندھی ہندوتوا کی اتنی بڑی طاقت کا اپنی بہادری سے مقابلہ کریں گے ، خود مسٹر مودی کو بھی خبر نہیں تھی کہ یہ 47 سالہ کانگریس کا لیڈر انہیں ناکوں چنے چبادے گا ۔ گجرات الیکشن سے یہ بات صاف ہوگئی کہ اب آئندہ بی جے پی وہ سب کچھ نہیں کرسکے گی جو وہ کرتی رہی ہے اور کرنا چاہتی ہے ۔ اب سیکولرازم اور اصلی ہندوستان کا عام شہری اس خواب غفلت سے بیدار ہوگیا ہے جو 2014 ء میں اسے دکھایا گیا تھا ۔ اب راہول گاندھی اس شکست کے باوجود سیکولر طاقتوں کی کمانڈ سنبھال سکتے ہیں۔ اب یہ تصور غلط ثابت ہوگا کہ بی جے پی یا مودی جی ناقابل تسخیر Invincible ہیں۔ کیونکہ انتخابی نتائج کے دوسرے ہی دن سے اپوزیشن جماعتوں نے راہول گاندھی کو یو پی اے کا صدر تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ سیکولر پارٹیوں کو گویا قدرت نے ایک موقع عطا کیا ہے کہ وہ 2019 ء کے انتخابات کیلئے راہول گاندھی کی قیادت میں متحد ہوجائیں ۔ یقیناً ایسا ہوگا کیونکہ جب تنہا راہول گاندھی بی جے پی اور مودی کا اتنا سخت مقابلہ کرسکتے ہیں تو متحد اپوزیشن جماعتیں اپنا ایک ’’یونائٹیڈ ڈیموکریٹک سیکولر محاذ‘‘ بناکر کیوں نہیں کرسکتیں؟ سیکولر طاقتوں کو گجرات کے انتخابی نتائج سے سب سے بڑا یہی سبق ملا ہے کہ ان پر ’’ہندوتوا‘‘ کا جو بھوت چھاگیا تھا ۔ اس کو مارا جاسکتا ہے اور یہ بھی سبق ملا کہ ملک بھر میں جہاں جہاں 2019 ء میں انتخابات ہونے والے ہیں جن میں مدھیہ پردیش ، راجستھان جیسی اہم ریاستیں بھی شامل ہیں ، اگر سیکولر ووٹوں کو تقسیم سے بچایا جاسکتا ہے ۔ اگر اقلیتوں کے ووٹ منقسم نہیں ہوتے ہیں تو ہندوتوا کے نظریات کو اس ملک سے ختم کیا جاسکتا ہے کیونکہ گجرات میں راہول گاندھی نے پٹیل برادری، او بی سی اور پسماندہ طبقات کے ووٹرس کو اپنی طرف مائل کر کے گجرات کے ان علاقوں میں بی جے پی کو شکست دی ہے جہاں حکمراں پارٹی کو پورا یقین تھا کہ یہاں انہیں کوئی نہیں ہرا سکتا ۔ اس معاملہ میں راہول گاندھی کا ساتھ گجرات کے تین نوجوان ہاردک پٹیل ، ابلیش اور جگنیش نے خوب دیا۔ ایسی صورتیں کئی دوسری ریاستوں میں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔ گجرات کی طرح اور ریاستوں میں بھی عام ہندوستانی باشندہ پریشان ہے کیونکہ بی جے پی کی پالیسیاں اس کے منصوبہ عوام دشمن اور ’’موافق امیر‘‘ میں گجرات کی طرح جی ایس ٹی ، نوٹ بندی کی وجہ سے سب ہی پریشان ہیں ۔ گجرات کا وکاس ماڈل سراسر دھوکہ ہے ۔ اگر دھوکہ نہ ہوتا تو کیوں ریاست کے دیہی علاقوں میں بی جے پی کے خلاف اتنی بھاری تعداد میں رائے دہی ہوتی؟ گجرات کی طرح ملک بھر کے عوام میں بی جے پی کی دولت مند طبقہ سے محبت اس پر عنایات پرایک طرح کی نفرت پائی جاتی ہے اور مودی حکومت نے اپنی ان کم مہم پالیسیوں کو اتنا آگے بڑھادیا بلکہ اب اس کیلئے قدم پیچھے اٹھانا کسی طرح ممکن نہیں رہا ۔ آج جو صورتحال بی جے پی اور خاص کر وزیراعظم مودی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے وہ 2019 ء تک بھی برقرار رہے گی ۔ جن حالات کا راہول گاندھی نے گجرات میں فائدہ اٹھایا ہے وہ حالات اگر سمجھ بوجھ سے کام لیا جائے تو آئندہ بھی رہیں گے، اب اس سے فائدہ اٹھانا ملک کی سیاسی پارٹیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ گجرات ماڈل کا بھانڈا تو راہول گاندھی نے پھوڑ دیا ہے ۔ اب ملک بھر میں جس انداز میں اس نام نہاد ماڈل کی تشہیر کے ذریعہ بی جے پی اپنا گھٹیا سیاسی کھیل کھیلتی رہی وہ آئندہ نہیں چلے گا ، دوسری طرف راہول گاندھی کو بھی جو اس وقت ملک کی سب سے بڑی اور سب سے قدیم سیاسی پارٹی کانگریس کے صدر ہیں، اپنی اس ’’شکست فاتحانہ‘‘ سے مغرور نہ ہوتے ہوئے انتہائی بردباری سے قیادت سنبھالنا اور دوسری سیکولر پارٹیوںکو ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔