رام پنیانی
گاندھی جی اور انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) کے بارے میں کئی کئی جلدیں لکھی جاچکی ہیں۔ دونوں کے تعلق سے مختلف النوع آراء ہیں۔ ان کے بارے میں رائے کا انحصار اظہار خیال کرنے والے شخص کے نظریہ پر ہوتا ہے۔ زیادتی کے موجودہ ماحول میں مزید اضافہ کے طور پر حال ہی میں (جون 2017ء) صدر بی جے پی امیت شاہ نے گاندھی جی کو چتر (Chatur) بنیا (بیوپاری ذات) قرار دیا۔ گاندھی جی کی اس طرح خاص شناحت کے ساتھ امیت شاہ نے بانی ٔ پاکستان محمد علی جناح کی تقلید کی ہے جنھوں نے خود بھی گاندھی جی کو ’بنیا‘ کہا تھا، جو اُن کی پیدائشی ذات تھی۔
گاندھی جی نے ذات کی کمیوں پر اپنی سوچ و فکر اور اپنے اعمال کے ذریعے قابو پایا۔ 1922ء کی بات ہے جب ایک مجسٹریٹ نے عدالت نے دریافت کیا تھا کہ اُن کی ذات کیا ہے، گاندھی جی نے کہا تھا کہ وہ کسان اور جلاہا ہیں۔ جہاں وہ نظریاتی طور پر ’ورناشرم دھرم‘ پر قائم رہے جو ذات پات والے نظام کی نظریاتی بنیاد ہے، وہیں عملی طور پر ذات پات کی تمام تر بندشوں سے ٹکراتے ہوئے، تمام ذاتوں کے لوگوں سے رشتہ رکھتے ہوئے، اپنے سابرمتی آشرم میں دلت خاندان کو مقیم رہنے کی ترغیب دیتے ہوئے، خود دہلی میں درج فہرست طبقات کی کالونیوں میں قیام کرتے ہوئے، نیز صاف صفائی کا کام خود انجام دیتے ہوئے ان پر قابو پایا۔امیت شاہ کا دیگر نکتہ کانگریس پارٹی کی نوعیت کے تعلق سے رہا۔ انھوں نے کہا: ’’کانگریس پارٹی کو ایک برطانوی شخص نے کلب کے طور پر تشکیل دیا تھا۔ اسے بعد تنظیم بنایا گیا جو جدوجہد آزادی میں مشغول ہوئی۔‘‘ انھوں نے کانگریس کو کھوکھلا ادارہ بھی قرار دیا جو کوئی نظریاتی عہد نہیں رکھتا سوائے مخالف سامراجیت۔ ان کی یہ دونوں باتیں سطحی معلومات اور قومی تحریک کی قیادت کرنے والی پارٹی کی پیچیدگی ٔ آغاز نیز جدوجہد کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
جب انگریزوں نے جدید ذرائع حمل و نقل، عصری تعلیم اور صنعت کاری متعارف کرائے، سوسائٹی تیزی سے بدلنے لگی اور نئے نئے سماجی طبقات، صنعت کار، انڈسٹریل ورکرز اور عصری تعلیم یافتہ طبقات اُبھرنے لگے۔ ان گروپوں نے بتدریج تاڑ لیا کہ برطانوی پالیسیوں کا مقصد انگلینڈ کو انڈیا کی قیمت پر مالامال کرنا ہے؛ انھوں نے یہ بھی دیکھا کہ ہندوستان کی پوشیدہ طاقت کو بڑھانے کیلئے معقول سہولتیں پیدا نہیں کی جارہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں کئی تنظیمیں وجود میں آئیں، جیسے دادابھوئے نوروجی کی ایسٹ انڈیا اسوسی ایشن (1866ء)، آنند موہن اور سریندر موہن بوس کی انڈین اسوسی ایشن (1876)، جسٹس راناڈے کی پونے سرواجنیک سبھا (1870) اور ویرا راگھوچاری کی مدراس مہاجن سبھا (1884)۔ ان تنظیموں نے ایک آل انڈیا آرگنائزیشن کی ضرورت محسوس کی۔
اس دوران برٹش آفیسر لارڈ او اے ہوم کو بھی ہندوستانیوں کیلئے کل ہند تنظیم کا خیال آیا۔ کئی لوگوں کا تاثر ہے کہ وہ ہندوستانیوں کے طبقات میں دبے غصے کو ختم کرنے کیلئے ’سیفٹی والوو‘ کے طور پر کام کرنے کا مشتاق تھا۔ ان سب تنظیموں نے لارڈ ہوم کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے کانگریس کی تشکیل عمل میں لائی جس کی واضح حکمت یہی رہی کہ انگریزوں کی عداوت کو ٹالا جائے، اور ساتھ ہی ایسا پلیٹ فارم بنایا جائے جو ہندوستانی شہری کے ضمیر کو سیاسی اور معاشی فروغ کیلئے جھنجھوڑ سکے۔ عصری ہندوستانی تاریخ داں بپن چندرا کے مطابق ہندوستانی شہریوں نے لارڈ ہوم سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے کانگریس کو اُبھرتے انڈیا کیلئے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا۔قومی تحریک ابھرتے طبقات کی امنگوں پر مبنی رہی جب کہ فرقہ پرست تنظیموں کی جڑیں زمینداروں اور راجہ ۔ نواب کے زوال پذیر طبقوں میں پیوست تھیں۔ لہٰذا، محض برطانوی افسر کی خیالی صورت گری کے بجائے جس کا امیت شاہ ہمیں یقین دلانا چاہتے ہیں، لارڈ ہوم کی سعی ہندوستانی قوم پرستوں کیلئے بہترین راستہ رہا کہ اپنے سیاسی عزائم کا اظہار کریں۔
قومی تحریک کی عملی طور پر تاسیس آزادی، مساوات اور بھائی چارہ کی بنیادوں پر ہوئی۔ اس عمل میں تمام مذاہب، ذاتوں اور خطوں کے لوگ جوش و خروش سے کانگریس موومنٹ کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ اُصولوں سے عاری آرگنائزیشن ہونے کی بجائے جیسا کہ امیت شاہ کا بیان ہے، قومی تحریک اور کانگریس کی جڑیں ٹھوس طور پر ہندوستانی قوم پرستی، سکیولرازم اور جمہوریت میں پیوست رہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہندو فرقہ پرستوں (امیت شاہ کے پیشرو) اور مسلم فرقہ پرستوں (جناح اینڈ کمپنی) کو پارٹی میں 1934ء تک برداشت کیا گیا۔ اس سال کے بعد کانگریس نے فیصلہ کیا کہ امیت شاہ اور جناح جیسے لوگوں کو دور ہی رکھا جائے۔ یہ بھی درست ہے کہ بعض ہلکے فرقہ پرست عناصر بدستور کانگریس میں رہے لیکن اُن کا غالب نظریہ ہندوستانی قوم پرستی تھا۔
قومی تحریک نے قومی احساسات پر توجہ مرکوز رکھی۔ یہ اس فرقہ وارانہ سوچ کے برعکس رہا جس پر تب مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا۔ آر ایس ایس کام کرتے رہے۔ قومی تحریک نے ملک کو غربت میں ہی مبتلا رکھنے برطانوی کوششوں کو دیکھتے ہوئے معاشی پالیسیوں کی مخالفت شروع کردی۔ آئی این سی کی قیادت میں اس تحریک کا اصل منشاء قوم کو مذہب، خطہ اور ذات کی حدود سے قطع نظر متحد کرنا رہا۔ دلچسپی کی بات ہے کہ جہاں آئی این سی نے زیادہ تر ہندوؤں اور مسلمانوں کو متحد کرتے ہوئے انھیں قومی تحریک میں شامل کیا، وہیں مسلم لیگ نے صرف مسلمانوں کے ساتھ اور ہندو مہاسبھا و آر ایس ایس نے صرف ہندوؤں سے وابستگی رکھی۔ یہ اور بات ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی اکثریت فرقہ پرست تنظیموں کو چھوڑتے ہوئے قومی تحریک کا حصہ بن گئے۔قومی تحریک نے سماجی اصلاحات کے بڑے مسائل کی یکسوئی بھی کی۔ گاندھی جی کی چھوت چھات کے خلاف مہم نے ذات پر مبنی رواجوں کی ایک طرح سے بنیادیں ہی ہلا کر رکھ دیئے۔ شروعات میں ان مسائل کیلئے جدوجہد سامراجی نظام کے چوکھٹے میں ہی ہوئی، بعد میں یہ مخالف سامراج تحریک کی شکل بن گئی۔ گاندھی جی۔ کانگریس زیرقیادت قومی تحریک تقابلی طور پر اس طرح برعکس رہی کہ مسلم لیگ کا دعویٰ رہا کہ ’’ہم تو محمد بن قاسم کے وقت سے ہی مسلم قوم ہیں‘‘، اور ہندو مہاسبھا۔ آر ایس ایس والے کہتے رہے کہ ’’ہم تو ناقابل قیاس وقتوں سے ہندو قوم ہیں‘‘۔
اس طرح امیت شاہ کا جو کچھ کہنا ہے وہ ہندو قوم پرست طبقہ کی گاندھی جی اور ہندوستانی قوم پرست تحریک کے تئیں نفرت کا تسلسل ہے۔ وہ گاندھی جی کو مسلمانوں کو بڑھاوا دینے اور ہندو قوم کو کمزور بنانے نیز ملک کو تقسیم کرنے کا موردِالزام ٹھہراتے ہیں۔ یہی خیالات نے گاندھی جی کے تعلق سے نفرت پیدا کی، جو سبب بنی کہ اس سے متاثرہ ایک شخص ناتھورام گوڈسے انھیں قتل کردیا۔ اس نفرت کا اظہار گاندھی جی کے قتل پر آر ایس ایس کی جانب سے شیرینی کی تقسیم کے ذریعے ہوگیا۔ (سردار پٹیل کا خط، 11 سپٹمبر 1948ء) ۔ آج انتخابی وجوہات کی بنا وہ جو اکثریت کی اساس پر تقسیم پر یقین رکھتے ہیں، اس طرح کھلے طور پر گوڈسے کی زبان میں بات نہیں کرسکتے، جس میں ہنوز ہندوستانی قوم پرستی کی مخالفت ہورہی ہے۔ وہ اسی طرح ہلکے اشتعال کا استعمال کرتے آرہے ہیں تاکہ ہندوستانی قوم پرستی اور ذات پات کی تبدیلی کے عمل کو ماند کردیا جائے جو تحریک آزادی کا حصہ رہے۔