خلیل قادری
گائے کے نام پر قیمتی انسانی جانوں کا اتلاف اور قتل و خون کا ایک لامتناہی سلسلہ ہندوستان بھر میں چل پڑا ہے ۔ یہ بھی ایک قابل غور پہلو ہے کہ گائے کے نام پر مسلمانوں کو مار پیٹ کرکے ظالمانہ انداز میں موت کے گھاٹ اتاردینے کے اکثر و بیشتر واقعات ان ریاستوں میں پیش آ رہے ہیں جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں۔ جس طرح سے ایک دور میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ چل پڑا تھا اور کئی موقعوں پر مسلم نوجوانوں کو فرضی انکاؤنٹرس میں ہلاک کرتے ہوئے ایک من گھڑت کہانی پیش کردی جاتی تھی کہ ان نوجوانوں نے ملک میں دہشت گردی کے منصوے بنائے تھے یا پھر وہ کسی نام نہاد ہندو لیڈر کو قتل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور جب انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے فائرنگ کردی اور پولیس کی جوابی فائرنگ میں یہ مارے گئے ہیں۔ یہ کہانی ہر فرضی انکاؤنٹر کے وقت دہرائی گئی تھی ۔ اب بھی اسی طرح کی من گھڑت کہانی پیش کرتے ہوئے گائے کے نام پر مسلمانوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو دفاع کا موقع فراہم کرنے کے مقصد سے پیش کی جا رہی ہے ۔ ان واقعات کو ایک منظم سازش اور منصوبہ بند حملے کے زمرہ سے علیحدہ کرنے کیلئے یہ کہا جا رہا ہے کہ اچانک ایک بھیڑ جمع ہوگئی اور اس نے برہمی کے عالم میں مار پیٹ کرتے ہوئے کسی بے گناہ اور معصوم کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے ۔ حقیقت حال ایسی نہیں ہے ۔ جو لوگ منصوبہ بند انداز میں مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں انہیں غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں وہ ایک دوسرے کیلئے اجنبی یا راہ چلتے راہ گیر نہیں ہیں۔ یہ لوگ ایک ہی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ گذشتہ دنوں جب عید کی خریداری سے اپنے گاوں واپس ہورہے معصوم نوجوان جنید کو ٹرین میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا تو اس کے دوسرے دن سی پی ایم کی پولیٹ بیورو رکن برندا کرت اس گاوں پہونچ گئیں اور انہوں نے اس موقع پر مطالبہ کیا تھا کہ جہاں کہیں اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں وہاں ملزمین کی سیاسی وابستگی کی تحقیقات ہونی چاہئیں ۔ یہ ایک انتہائی اہم اور قابل غور نکتہ ہے ۔ یقینی طور پر جو گاؤ دہشت گرد مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کا سر عام قتل کر رہے ہیں ان کی سیاسی وابستگیوں کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئیں ۔ جب یہ تحقیقات ہونگی تبھی ان سارے واقعات کے پس پردہ جو سازش ہے اس کا پردہ فاش کیا جاسکتا ہے ۔
محض پولیس کی جانب سے ایسی کارروائیوں کو برسر موقع برہمی کا بہانہ پیش کرتے ہوئے ملزمین کو بچنے کا موقع فراہم نہیں کیا جاسکتا ۔ اس سے انصاف کے تقاضوں کی تکمیل نہیں ہوتی بلکہ جو لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر غیر قانونی حرکتیں کر رہے ہیں اور ہندوستان کی سڑکوں پر بے گناہوں کا خون بہا رہے ہیں ان کے حوصلے مزید بلند ہونگے ۔ بے گناہوں کے قتل و خون کا یہ سلسلہ اگر روکنا ہے تو مرکزی حکومت کو مداخلت کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس مسئلہ کو محض ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے مرکز اپنی ذمہ داری سے فرار حاصل نہیں کرسکتا ۔ خاص طور پر اس صورت میں جبکہ مرکز میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے اور جن ریاستوں میں یہ واقعات پیش آ رہے ہیں ان میں سے بیشتر میں بھی بی جے پی ہی برسر اقتدار ہے ۔
آج صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ خون مسلم کو انتہائی ارزاں سمجھا جا رہا ہے ۔ محض ایک جانور کی حفاظت کے نام پر انسانوں کا خون بہانے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ حکومتیں بھی اپنے سیاسی مفادات اور ایجنڈہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ مرکزی حکومت ان ریاستوں سے رپورٹس تک طلب کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ایک مرکزی وزیر مسلم نوجوانوں کی ہلاکتوں کی مذمت تک کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ اقتدار کی چاپلوسی کی انتہائی مثال ہے ۔ ایسی صورتحال میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہندوستان کے انصاف پسند اور امن پسند عوام صدائے احتجاج بلند کریں۔ جب تک عوام اپنے احتجاج کی طاقت کا مظاہرہ نہیں کرینگے اس وقت تک حکومتوں کے جاگنے کی امید کرنا فضول ہے ۔ دادری میں اخلاق سے لے کر الوار میں پہلو خان تک اور محسن شیخ سے لے کر آسام میں ہلاک کئے گئے دو نوجوانوں تک اور اب ایک معصوم اور بے گناہ جنید تک یہ لا متناہی سلسلہ چل رہا ہے ۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم اس مسئلہ پر بیان بازی کو کافی سمجھنے لگے ہیں۔ چند ماہ قبل بھی انہوں نے گاؤ رکھشکوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی شبیہہ کو بہتر بنانے کی کوشش کو ہی کافی سمجھا تھا اور اب بھی انہوں نے محض چند جملے کہتے ہوئے خود کو بچانے کی کوشش کی ہے ۔ حالانکہ جس وقت نریندر مودی گجرات میں اس قتل و خون کے سلسلہ کی ظاہری طور پر مذمت کر رہے تھے اسی وقت ان ہی کی پارٹی کے اقتدار والی ریاست جھارکھنڈ میں ایک اور نوجوان کو پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتارا جا رہا تھا ۔ نفاذ قانون کی ایجنسیاں یہ جواب دینے کے موقف میں نہیں ہیں کہ جہاں انسانوں کا قتل تو ہو رہا ہے لیکن اس کے خاطیوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں ہو رہی ہے ۔ ہر معاملے میں محض ضابطہ کی تکمیل کی جا رہی ہے جس سے ان عناصر کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں جو ہندوستان کے پرامن ماحول کو پراگندہ کر رہے ہیں اور ملک میں بے چینی اور نراج کی کیفیت پیدا کرتے جا رہے ہیں۔ آج صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ ہندوستان کی نہ سڑکیں محفوظ ہیں اور نہ ٹرینیں محفوظ رہی ہیں۔ ملک میں بدامنی اور لا قانونیت کی اس سے بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے کہ سرکاری ٹرین میں سفر کرنے والے معصوم نوجوان کو چند غنڈہ اور دہشت گرد عناصر پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیتے ہیں اور ساتھی مسافر بھی بالواسطہ طور پر ان کی مدد کرتے ہیں۔
ایک اسٹیشن پر خون میں لت پت نوجوان پڑے رہتے ہیں لیکن نہ ریلوے پولیس اور نہ لا اینڈ آرڈر پولیس ان کی مدد کرتی ہے ۔ انہیں ان کے انجام تک پہونچنے کیلئے بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ یہ لاقانونیت کی بدترین مثال کہی جاسکتی ہے اور اس پر ملک کے امن پسند اور اصول پسند گوشوں میں تشویش کی لہر پیدا ہونے لگی ہے۔ لوگ فکرمند ہو رہے ہیں کہ آخر یہ گاؤ دہشت گرد اس ملک کو کہاں لیجانا چاہتے ہیں۔ ان کے عزائم کیا ہیں اور وہ کہاں جا کر مطمئن ہونگے ؟ ۔ جو حالات ملک بھر میں پیدا ہوگئے ہیں اور ان میں مزید جو شدت پیدا ہو رہی ہے اس میں اس طرح کے سوالات کا پیدا ہونا فطری اور لازمی امر ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ اس طرح کے سوالات کے جواب کہیں سے نہیں مل پا رہے ہیں۔
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ انصاف پسند اور اصول پسند افراد کی صرف فکر و تشویش یا سماج کے ٹھیکے داروں اور سیاسی قائدین کے مذمتی بیانات سے یہ صورتحال قابو میں آنے والی نہیں ہے ۔ اب صورتحال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ راہ چلتے لوگ بھی خون میں لت پت بے گناہوں کو پٹتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور ان کی مدد کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں جو لوگ اس ملک میں امن چاہتے ہیں اور بدامنی اور نراج کی کیفیت کو ختم ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں انہیں آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ صرف زبانی جمع خرچ سے حالات بہتر ہونے والے نہیں ہیں۔ بیان بازیوں کا مرحلہ گذر چکا ہے اور اب سڑکوں پر اترنے اور ملک کے مستقبل کیلئے اپنی فکر کو ظاہر کرنے کا موقع ہے ۔ گذشتہ دنوں اس طرح کے واقعات کے خلاف جب ملک کے 16 شہروں میں Not In My Name کے نعرہ کے ساتھ احتجاج کیا گیا تو اس کا اثر بھی دیکھنے کو ملا ۔ اسی احتجاج کے بعد وزیر اعظم نے اس مسئلہ پر لب کشائی کی ضرورت محسوس کی ۔ اسی احتجاج کے نتیجہ میں مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو نے بھی طوعاً و کرہاً اس طرح کے واقعات کی مذمت کی ۔ امن پسند اور انصاف پسند گوشوں کو احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہوئے حکومتوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ جو لوگ گائے کے نام پر انسانوں کا خون بہانے کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں انہیں بھی یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان ان کے وحشیانہ مظالم کی تائید نہیں کرتا بلکہ ہندوستان آج بھی امن پسند عوام کی آماجگاہ ہے ۔ یہاں پرامن بقائے باہم کے اصولوں کو آج بھی اہمیت دی جاتی ہے اور انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنایا جاتا ہے ۔ اصول پسند گوشوں کو اپنی تشویش خود تک محدود رکھ کر بیٹھنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ اگر آج ان وحشی عناصر کے خلاف آواز بلند نہیں کی گئی تو جو صورتحال ہوگی اس کے ہم سب بھی ذمہ دار ہونگے ۔ پرامن اور جمہوری انداز میں احتجاج کرتے ہوئے حکومتوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی ضرورت ہے ۔ اب تک جو واقعات پیش آچکے ہیں ان پر جواب طلب کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر آج ایسا نہیں کیا جاتا تو آنے والا وقت اور بھی سنگین ہوسکتا ہے اور اس کی ذمہ داری جتنی تشدد برپا کرنے والوں کی ہوگی اتنی ہی تشدد پر خاموش تماشائی بنے رہنے والوں کی بھی ہوگی ۔
khaleeljournalist@gmail.com