گاندھی بھلا غدار کیسے ہوسکتے ہیں !!! کودنڈارام کے بڑھتے قدم روک دیئے گئے

محمد نعیم وجاہت
تلنگانہ تحریک کے ہیرو پروفیسر کودنڈا رام کو علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد تلنگانہ کا گاندھی قرار دیا جانا چاہئے تھا تاہم ٹی آر ایس حکومت کی جانب سے انھیں غدار اور مجرم قرار دیتے ہوئے ان کا انتہا پسندوں سے تعلق جوڑا جارہا ہے۔ یہی نہیں حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تلنگانہ پولٹیکل جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے صدرنشین انتہا پسند ہیں، یا دہشت گرد ہیں یا پھر آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ بھی نہیں ہے ، صرف جہد کار ہیں تو حکومت ان سے اتنی خوفزدہ کیوں ہے۔ دھرنا دینے کے لئے مختص دھرنا چوک اندرا پارک پر انھیں دھرنا دینے اور ریالی منظم کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی جبکہ ریالی و دھرنا منظم کرنے کے لئے تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے 20 دن قبل ہی تحریری طور پر درخواست دیتے ہوئے پولیس سے اجازت طلب کی تھی۔ رات کے 3 بجے پروفیسر کودنڈا رام کے گھر کا دروازہ توڑ کر انھیں گرفتار کرنے کی پولیس کو ضرورت کیوں پیش آئی۔ پروفیسر کودنڈا رام کے ساتھ اس طرح کا سلوک متحدہ آندھراپردیش میں بھی نہیں کیا گیا۔ پروفیسر کودنڈا رام نے حکومت کا حصہ نہ بن کر کوئی غلطی کی ہے یا انھیں تحریک کے دوران ٹی آر ایس کی جانب سے نوجوانوں سے کئے گئے وعدوں کو یاد دلانے پر سزا دی جارہی ہے۔ ایک وہ بھی زمانہ تھا جب تلنگانہ تحریک کے دوران متحدہ آندھرا حامی قائدین پروفیسر کودنڈا رام کے خلاف کوئی تنقید کرتے تو کے سی آر انھیں زبان کاٹ دینے کا انتباہ دیا کرتے تھے۔ آج خود ٹی آر ایس کے قائدین صدرنشین جے اے سی کے خلاف بے لگام بات کررہے ہیں اور چیف منسٹر تلنگانہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ لب کشائی سے ان کا گریز کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ سب کچھ ان کی مرضی سے ہورہا ہے۔ تلنگانہ تحریک کے ایسے کئی ویڈیو کلپس ہیں جو سوشیل میڈیا پر تیزی سے گشت ہورہے ہیں جس میں کے سی آر کو یہ کہتے ہوئے بتایا گیا کہ علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد ہر گھر کو ایک ملازمت دینے ضرورت پڑی تو چار ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ تقررات کے لئے جائیدادیں نہیں رہی تو خصوصی طور پر نئی جائیدادیں ایجاد کرنے کا بھی بھروسہ دلایا گیا۔ سربراہ ٹی آر ایس کے ان وعدوں سے متاثر ہوکر ملازمتیں ملنے کی اُمید میں نوجوان طبقہ تلنگانہ تحریک کا حصہ بن گیا۔ اس وقت جب اسکولی طلبہ کو تلنگانہ تحریک میں شامل ہونے کی وجہ دریافت کی گئی تو انھوں نے بلا جھجک علیحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل پانے پر سرکاری ملازمتیں حاصل ہونے کا دعویٰ کیا۔ ایک قدم آگے بڑھ کر جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اتنی ملازمتیں آئیں گی کہاں سے ان کا جواب یہی تھا کہ ریاست کی تقسیم کے بعد آندھرا کے ملازمین آندھرا چلے جائیں گے اور جو جائیدادیں مخلوعہ ہوں گی ان پر تلنگانہ کے بے روزگار نوجوانوں کا تقرر کیا جائے گا۔ تعجب کی بات ہے چیف منسٹر نے اسمبلی میں ایک لاکھ 7 ہزار جائیدادیں مخلوعہ ہونے کا اعلان کیا۔ اضلاع کی تنظیم جدید کے بعد ہر ضلع میں مزید 30 ہزار جائیدادوں پر تقررات کی گنجائش فراہم ہونے کا دعویٰ کیا جس سے بے روزگار نوجوانوں میں حکومت سے نئی اُمیدیں وابستہ ہوئی تھی۔ دوسرے ہی دن اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تقررات نہ کرنے کا سوال اٹھایا گیا تو چیف منسٹر نے دو ٹوک انداز میں جواب دیتے ہوئے کہاکہ تعلیم حاصل کرنے والے ہر نوجوان کو ملازمت فراہم کرنا ضروری نہیں ہے۔ حکومت کے پاس جب گنجائش ہی نہیں ہے تو وہ کہاں سے تقررات کرسکتی ہے۔ ان ریمارکس سے چیف منسٹر کا اصلی چہرہ منظر عام پر آگیا ہے۔ تحریک کے دوران ہر گھر کو تین تا چار ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اقتدار حاصل ہوتے ہی تقررات کے لئے گنجائش نہ ہونے کا بہانہ کیا جارہا ہے۔ ایسی صورتحال میں پروفیسر کودنڈا رام بے روزگار نوجوانوں کے ساتھ ریالی منظم کرتے ہوئے حکومت پر جمہوری انداز میں دباؤ بنانے کی کوشش کررہے ہیں تو وہ حکومت کے لئے کیوں کھٹک رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہائیکورٹ میں پولیس کی جانب سے یہ دلیل پیش کی گئی کہ اس ریالی میں انتہا پسند شریک ہونے کی انھیں اطلاعات ہے جس سے شہر کا لاء اینڈ آرڈر بگڑ سکتا ہے۔ یہی نہیں یہاں تک کہہ دیا گیا کہ پروفیسر کودنڈا رام کے خلاف کئی مقدمات درج ہیں اور ان کے حامیوں نے ہی ملین مارچ احتجاج کے دوران ٹینک بنڈ پر موجود آندھرائی اقتدار کی علامت سمجھے جانے والے مجسموں کو نقصان پہنچایا تھا۔

ریالی کی اجازت نہ دینے کی اصل وجوہات کچھ اور ہی ہیں۔ 61 سالہ پروفیسر کودنڈا رام کو تلنگانہ تحریک کے دوران کئی کامیاب ریالیاں اور جلسے کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ انھوں نے سیاسی قائدین، طلبہ، سرکاری ملازمین، وکلاء، ڈاکٹرس، انجینئرس، صحافیوں، ادیبوں، فنکاروں، رضاکارانہ تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹیاں تشکیل دیتے ہوئے انھیں تلنگانہ کی تحریک کی طرف راغب کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ خاموش مزاج نظر آنے والے پروفیسر کودنڈا رام تحریک کے دوران کافی سرگرم رہے۔ ٹی آر ایس کو ان کی طاقت کا اندازہ ہے۔ اگر وہ ریالی منظم کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو حکومت کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لئے منظم حکمت عملی کے ذریعہ ان کی ریالی کو ناکام بناتے ہوئے حکومت کی جانب سے ریالی فلاپ ہوجانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ ایک طرف حکومت انھیں جہاں اپوزیشن کا ایجنٹ قرار دے رہی ہے وہیں تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش تیز  کردی گئی ہے۔ ریالی کو ناکام بنانے کے لئے حکومت کی جانب سے کی گئی کوشش نے چنگاری کو جنم دیا ہے جس کو آگ کے شعلوں میں تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگ سکتی۔ مقصد کے حصول کے لئے چلائی جانے والی تحریک حصول مقصد کے بعد ختم ہوجاتی ہے لیکن علیحدہ ریاست تلنگانہ کے لئے تحریک اب بھی جاری ہے۔ تشکیل تلنگانہ کا مقصد آندھراپردیش کے نقشے میں ایک لکیر کھینچنا یا ملک کے نقشے میں ایک نئی ریاست بنانا ہرگز نہیں تھا بلکہ 6 دہوں پر مشتمل اس مہم نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں جس میں 2014 ء میں ایک مرحلہ کی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور ہندوستان کے نقشے میں تلنگانہ 29 ویں ریاست بن کر اُبھری ہے۔ تلنگانہ تحریک ٹی آر ایس کو اقتدار حوالے کرنے کی کوشش نہیں تھی۔ بلکہ ارباب اقتدار کی جانب سے تلنگانہ کے عوام سے کی جانے والی ناانصافیوں کے خاتمے کی تحریک تھی۔ متحدہ ریاست میں تلنگانہ کے عوام کو آندھرائی حکمرانوں سے ناانصافی کی شکایت تھی اور اب تحریک تلنگانہ کے مفاد پرستوں کے خلاف جاری رکھنا ناگزیر ہوچکا ہے کیوں کہ ریاست تو بن گئی لیکن صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ حکومت کی جانب سے حیدرآباد کے وقار کو پامال ہونے سے بچانے کے لئے ریالی کی اجازت نہ دینے کی دلیل پیش کی جارہی ہے جو حد درجہ اخلاقی گراوٹ کے مترادف ہے۔ سال 2000 ء کے دوران شہر حیدرآباد کو چندرابابو نائیڈو نے ٹیکنالوجی کے مرکز کی حیثیت سے عالمی شہرت یافتہ بنادیا تھا۔ تلگودیشم کی حکومت نے بھی تلنگانہ کی تحریک چلانے والوں پر ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا تھا۔ جبکہ ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی نے 2004 ء میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد جلا یگنم اسکیم کے تحت ریاست میں کئی آبپاشی پراجکٹس کی تعمیرات کا آغاز کیا تھا۔ ماضی کی حکومتوں نے تلنگانہ تحریک کو کچلنے کے لئے جو طریقہ کار اپنایا تھا ، احتجاج کو دبانے کے لئے چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر بھی وہی راستہ اختیار کررہے ہیں۔ پروفیسر کودنڈا رام اور بے روزگار نوجوانوں سے حکومت تلنگانہ نے جو سلوک کیا ہے

اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صرف اقتدار کی کرسی پر فائز ہونے والے تبدیل ہوتے ہیں لیکن ان کے فکر اور نظریات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ پروفیسر کودنڈا رام تلنگانہ تحریک کے دوران پروفیسر جئے شنکر کے جانشین کے طور پر اُبھرے ہیں لیکن پروفیسر جئے شنکر باضابطہ ٹی آر ایس میں شامل ہوئے تھے۔ تلنگانہ تحریک میں نوجوانوں، طلبہ اور ملازمتیں کے تعاون کے بغیر تحریک میں شدت پیدا ہونا ممکن بھی نہیں تھا۔ ایسے دور میں سنجیدہ فکر، ترقی، ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے جذبے اور اعداد و شمار کے ساتھ حقائق کو پیش کرنے والے باصلاحیت جہدکار کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے پروفیسر کودنڈا رام کو میدان میں اُتارا گیا۔ جنھوں نے تلنگانہ تحریک میں نئی روح پھونکتے ہوئے تحریک کو ٹی آر ایس کی میراث بننے سے بچایا اور اس کو عوامی تحریک میں تبدیل کردیا۔ حکومت تلنگانہ کو پروفیسر کودنڈا رام سے شخصی اختلاف ہے کیوں کہ ایک سیاسی جماعت نے 14 سال جس تحریک کا استحصال کیا اُس تحریک کو فرد واحد نے نظریاتی اُصولوں پر جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کردیا۔ اندرون 5 سال تحریک کے پہلے مرحلے کو کامیاب بناتے ہوئے تشکیل علیحدہ تلنگانہ ریاست کے خواب کو شرمندہ تعبیر کردیا۔ علیحدہ ریاست کی تشکیل کے فوری بعد حکومت نے پروفیسر کودنڈا رام کی ملازمت کے مسئلہ پر اختیار کردہ موقف کے ذریعہ یہ ثابت کردیا کہ ٹی آر ایس پروفیسر کودنڈا رام کو گوشہ گمنامی میں پہنچانا چاہتی ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے۔ کسی بھی تحریک کے قائد کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات سے ٹی آر ایس بخوبی واقف ہے اور پروفیسر کودنڈا رام کی بے روزگار نوجوانوں کے لئے ریالی جس مقصد کے لئے نکالی جارہی تھی اس کو اگلے مرحلے کا آغاز تصور کرتے ہوئے اس کو روکنے کی ہرممکن کوشش کی جس سے یہ واضح ہوگیا کہ حکومت کو اپنے مقصد میں عارضی کامیابی بھی نہیں مل پائی ہے۔ مگر حکومت کے خلاف ایک نئے محاذ کا جنم ہوگیا ہے۔ ریالی کو روکنے کے لئے ساری سرکاری مشنری متحرک ہوگئی۔ 5 ہزار سے زائد طلبہ و بے روزگار نوجوانوں کو گاؤں سے ریاست کے صدر مقام حیدرآباد تک گرفتار کرلیا گیا۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے بشمول ریاست کے دوسری یونیورسٹیز کے طلبہ کو یونیورسٹیز سے باہر نکلنے نہیں دیا گیا۔ حکومت کے اس رویہ سے پھر ایک بار پروفیسر کودنڈا رام عوامی قائد بن کر اُبھرے ہیں۔ ان کی عوامی مقبولیت سے حکمراں جماعت کے قائدین خوفزدہ ہیں۔ منظم سازش کے تحت ان کی نیک نامی کو متاثر کرنے کے لئے نت نئے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔ چیف منسٹر کے فرزند ریاستی وزیر کے ٹی آر نے انھیں کانگریس کا ایجنٹ قرار دیا اور نوجوانوں کو حکومت کے خلاف مشتعل کرنے کا الزام عائد کیا۔ وزیرداخلہ این نرسمہا ریڈی نے اپوزیشن جماعتوں سے ساز باز کرتے ہوئے حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کا پروفیسر کودنڈا رام پر الزام عائد کیا۔ کونسل کے گورنمنٹ وہپ پی راجیشور راؤ نے غیر سماجی عناصر کے ساتھ ریالی منظم کرنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے بے روزگار نوجوانوں کی توہین کرنے کی کوشش کی۔ ٹی آر ایس کے نوجوان رکن پارلیمنٹ سمن نے ریالی کو فلاپ شو قرار دیتے ہوئے ریالی میں شرکت نہ کرنے والے نوجوانوں سے اظہار تشکر کیا۔