گجرات میں انسانیت اور انصاف کا انکاؤنٹر

محمد ریاض احمد
ہمارے وطن عزیز میں عام طور پر پولیس کی شبیہ بہت بگڑی ہوئی ہے اور اس کیلئے ساری پولیس کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس محکمہ میں شامل مٹھی بھر عناصر ہیں جو اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشی اور ایوارڈ و میڈلس کیلئے وہ سب کچھ کرجانے کیلئے تیار رہتے ہیں جو قانونی طور پر ناجائز ہوتا ہے ۔ اس معاملہ میں گجرات پولیس کافی بدنام ہے جس نے سال 2002 اور 2006 کے دوران 22 انکاؤنٹرس کئے لیکن 2003 میں صادق جمال 2004 میں عشرت جہاں اور دیگر تین نوجوانوں کا کیا گیا انکاؤنٹر 2005 میں پیش آئے سہراب الدین شیخ انکاؤنٹر اور سال 2006 میں تلسی رام پرجاپتی کی انکاؤنٹر میں موت ایسے چار فرضی انکاؤنٹرس ہیں جسے میڈیا اور انصاف پسند عوام سے لیکر سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دی گئی اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم یہاں تک کہ عدالت نے فرضی انکاؤنٹرس انتہائی بیہمانہ انداز میں کئے گئے قتل اور پولیس کے اعلی عہدہ داروں کے ہاتھوں قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف جرم قرار دیا ہے۔

انکاؤنٹرس کے ان چار واقعات نے ایک مرحلہ پر وزیراعظم نریندر مودی کو بھی لپیٹ میں لے لیا تھا جب وہ چیف منسٹر گجرات کے عہدہ پر فائز تھے لیکن حسب توقع انکاؤنٹر کے ان واقعات میں دو تا 8 برس تک جیلوں میں رہنے کے باوجود اعلی پولیس عہدہ داروں کی نہ صرف ضمانت پر رہائی عمل میں آئی بلکہ ان میں سے 94 فیصد عہدہ داروں کو حکومت گجرات نے بڑی بے شرمی کے ساتھ بحال بھی کردیا ۔ ان عہدہ داروں کو جن کے دامن پر شاید آج بھی صادق جمال ، ممبئی کی 19 سالہ طالبہ عشرت جہاں ، پرنیش پلئی عرف جاوید غلام شیخ ، امجد علی رانا ، ذیشان جوہر ، سہراب الدین شیخ ان کی اہلیہ کوثر بی اور تلسی پرجاپتی کے خون کے دھبے اپنی موجودگی کے ذریعہ انھیں ان کے گناہوں و جرائم کی یاد دہانی کراتے ہوں گے حکومت گجرات کی سفارش پر ایسے حساس عہدوں پر فائز کیا گیا ہے جہاں وہ اپنے خلاف جاری مقدمات کو کمزور کرنے کیلئے نہ صرف گواہوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں بلکہ شواہد سے چھیڑ چھاڑ بھی کرسکتے ہیں ۔ حال ہی میں گجرات پولیس کے بدنام آئی پی ایس عہدہ دار ڈی جی ونجارا کو تقریباً 8 سال بعد سابرمتی جیل سے مشروط ضمانت پر رہا کیا گیا ونجارا ایک ایسا عہدہ دار ہے جس پر سال 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد پیش آئے بیشتر انکاؤنٹرس میں ملزم قرار دیا گیا ہے ۔ اس نے واضح اور تحریری طور پر اس بات کو قبول کیا تھا کہ ریاست میں جو بھی انکاؤنٹرس کئے گئے وہ حکومت گجرات کی پالیسی پر عمل آوری کیلئے کئے گئے ۔ ستمبر 2013-14 میں ڈبلیو ڈبلیو ذات ٹروتھ آف گجرات ڈاٹ کام میں مکل سنہا کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ جن سنگھرش منچ (جے ایس ایم) ،

ممبئی سے تعلق رکھنے والی طالبہ عشرت جہاں شمیم رضا، سہراب الدین شیخ ، صادق جمال اور تلسی رام پرجاپتی کے چار انکاؤنٹرس کے ملزمین کو سزا دلانے اور انھیں بے نقاب کرنے کیلئے قانونی لڑائی لڑرہی ہے ۔ اس تنظیم کا ہمیشہ سے یہی کہنا تھاکہ 2002 اور 2007 کے دوران (جبکہ نریندر مودی چیف منسٹر تھے) گجرات میں جو انکاؤنٹرس کئے گئے وہ نہ صرف فرضی تھے بلکہ حکومت گجرات کی ہدایت پر کئے گئے تھے ۔ جن سنگھرش منچ کے اس موقف کو خود ڈی جی ونجارا نے ثابت کردیا تھا اس نے قید سے رہائی دلانے میں اس کے آقاؤں کی ناکامی پر شدید احتجاج کرتے ہوئے جیل سے ہی مکتوب استعفے روانہ کردیا تھا ۔ اس میں بی جے پی کے موجودہ صدر امیت شاہ پر رکیک حملہ کرتے ہوئے ونجارا نے انھیں ایسا شخص قرار دیا جو مودی کو گمراہ کررہا ہے ۔ ونجارا نے مکتوب استعفے میں اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ان فرضی انکاؤنٹرس سے مودی کو سیاسی فائدہ حاصل ہوا جب کہ اسے کچھ نہیں ملا ۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ اس کے دامن پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بے قصور انسانوں کے خون کے دھبے لگ گئے اور وہ اسے لاکھ مٹانے کی کوشش کرے ’’انتم سنسکار‘‘ کے بعد بھی وہ داغ صاف نہیں ہوپائیں گے ۔ مکتوب استعفے میں ونجارا نے لکھا تھا ’’گجرات سی آئی ڈی اور مرکزی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی نے مجھے اور میرے عہدہ داروں کو انکاؤنٹر کے مختلف مقدمات میں ذمہ دار قرار دیتے ہوئے گرفتار کیا ۔ اگر وہ سچ ہے تو پھر سی بی آئی کے ان تحقیقاتی عہدہ داروں کو جو سہراب الدین شیخ ، تلسی پرجاپتی ، صادق جمال اور عشرت جہاں چاروں انکاؤنٹرس کی تحقیقات کررہے ہیں ان پالیسی سازوں کو بھی اسی طرح گرفتار کیا جانا چاہئے جس طرح ہمیں گرفتار کیا گیا ۔ ہم نے فیلڈ آفیسر کی حیثیت سے صرف اس حکومت کی پالیسی پر عمل آوری کی جو بالکل قریب سے ہماری کارروائی کے آغاز سے انتہا تک ہماری رہنمائی اور نگرانی کررہی تھی

اس وجہ سے میرا یہ ماننا ہیکہ اس حکومت (مودی حکومت) کا مقام گاندھی نگر میں ہونے کے بجائے تلوجا سنٹرل جیل نوی ممبئی یا پھر احمد آباد کی سابرمتی جیل میں ہونا چاہئے‘‘ ۔ مودی اور امیت شاہ کے خلاف بالراست سخت الفاظ استعمال کرنے والے ونجارا نے ضمانت پر رہائی کے بعد میڈیا سے ایک مکار سیاستداں کی طرح خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اچھے دن واپس آگئے ہیں اس سوال پر کہ انھوں نے اپنے مکتوب استعفے میں امیت شاہ پر رکیک حملے کئے تھے اب ان کا موقف کیا ہے ۔ ایک بددیانت گواہ کی طرح اپنے سابقہ بیان سے انحراف کرتے ہوئے ونجارا نے کہا کہ وہ سب کچھ بھول چکے ہیں ۔ گجرات میں کس طرح قانون سے کھلواڑ کیا جارہا ہے اور کس طرح قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فرصی انکاؤنٹرس کے واقعات میں پولیس کے 40 اعلی عہدہ داروں کو گرفتار کیا گیا تھا جس میں سے بیشتر کے خلاف چارج شیٹس بھی پیش کردی گئی اس کے باوجود عہدہ وزارت عظمی پر نریندر مودی ، بی جے پی کی صدارت پر امیت شاہ اور گجرات کے عہدہ چیف منسٹری پر آنندی بین پاٹل کے فائز ہونے کے بعد تقریباً 36 ملزم عہدہ داروں کو نہ صرف ضمانت مل گئی بلکہ انھیں اہم عہدوں پر بحال بھی کردیا گیا ۔ این ڈی ٹی وی کے پروگرام لیفٹ رائٹ اینڈ سنٹر میں اس حساس موضوع پر سینئر جرنلسٹس رعنا ایوب اور بی جے پی گجرات یونٹ کے قائد چندر ویاس کے درمیان زبردست نوک جھونک ہوئی ۔ رعنا ایوب نے بی جے پی لیڈر کو اپنے دلائل کے ساتھ چاروں خانے چت کردیا ۔

جن عہدہ داروں کو بحال کیا گیا ان میں پی پی پانڈے ، ابھئے چداسمہ ، جی ایل سنگھل ، راجکمار پانڈین ، وپل اگروال کے علاوہ دیگر کئی اعلی پولیس عہدہ دار شامل ہیں ۔ عشرت جہاں انکاؤنٹر کیس کے ملزم معطل آئی پی ایس عہدہ دار جی ایل سنگھل کو گجرات حکومت نے گذشتہ سال بحال کیا ۔ آنندی بین پاٹل نے عہدہ چیف منسٹری سنبھالنے کے چند ہفتہ بعد ہی اس عہدہ دار کے بحالی کے احکام جاری کئے ۔ عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر میں ملوث ایک اور ملزم پی پی پانڈے کو جو آئی پی ایس 1980 کے بیاچ سے تعلق رکھتا ہے اسے بحال کرتے ہوئے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس لاء اینڈ آرڈر گجرات مقرر کیا گیا ہے ۔ 56 سالہ پی پی پانڈے کو دو سال قبل ہی گجرات پولیس نے بھگوڑا (مفرور ملزم) قرار دیا تھا ۔ وہ عدالت سے چار ماہ تک لاپتہ ہوگیا تھا ۔ اگست 2014 میں اس نے خود سپردگی اختیار کی ۔ پی پی پانڈے پر جسے گجرات میں لا اینڈ آرڈر کی برقراری کی ذمہ داری دی گئی قتل ، اغوا اور غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے کے بشمول 12 الزامات عائد کئے گئے اس نے این ڈی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے بڑی بے شرمی سے کہا ’’مجھے بری ہونے میں ایک بات ضرور ہے کہ صدیاںلگ جائیں گی اس وقت تک میں ریٹائر بھی ہوچکا ہوں گا‘‘ ۔ گجرات میں قانون کا بڑی بے دردی سے مضحکہ اڑایا گیا جس کا اندازہ ابھئے چداسمہ کی بحالی سے لگایا جاسکتا ہے ۔ رعنا ایوب کے مطابق اس پر فرضی انکاؤنٹر کے علاوہ کرپشن کے ایک نہیں دو نہیں بلکہ 198 مقدمات ہیں ۔ وکیل اور جہدکار ورندا گروور کے مطابق جی ایل سنگھل جیسے عہدہ داروں کی بحالی ایسے ہی ہے جیسے مجرموں کی بحالی ہو ۔ اب چلتے ہیں ممبئی کی شہید طالبہ عشرت جہاں اور دیگر تین نوجوانوں کے فرضی انکاؤنٹر اور اس میں ملوث درندوں کی طرف اس طرح کے عہدہ دار کسی بھی طرح انسان کہلانے کے مستحق ہی نہیں ہیں ۔

15 جون 2004 کو اس وقت کے ڈی آئی جی ڈی جی ونجارا کی زیر قیادت ایک ٹیم نے عشرت جہاں ، پرنیش پلئی ، جاوید شیخ ، امجد علی رانا اور ذیشان جوہر کا بڑی سفاکی سے قتل کردیا ۔ بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ونجارا نے کہا کہ عشرت جہاں اور اس کے ساتھی چیف منسٹر مودی کو قتل کرنے کی سازش رچی تھی اور اس سازش پر عمل آوری کی جانے والی تھی لیکن عدالت کی ہدایت پر قائم ایس آئی ٹی نے گجرات ہائیکورٹ کو بتایا کہ عشرت جہاں کا انکاؤنٹر فرضی تھا ۔ سی بی آئی چارج شیٹ میں بھی عشرت کے انکاؤنٹر کو فرضی قرار دیتے ہوئے ڈی جی ونجارا گجرات میں انٹلیجنس بیورو کا سربراہ راجندر کمار ، پی متل ، ایم کے سنہا ، راجیو وانکھیڈے کے بشمول سات عہدہ داروں نام ملزمین کی حیثیت سے پیش کئے گئے ۔ 7 ستمبر 2009 کو میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ ایس پی تمنگ نے اپنے فیصلہ میں واضح طور پر کہا کہ ترقیوں اور ایوارڈس حاصل کرنے کیلئے یہ انکاؤنٹرس کئے گئے ۔ 243 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں تمنگ نے ونجارا اور دیگر ملزمین کو ماخوذ کیا اورکہا کہ 12 جون کو ممبئی سے عشرت اور دیگر کا اغوا کیا گیا احمد آباد لاکر 14 جون کی رات چاروں کو پولیس حراست میں بڑی بیدردی سے قتل کردیا گیا ۔

گجرات میں پیش آئے فرضی انکاؤنٹر کے انسانیت سوز واقعات میں سہراب الدین شیخ ، ان کی اہلیہ کوثر بی اور تلسی پرجاپتی کے انکاؤنٹرس پولیس میں شامل چند بدقماش عناصر اور فرقہ پرست و مفاد پرست سیاستدانوں کی ملی بھگت کی بدترین مثال ہے ۔ بہرحال اس قدر بھیانک جرائم کا ارتکاب کرنے والے پولیس عہدہ داروں کی رہائی اور ان کی بحالی انصاف کے بے رحمانہ قتل اور انکاؤنٹر کے مترادف ہے ۔ افسوس تو اس بات پر ہیکہ حکومت گجرات سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آخر یہ کیا ہورہا ہے ؟
mriyaz2002@yahoo.com