راج دیپ سردیسائی
2014ء کے عام انتخابات میں بڑے زور و شور سے ‘ بے آہنگ طریقہ کار کا صرف ایک ہی چرچا رہا تھا وہ تھا نام نہاد گجرات ماڈل ‘ ساری انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کی زبان پر صرف یہی تھا کہ مودی گجرات کے تخت سے اتر کر دہلی کے تخت پر گاندھی نگر کی پُرفزاء سیاسی ماحول کے ساتھ دہلی کے تخت پر براجمان ہوجائیں گے اور ہندوستان کے سیاسی اُفق پر صرف گجرات میں گجرات کی پرچھائی نظر آئے گی اور آج جو بھی سوچ گجرات کی ہوگی کل سارے ہندوستان میں اس کی صدائے بازگشت ہوگی ۔
لیکن آج گجرات کی تصویر کچھ اور ہے اور وہی تصوراتی گجرات سی بی آئی دائرہ تحقیقات میں ہے اور ملک کی سب سے باوقار تحقیقاتی ایجنسی جس کا کام صرف تحقیقات ہے وہ ایک سیاسی دنگل بنی ہوئی ہے جہاںپر جرم اور سیاسیساز باز سرگرم عمل ہے ۔ گجرات ماڈل آخر ہے کیا ؟ سیاسی ! اصطلاح میں اس کی تفہیم یہ ہے کہ بی جے پی اور بیرون بی جے پی سب سے اعلیٰ ترین قیادت مودی ہی کی ہے اور اسکے علاوہ جو بھی قوتیںہیں ان سب کو تہہ تیغ کردینا چاہیئے ۔ 2014ء میں گجرات میں سینئر لیڈز کو ایک پریوار کا حصہ تصور کیا جاتا تھا لیکن اب صرف بلامجد صرف ایک ہی ہستی وہ بگ باس ہے اور اس نام نہاد گجرات ماڈل کو مزید پُرکشش بنانے کیلئے ایک اور حسین فقرہ اس میں جوڑ دیا گیا وہ ’’ متحرک گجرات ‘ ‘ ہے جو صرف اعلیٰ ترقی ‘ وکاس کے مترادف ہے اور گجرات کے جو سیاہ پہلو ہیں جیسے منقسم کمیونٹیز ‘ علاقائی اور آمدنی غیر مساوات وغیرہ کو پس پشت ڈال کر صرف ظاہری چمک دمک و کشش کو ہی ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ۔ گجرات ماڈل کی سب سے نمایاں خصوصیت وزیراعظم مودی کی شخصیت کو اسطرح سے پیش کیا گیا کہ وہی صرف ایک فیصلہ کن اور ریاست کی غیرکارگردگی کو سدھارنے والی شخصیت ہے اور سارے ملک میں گجرات کی اس طرح تعریف کی گئی ‘ خاص طور پر تجارتی گھرانوں کی جانب سے کہ گجرات ہی ملک کی واحد ریاست ہے جہاں پر انفرادیت کو ادارتی سطح پر فوقیت حاصل ہے ۔ گجرات چیف منسٹر آفس کا وہ درجہ ہے کہ جہاں پر رشوت ستانی نگران کار بھی سیاسی آقاؤں کے تابع ہیں اور اس کی سب سے بہترین مثال ریاستی لوک آیوکت کا تقرر ہے جس میں وزیراعلیٰ اور گورنر کے درمیان رستہ کشی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ اعلیٰ ترین تقررات میں بھی دستوری اتھاریٹی کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ۔
گجرات ماڈل جس کی خاص بات مرکوزیت ہے کو پرائم منسٹر آفس ( پی ایم او ) پر لاد دیا گیا جہاں پر حکومت کے مختلف النوع اختیارات اور فرائض منصبی کو ایک کنٹرولنگ اتھاریٹی کے تابعدار بنا دیا گیا ۔ اس افراتفری کی بہترین حالیہ مثال سی بی آئی کی اندرونی جنگ ہے جو اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ کسی ایک ریاست کے طرز حکمرانی کو دوسری جگہ ماڈل کے طور پر استعمال کرنے کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں اور اس بحران کی ابتداء کا آغاز دراصل اس وقت سے ہوا جب سے پی ایم او آفس نے متنازعہ گجرات آئی پی ایس آفیسر راکیش آستھانہ کو ملک کے سب سے اعلیٰ تحقیقاتی ادارہ کا نائب سربراہ مقرر کیا گیا اور ایک خاموش بغاوت محض سپریم کورٹ کی مداخلت کے باعث ہوتے ہوتے رہ گئی ۔ آستھانہ گجرات کے اُن آئی پی ایس اور آئی اے ایس آفیسرز میں سے صرف ایک ہے جن کو اہم حیاتی حکومتی اداروں میں تعین کیا گیا ہے ۔ ان تقررات کے باعث گجرات کیڈر آفیسرز میں غیر متوازن تقررات کا عمل شروع ہوگیا اور ان آفیسرز کی اکثریت سابق میں گجرات سی ایم او میں کام کرچکی تھی ۔ اس عمل کیلئے دلائل یہ دیئے جاسکتے ہیں کہ سابق میں بھی وزرائے اعظم اپنے اپنے پسندیدہ آفیسرز کو اپنے قریب رکھا کرتے تھے لیکن اپنے قریبی بھروسہ مند آفیسر کو اپنے قریب تعینات کرنا ایک چیز ہے لیکن اس کیلئے چند اور اہم اداروں پر دستوری طریقہ کار کو بالائے طاق رکھ کر تقررات اور تعیناتی ایک مختلف موضوع ہے ۔
آر بی آئی گورنر رگھو رام راجن کی علحدگی سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ حکومت اپنے خلاف اٹھائی گئی کسی بھی آواز کو برداشت نہیں کرسکتی اور جبکہ سی بی آئی تنازعہ اس پر بھی سنگین اور نقصان دہ ا لزام ہے ۔ مودی حکومتنہ صرف حساس اداروں میں سیاسی مداخلت کاری کی مرتکب ہوئی ہے بلکہ ایسے آفیسر جو پہلے سے داغدار ہیں ان کی بھی پشت پناہیکی ہے ۔
ایک بات قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم کا اپنے آپ کو شفاف اور صاف شبیہہ بناکر رشوت کے خلاف جنگ کا اعلان کرنا ۔ اُن کا مشہور زمانہ نعرہ ’’ نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا ‘‘ اس کی مثال ہے ۔ بھتہ خوری ریاکٹ کو چلانے کے الزام میں آستھانہ کے خلاف ایس آئی آر درج نہ کرنے پر آلوک ورما نے نصف شب کو علم بغاوت بلندکردیا اور فوری طور پر تحقیقاتی ٹیم کو تبدیل کردیا گیا ۔ ان تمام واقعات کا تسلسل کہاں ملتا ہے ؟ کیا دونوں آفیسرز کو اس لئے فارغ کردیا گیا کہ وہ آپسی رستہ کشی کے ذمہ دار تھے یا پھر متنازعہ رافیل سودے بازی کی تحقیقات شروع ہونے والی تھیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسٹر آستھانہ کے خلاف لگائے گئے سنگین الزامات کی تحقیقات ہوتییا پھر اس کو اس طرح زمین میں دفن کردیا جائے گا کہ وہ قصہ پارینہ بن جائے گا ۔ ہوسکتا ہے کہ ان سنگین سوالات کے جوابات دینے کیلئے یا پھر اپنے سکوت توڑنے کیلئے وزیر اعظم کے پاس وقت درکار ہے جو اپنی ’’ من کی بات ‘‘ کہہ سکے ۔( تحت اللفظ)
پوسٹ اسکرپٹ :۔ جب یو پی اے برسراقتدار تھی تو سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو ’’ پنجرہ کا طوطا ‘‘ کہا تھا تو پھر اب این ڈی اے اقتدار میں جبکہ سی بی آئی اندرونی جنگ کا شکار ہے ‘ کیا کہا جائے گا ؟ شائد سیاسی مداخلت کاری کو ختم کرنے کیلئے ایک گِد اپنے ہی نعش کو کھرچ کھرچ کر کھارہی ہے ۔