ڈاکٹر مجید خان
آخر گجرات فسادات کا معمہ کب حل ہونے والا ہے ، عقل حیران ہے ۔ فسادات نسل کشی کی شکل اختیار کرگئے تھے ۔ نریندر مودی کا جو کردار اس خونی معاملے میں رہا ہے وہ روز اول سے مشکوک و داغدار رہا ۔ دس سال سے زیادہ کاعرصہ ہورہا ہے مگر آج تک بھی عدالت کی قبولیت نصیب ہونے والی شہادتیںدستیاب نہیں ہورہی ہیں۔ واقعات کی تفصیلات تو شروع ہی سے اسکو اس بدترین فرقہ وارانہ فسادات کا اصل محرک قرار دے چکی ہیں۔ اُس زمانے کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی صاحب تو اُس کو اپنی اخلاقی دھرم اور حکومت کی ذمہ داریوں کا سبق دیا ۔ وہ جان گئے تھے کہ یہ فسادات اچانک گودھرا کے واقعے کے بعد بھڑک نہیں اُٹھے تھے بلکہ اس کے پیچھے ہندو فرقہ پرست جماعت آر ایس ایس کی منصوبہ بندی تھی اور مودی سے بہتر آلہ کار آر ایس ایس کو مل نہیں سکتا تھا ۔ مگر وہ بیچارے اپنی نیک نیتی کی ہار مان گئے ورنہ ان کے حلقے والے لوگ خاص طور سے اُس وقت کے وزیرداخلہ اڈوانی کی مخالفت کے باوجود وہ مودی حکومت کو برطرف کردیئے ہوتے۔
ان تاریخی واقعات سے کون واقف نہیں ہے مگر احمدآباد کے حالیہ کورٹ کے فیصلے نے فوری یہ کہکر عارضی راحت دی ہے کہ اُن کے خلاف قابل تفتیش یا قابل قانونی گرفت شواہد موجود نہیں ہیں۔ یہ فیصلہ کوئی غیرمتوقع عمل نہیں تھا مگر سماجیات اور نفسیات کے ماہرین یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اتنی جامع منصوبہ بندی اور مکمل پردہ پوشی کیسے ہوئی ۔ مودی کا ایک طوفان ہندوستان میں پھیلادیا گیا ہے اور اُس کے ہمدرد و حامی ساری دنیا سے سوشیل میڈیا کے ذریعہ انتہائی پروپگنڈہ اُس کی موافقت میں شروع کردیئے ہیں جو آنے والے دنوں میں شدت اختیار کرسکتا ہے۔ اروند کجریوال کا انوکھا انقلاب سارے ہندوستان کو چونکا دیا ہے ۔ میڈیا پر جو مودی حاوی ہوگئے تھے اور ہر طرف اُنھی کے اطراف کیمرے گھومتے رہے اس میں گو ایک بڑی رکاوٹ آئی ہے جو کجریوال نے پیدا کی ہے ۔ کیا کجریوال اس طوفان کو روک سکیں گے ۔اسی کا اب انتظار باقی ہے ۔ اسی پس منظر میں The Hindu اخبار میں 31 ڈسمبر 2013 کو راحیل ڈھٹی والا کا ایک مضمون بہ عنوان Deliberateness and spontaneity in violence چھپا تھا ۔ یہ ایک علمی تحقیق کا عالمانہ انداز میں جائزہ تھا اور اردو داں ذی اثر دانشور حلقے کو بھی اس پر غور کرنا چاہئے ۔
احمدآباد کے حالیہ فیصلے سے یہ جڑی ہوئی تحقیق ہے جس کاعنوان یہ کہتا ہے کہ تشدد میں عمداً کئے ہوئے عمل اور جو اچانک بھڑک اُٹھتا ہے فرق کیا ہے ۔ اس مطالعے میں گجرات کے 2002 ء کے فسادات کا جائزہ لیتے ہوئے اور اس کو دنیا کے دوسرے مقامات پر ہونے و الے اسی طرح کے نسل کشی کے واقعات سے مقابلہ کیا گیا ہے ۔ عدالتی فیصلے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ فسادات گودھرا کے واقعات سے مشتعل ہوئے ہندوؤں کی بغیر کسی سازش سے تیار کی ہوئی ایک بڑی واردات تھی۔ اس میں نریندر مودی اورسیاسی محرکات کے کوئی ثبوت نہیں ملے ۔ یہ مضمون پڑھنے کے بعد یہ قیاس پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی فرقہ پرست مضبوط تنظیم بہت ہی خاموش طریقے سے اس طرح کے فسادات کی حکمت عملی بناسکتی ہے اور اس کو انتہائی راز میں رکھتے ہوئے اپنی حکومتوں کی مشنری استعمال کرسکتی ہے اور ناقابل تفتیش شواہد کی بنا پر اگر انصاف ہوتا ہے تو اﷲ ہی جانے مستقبل میں کیا سیاسی جادو لوگوں پر چلنے والا ہے ۔
اس مضمون میں یہ بتایا گیا ہے کہ سنگھ پریوار کی ایک سوچی سمجھی منظم کارروائی تھی جس میں ناراض آدی واسیوں اور دلتوں کو مسلمانوں کے خلاف اُکسایا گیا اور فسادات کروائے گئے۔ گودھرا تو صرف ایک بہانہ تھا جس کا اُن کو انتظار تھا Achyut Yagnik اور Hancy Loby جیسے اسکالرس نے یہ اسٹڈی کی تھی ۔ اُن کا یہ ادعا ہے کہ اگر یہ گودھرا کے بعد ایک جذباتی تشدد تھا جو پھیل گیا تو پھر ساری ریاست میں یکساں طورپر ہر جگہ ہونا چاہئے تھا مگر ایسا نہیں ہوا ۔ گوکہ کافی مقامات پر یہ ہوا ہے مگر بعض مقامات بالکل پُرامن بھی رہے ہیں۔ اس واقعے اور اُس کے محرکات کو سمجھنے کیلئے مضمون نگار آکسفورڈ کے ایک مشہور ماہر سماجیات Dr Michael Biccs کے تعاون سے یہ اسٹڈی کی ہے ۔ اس میں وہ تمام ممکنہ وجوہات اور محرکات پر غور کیا گیا جس کی وجہ سے یہ تشد د برپا ہوا تھا۔ یہ بڑے فکر انگیز مشاہدات ہیں جن کو منظرعام پر لانا اور بار بار لانا دانشوروں کا فریضہ بنتا ہے ۔ ان دونوں نے بڑی عرق ریزی سے ان مقامات کے عوام کا معاشی اور سماجی حالت کا سروے کیا ان میں نہ صرف مسلمانوں کو شامل کیا گیا بلکہ دلتوں اور شیڈولڈ طبقات کو بھی شامل کیا گیا ۔
1998 کے انتخابات جو فسادات کے پہلے ہوئے تھے اُن کا بھی جائزہ لیا گیا اور اس میں جہاں پر بی جے پی کے ایم ایل اے تھے اُن کے حاصل کئے ووٹوں پر بھی غور کیا گیا اور پرامن رہنے والے مقامات اور حساس مقامات پر بھی توجہ دی گئی ۔ یہ مطالعہ اُنہی خطوط پر کیا گیا جس کے تعلق سے پچھلے ہونے والے نسلی فسادات پر Paul Brass, Steven Wilkinson Henrick Urdal and Ashutosh Varne نے کی تھی ۔ متذکرہ مطالعے اور تحقیقات میں اس بات کا علم ہوا کہ تشدد یکایک اور اچانک نہیں بھڑکتا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ان علاقوں میں جن کو بی جے پی کا گڑھ مانا جاتا ہے سب سے زیادہ تشدد کی لہر دیکھی جانی چاہئے مگر ایسا نہیں ہوا ۔
اگر پارٹی اس کی حمایت نہ بھی کرے تو اس کے لوگوں کو تو روکنا مشکل ہے ۔ یہ اسٹڈی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جہاں پر بی جے پی مضبوط ہے وہاں پر خونی فسادات نہیں ہوئے مثلاً جوناگڑھ اور نوسار یہ بھی دیکھا گیا کہ جس علاقے میں بی جے پی کا MLA ہے وہاں پر فسادات کم ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ اُن مقامات پر جہاں پر بی جے پی بہت کمزور ہے خطرناک فسادات کم ہوئے ہیں مثلاً نرمدا اور ڈانگ کے علاقے اُن مقامات پر جہاں بی جے پی کا مقابلہ 1998 ء کے انتخابات میں مقابلہ سخت رہا ہو مثلاً 35-40 فیصد وہاں پر مہلک فسادات دیکھے گئے مثلاً آنند اور کھیڑا جیسے مقاموں پر منصوبہ بند تشدد انتخابات جیتنے کا موثر حربہ بن کر اُبھر رہا ہے یہ ایک خطرناک رجحان ہے ۔ گجرات فسادات کے تجزیے سے ان محققین نے یہ دیکھا کہ جن مقامات پر بی جے پی کو دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں سخت مقابلہ تھا وہاں سب سے زیادہ تشدد یکھا گیا۔
ان مقامات پر مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکانے سے لوگ جو پہلے دوسری پارٹیوں کو ووٹ دیا کرتے تھے مثلاً کانگریس وہ بی جے پی کے ووٹر بن گئے ۔ ان فسادات کے بعد بی جے پی نے دوسری پارٹیوں کا صفایا ہی کردیا ۔ 2002 ء کے بعد کے انتخابات میں مودی کی وہ تقریر جس میں انھوں نے علی ، مالی اور جمالی اور اُن کے بچے پیدا کرنیو الی فیکٹریاں کا ذکر کیا تھا وہ غیرمسلموں کو اُکسایا فسادات کے بعد کے انتخابات میں یہ دیکھا گیا کہ جہاں پر مہلک فسادات ہوئے وہاں پر بی جے پی کو فائدہ ہوا مثلاً پنچ محل میں جہاں پر فسادات نہیں ہوئے وہاں ان کا مظاہرہ کمزور تھا مثلاً سریندر نگر میں اس مطالعے کے بعد یہ لکھا گیا تھا کہ گودھرا واقعہ کے بعد ایک پریشان کن پہلو سمجھ میں آرہا جس کا تعلق موجودہ سیاسی فکر سے ہے ۔ کافی مواد میں اس وقت ساری دنیا میں دستیاب ہورہا ہے کہ نسلی تناؤ کو پھیلانے میں سیاسی اقتدار کو بڑا دخل ہے جس کی وجہ سے نسلی فسادات ہوئے ہیں۔
حکومتوں کی مرضی پر منحصر ہے کہ ان کو روکا جائے یا انجان ہوجائے ۔ جہاں پر متعدد نسلی فرقوں کے لوگ بستے ہیں وہاں پر اس سے سیاسی مفاد حاصل کیا جاتا ہے ۔ 1984 کے دہلی کے فسادات میں راجیوگاندھی نے اس کا استعمال کیا اور سیاسی فائدہ اٹھاکر حکومت بنائی تھی ۔ نریندر مودی اُنہی راہوں پر گامزن ہیں ۔ یہ اپنے اور آر ایس ایس کے خفیہ ایجنڈے پر پوری مستعدی کے ساتھ جُٹے ہوئے ہیں ۔ مودی کا تیسری بار انتخابات کا جیتنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ظاہری طورپر امن تو قائم کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہیکہ اُن کے دور میں فسادات نہیں ہوئے ۔ لوگ خوفزدہ ہوجاتے ہیں کہ اگر ایسے کٹر حکمران کے خلاف ووٹ دیں تو اُن کے لئے زندگی دوبھر ہوجائیگی ۔